وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر: 9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل

فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: مومنوں میں سے بہترین شخص قناعت پسند اور بدترین شخص لالچی ہوتا ہے۔ (فردوس الاخبار للدیلمی، 1/365، حدیث: 2707)

لالچ باطنی امراض میں سے ایک بدترین مرض ہے اس انتہائی بری عادت سے نفس کو پاک رکھنا نہایت ہی دشوار ہوتا ہے لالچ ایک ایسی خبیث عادت ہے جس کے نتیجے میں انسان بہت سے گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ جب کسی چیز کی لالچ انسان کے دل پر غالب آجائے تو شیطان اس کو خوب آراستہ کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اس لالچی شخص کے لیے معبود بن جاتی ہے اور پھر بندہ اس کی محبت کی رسی میں بندھا غور فکر کرتا رہتا ہے کہ کسی طرح اسے راضی کرسکے، حاصل کرسکے اگرچہ اللہ پاک کو ناراض کر بیٹھے،جیسے حرام کا اقرار کرنے کے باوجود اس کے لیے فریب کاری سے کام لینا،فرائض کو انجام دینے میں بخل کرنا مثلا: مال کی لالچ کے سبب زکوۃ اور صدقات واجبہ ادا نہ کرنا،یوں ہی زیادہ سے زیادہ مال کمانے کی لالچ میں فرض نمازوں کی اوقات کے پرواہ کیے بغیر مال کمانے میں مصروف رہنا اور اسی طرح جائز و ناجائز کی پرواہ کیے بغیر کمائی کے حصول میں مگن رہنا کیونکہ لالچی شخص صرف اپنے نفس کے لالچ کو پورا کرنے کی جستجو میں لگے رہتا ہے اسے جہاں چارہ نظر آتا ہے وہیں راغب ہو جاتا ہے اس بات کو جانے بنا کہ وہ چارہ استعمال کرنا اس کے لیے درست ہے بھی یا نہیں؟

لالچ وہ بلا ہے جو انسان کی دنیا و آخرت کو برباد کر دیتی ہے لالچ انسان کے اندر بھڑکتی وہ آگ جو زندگی کی کھیتی تباہ کر دیتی ہے اور رشتوں کو جھلسا دینے والی ہے کہ لالچی انسان کسی رشتے کے ساتھ مخلص نہیں ہوتا لالچ کے سبب دوست دشمن بن جاتے ہیں، بھائی بھائی کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے، اولاد ماں باپ کی نہیں رہتی کہ بے شمار گھروں میں جائیداد کی لالچ میں بھائی بھائی کا جانی دشمن ہو جاتا ہے لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں فتنہ و فساد جنم لیتا ہے اور بعض اوقات قتل و غارت گری تک نوبت آجاتی ہے اور کہیں تو بد نصیبی اور بدبختی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ لالچی اولاد اپنی لالچ کے سبب اپنے ہی ماں باپ کے دنیا سے جانے کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ (الامان والحفیظ)

فرمان مصطفی ﷺ ہے: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں،لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگی اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو گناہ میں پڑ گئے۔ (ابو داود،2/185، حدیث: 1698)

لالچ دنیا و آخرت میں ذلت اور رسوائی کا سبب ہے یہ ایسا مرض ہے جو بڑے سے بڑے نیکوں کو بھی ذلت کے گڑھے میں ڈالنے کا سبب بن سکتا ہے، تاریخ میں اسکی بے شمار مثالیں موجود ہیں جیسا کہ بلعم بن باعوراء،پرہیزگار عالم اور مستجاب الدعوات شخص ہونے کے باوجود بھی لالچ کا شکار ہوالالچ ہی وہ بلا تھی جو اس کی دنیا و آخرت کو لے ڈوبی۔لالچ کبھی ختم نہ ہونے والی بلا ہے کہ لالچی شخص تاعمر بھی اپنی لالچ کو پورا کرنے میں مصروف و مشغول رہے جب بھی اس کا جی نہیں بڑھتا ایک کے بعد ایک خواہش دل میں جنم لیتی جاتی ہے یوں لالچ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔

فرمان مصطفی ﷺ ہے:اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو وآدیاں بھی ہوں تب بھی وہ تیسری خواہش رکھتا ہے اور ابن آدم کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2419)

لالچ اور حرص وہ شے ہے کہ مرد ہو یا عورت،بوڑھا ہو یا جوان، غریب ہو یا امیر، عالم ہو یا جاہل الغرض کوئی شخص اس سے بچ نہیں سکتا، قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّؕ- (پ 5، النساء: 125) ترجمہ: اور دل لالچ کے پھندے میں ہیں۔ مکمل

تفسیر خازن میں اس آیت کے تحت ہے: لالچ دل کا لازمی حصہ ہے کیونکہ یہ اسی طرح بنایا گیا ہے۔ یعنی لالچ دل سے جڑی ہوئی ہے، یہ ایک الگ بات ہے کہ کسی کو ثواب آخرت اور نیکیوں کی لالچ ہوتی ہے،تو کسی کو مال و دولت،جاہ و حشمت، اور عزت و شہرت کی، یاد رکھیے! لالچ اچھی اور بری دونوں طرح کی ہوتی ہے اور صرف مال و دولت ہی میں نہیں بلکہ ہر شے میں پائی جاتی ہے۔

کسی چیز میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔ حضرت علامہ عبدالمصطفی اعظمی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: لالچ اور حرص کا جذبہ خوراک، لباس،مکان، سامان،دولت،عزت،شہرت الغرض ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔ (جنتی زیور، ص 111 ملخصا)

نیز لالچ کا دل میں لازمی طور پر موجود ہونے کی بنا پر اس کا ازالہ یعنی نہ ہونا تو بہت ہی مشکل بقریب ناممکن ہے لیکن اس کا ازالہ ہونا چاہیے یعنی اس کا رخ دوسری طرف پھر جانا چاہیے کہ آخرت کے معاملے میں حریص اور لالچی بن جائیے اور دنیاوی نعمتوں میں قناعت اختیار کیجیے ایک مومن کی شان یہی ہے کہ اس کے دل میں لالچ ہو تو نیکیوں کی ہو،جاہ و عزت، شہرت، مرتبت کی لالچ ہو تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک جاہ و محبت کی ہو۔

فرمان مصطفی ﷺ ہے: جس نے قناعت کی اس نے عزت پائی اور جس نے لالچ کیا ذلیل ہوا۔ (روح البیان، 1/161)

اپنے دل پر غور کیجئے! دنیاوی نعمتوں میں قناعت اختیار کیجئے، خواہشات کی کثرت پر روک تھام کیجیے، مال و دولت کی محبت اور لمبی لمبی امیدوں سے چھٹکارا پائیے، خوف خدا اور فکر آخرت پیدا کیجیے کہ دنیا اور اس کی چند روزہ زندگی فانی ہے اور آخرت اور اس کی نعمتیں دائمی ہے، قبرستان اور اس میں بوسیدہ ہونے والوں پر نظر کیجئےاور سوچیے کہ ایک دن ہم نے بھی اسی طرح قبر کی مٹی کے نیچے خاک کا سرمہ بننا ہے۔

ان شاء اللہ بری لالچ سے نجات اور نیکیوں اور ثواب آخرت کی حرص و لالچ نصیب ہوگی۔

مال و دولت کی ایسی طمع (لالچ) جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو،یا ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ ختم کردے، نہایت ہی بری گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی بیماری ہے، مال و دولت کے لالچ میں پھنسنے والا شخص ناکام اور نامراد ہے اور جو ان کے مکر و جال سے بچ گیا وہی کامیاب و کامران ہے۔ (گناہوں کی معلومات، ص 168)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بری لالچ سے بچاۓ اور نیکیوں کا لالچی و حریص بنائے اور اپنی فرمانبرداری والی زندگی گزر بسر کرنا نصیب فرمائے۔