لالچ
کی تعریف:کسی
چیز میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ
کہلاتا ہے۔ (مفردات الفاظ القرآن، ص 524)
لالچ بہت ہی
بری خصلت اور نہایت خراب عادت ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کو جو رزق و نعمت اور
مال و دولت یا جاہ و مرتبہ ملا ہے اس پر راضی ہو کر قناعت کر لینا چاہئے۔ دوسروں
کی دولتوں اور نعمتوں کو دیکھ دیکھ کر خود بھی اس کو حاصل کرنے کے پھیر میں پریشان
حال رہنا اور غلط و صحیح ہر قسم کی تدبیروں میں دن رات لگے رہنا یہی جذ بہ حرص و
لالچ کہلاتا ہے اور حرص و طمع در حقیقت انسان کی ایک پیدائشی خصلت ہے۔
یاد رکھئے!
حرص اور لالچ دو ایسے الفاظ ہیں جن کا معنی ایک ہی ہے، لالچ اردو زبان کا جبکہ حرص
عربی زبان کا لفظ ہے۔ حرص و لالچ کسی چیز کی مزید خواہش کرنے کا نام ہے اور یہ کسی
بھی چیز کی ہو سکتی ہے، جیسا کہ حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ الله علیہ
ارشاد فرماتے ہیں: کسی چیز سے جی نہ بھرنے اور ہمیشہ زیادتی کی خواہش رکھنے کو حرص
اور حرص رکھنے والے کو حریص (Greedy) کہتے ہیں۔ لہٰذا مزید مال کی خواہش رکھنے
والے کو مال کا حریص کہیں گے، مزید کھانے کی خواہش رکھنے والے کو کھانے کا حریص
کہا جائے گا، نیکیوں میں اضافے کے تمنائی (خواہش کرنے والے) کو نیکیوں کا حریص
جبکہ گناہوں کا بوجھ بڑھانے والے کو گناہوں کا حريص کہیں گے۔
شیخ الحدیث
حضرت علامہ عبد المصطفى اعظمی رحمۃ الله علیہ لکھتے ہیں: لالچ اور حرص کا جذبہ
خوراک، لباس، مکان، سامان، دولت، عزت، شهرت الغرض ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔ (جنتی
زیور، ص 111)
مال کے حریص
کے بارے ایک مقام پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے
روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ کا فرمان حقیقت نشان ہے: اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو
وادیاں بھی ہوں تب بھی یہ تیسری کی خواہش کرے گا اور ابن آدم کا پیٹ قبر کی مٹی ہی
بھر سکتی ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2419)
لہذا حریصِ
مال برا مگر حریصِ عمل اچھا، رب تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کی تعریف میں فرمایا: حريصٌ عليكم (پ11،
التوبۃ:125) ترجمہ کنز الایمان: تمہاری بھلائی کے
نہایت چاہنے والے۔ لیکن یہاں وہ لالچ کہ جس سے بچنے کا قرآن پاک میں فرمایا گیا اس
کے بارے میں سنیں گی، چنانچہ الله تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ
نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
اس آیت مبارکہ
میں لالچ سے بچنے والے کو کامیاب فرمایا گیا اور حدیث مبارکہ میں بھی طمع یعنی
لالچ سے بچنے کا حکم فرمایا گیا:
نبی کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قو میں لالچ کی وجہ سے ہلاک
ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا
خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔
(ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
حضرت واثلہ
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لالچی ایسی کمائی طلب کرتا ہے جو حلال نہ ہو۔ (کنز العمال، جز: 3، 2/185، حديث: 7430)
حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ طمع علماء کے دلوں سے علم شریعت کو دور کر دیتی ہے۔ (کنز العمال، جز:3، 2/198، حديث:7573) لہذا
مال و دولت کی ایسی طمع (لالچ) جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو، یا ایسی اچھی نیت نہ
ہو جو لالچ ختم کر دے، نہایت ہی قبیح، گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت
میں ڈالنے والی بیماری ہے، مال و دولت کے لالچ میں پھسنے والا شخص ناکام و نامراد
ہے، لالچ دنیا وآخرت میں ذلت و رسوائی کا سبب بنتا ہے، لالچ بے سکونی میں مبتلا کر
دیتا ہے، لالچ اکیلا کر دیتا ہے، لالچ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا اور لالچ کا
انجام انتہائی بھیانک ہوتا ہے۔ الغرض لالچ کی تباہ کاریاں اس قدر زیادہ ہیں کہ الامان
و الحفيظ
لہٰذا عقلمندی
اسی میں ہے کہ ہم لالچ اور دوسروں کے مال پر نظر رکھنے سے بچتے ہوئے قناعت اور
سادگی کو اپنائیں، یوں ہماری زندگی (Life) بھی پرسکون گزرے گی اور دنیا و آخرت میں
بھی ہمیں اس کی خوب خوب برکتیں نصیب ہوں گی۔
اللہ تعالیٰ
ہمیں لالچ اور اس جیسی باطنی بیماریوں سے محفوظ فرمائے اور قناعت کی دولت سے نوازے۔
آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ