کسی چیز میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔ (مفردات الفاظ القرآن، ص 524)

لالچ دولت، طاقت یا مادی املاک کی ضرورت سے زیادہ خواہش ہے۔ یہ ایک عالمگیر انسانی جذبہ ہے جس کے تباہ کن نتائج ہونے کے ساتھ ساتھ افراد کو دوسروں کی بھلائی پر اپنے مفادات کو ترجیح دینے کا باعث بن سکتی ہے۔جس سے تعلقات،برادریوں اور مجموعی طور پر معاشرے تک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔لہذا اس موذی باطنی بیماری کے نقصانات سے بچنے کیلئے تین اہم باتوں کو مد نظر رکھا جائے:

قناعت: قناعت میں عزت اور لالچ میں ذلت ہے۔ دنیا سے بے رغبتی اختیار کیجئے مال و دولت کے آخرت میں حساب دینے کے معاملے میں غور و فکر کیجئے۔ (گناہوں کی معلومات، ص 169)

وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر: 9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل

نفس کے لالچ سے پاک کئے جانے والے پاک ہیں: اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جن حضرات کے نفس کو لالچ سے پاک کردیا گیا ہے وہ حقیقی طور پر کامیاب ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نفس کے لالچ جیسی بری عادت سے بچنا بہت مشکل ہے اور جس پر اللہ پاک کی خاص رحمت ہو تو وہی اس سے بچ سکتا ہے۔

لالچ کا نقصان: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شح (یعنی نفس کے لالچ)سے بچو کیونکہ شح نے تم سے پہلی امتوں کو ہلاک کردیا کہ اسی نے ان کو ناحق قتل کرنے اور حرام کام کرنے پر ابھارا۔ (مسلم، ص 1069، حدیث: 6576)

مروی ہے حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بیت اللہ شریف کا طواف کررہے اور یہ دعا مانگ رہے تھے: اے اللہ! مجھے میرے نفس کی حرص سے بچا۔ اس سے زائد وہ کچھ نہیں فرماتے تھے۔جب ان سے اس کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: جب مجھے میرے نفس سے محفوظ رکھا گیا تو نہ میں چوری کروں گا، نہ زنا کروں گا اور نہ ہی میں نے اس قسم کا کوئی کام کیا ہے۔ (تفسیر طبری، 12/42)

اللہ پاک ہم پر رحم فرمائے اور ہمیں نفس کے حرص اور لالچ سے محفوظ فرمائے۔ آمین