لالچ ایک
خطرناک بیماری ہے جو انسان کے دل و دماغ کو اس طرح متاثر کرتی ہے کہ انسان اپنے
مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اخلاقی حدود کو پامال کر دیتا ہے۔ لالچ انسان کو اللہ کی
رضا اور انسانیت کے اصولوں سے منحرف کرتا ہے، اور ایک شخص کی زندگی میں اضطراب اور
پریشانی کی فضا پیدا کرتا ہے۔ اس مضمون میں ہم قرآن، حدیث اور بزرگان دین کے اقوال
کی روشنی میں لالچ کی حقیقت اور اس کے نقصانات پر گفتگو کریں گے۔
قرآن مجید میں
اللہ تعالیٰ نے لالچ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی برائیوں سے متعلق کئی آیات
میں واضح رہنمائی دی ہے۔
اللہ تعالیٰ
نے فرمایا: اِنَّمَاۤ
اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌؕ- (پ 28، التغابن:
15) تمہاری دولت اور تمہاری اولاد تمہارے لیے فتنہ ہیں۔ اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے
کہ انسان کا مال و دولت اور دنیاوی نعمتوں کی محبت اسے آزمائش میں مبتلا کرتی ہے۔
اگر انسان ان چیزوں کی محبت میں مبتلا ہو جائے اور لالچ کا شکار ہو، تو وہ اللہ کے
راستے سے بھٹک سکتا ہے۔
حضور ﷺ نے
فرمایا: اگر آدمی کے پاس دو وادیاں مال سے بھری ہوئی ہوں
تو وہ تیسری کی خواہش کرے گا۔ابن آدم کے پیٹ کو مٹی کے سوا کوئی چیز
نہیں بھر سکتی۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2419)
لالچ ایک ایسی
بری بلا ہے جس کی حوصلہ شکنی ہر اہل بصیرت نے کی ہے۔چنانچہ بزرگان دین فرماتے ہیں:
لالچ انسان کے دل کو داغ دار کر دیتا ہے اور اس کی اخلاقی حالت کو تباہ کر دیتا ہے۔
جو شخص مال و دولت کی لالچ میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ دنیا میں کبھی سکون نہیں پاتا۔
لالچ اس شخص کے دل میں ہوتا ہے جس کا دل اللہ کی محبت سے خالی ہو۔
لالچ ایک ایسا
مرض ہے کہ اس کی وجہ سے روحانیت ختم ہو جاتی ہے۔ لالچ اخلاقی زوال کا سبب ہے۔ لالچی
انسان ہر پل دکھ و اضطراب میں مستغرق رہتا ہے۔ لالچ اللہ سے دوری کا سبب ہے۔
اس کی انہیں
خامیوں کی وجہ اول دور سے اخیر تک اس کو پزیرائی نہیں ملی۔ لالچ ایسی بلا ہے جس نے
تخت نشینوں کو خاک میں ملا دیا۔معزز کو ذلیل کروا دیا۔
اللہ پاک ہمیں
اس بری بلا سے محفوظ فرمائے اور قناعت پسند بنائے۔ آمین