کسی چیز میں
حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔(باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص: 190)
عام طور پر
یہی سمجھا جاتا ہے کہ لالچ کا تعلق صرف مال و دولت کے ساتھ ہوتا ہے حالانکہ ایسا
نہیں ہے کیونکہ کسی بھی چیز میں حددرجہ دلچسپی لینا لالچ ہے۔
تلمیذ صدر
الشریعہ حضرت علامہ عبد المصطفی اعظمی رحمۃ الله علیہ لکھتے ہیں: لالچ اور حرص کا
جذبہ خوراک، لباس، مکان، سامان، دولت، عزت، شہرت الغرض ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔ (باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 116)
قرآن کریم میں
ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل اس آیت سے
معلوم ہوا کہ جن حضرات کے نفس کو لالچ سے پاک کر دیا گیا وہ حقیقی طور پھر کامیاب
ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نفس کے لالچ جیسی بری عادت سے بچنا بہت مشکل ہے اور
جس پر اللہ کی خاص رحمت ہو تو وہیں اس عادت سے بچ سکتا ہے یہ عادت کس قدر بری اور
نقصان دہ ہے اس کا اندازہ درج ذیل حدیث مبارک سے لگایا جاسکتا ہے۔
چنانچہ حضرت
عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لالچ
سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لالچ نے انہیں
بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطعی رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے
قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
قرآن کریم میں
ارشاد باری تعالیٰ ہے: قَالُوْا لَا ضَیْرَ٘-اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا
مُنْقَلِبُوْنَۚ(۵۰) اِنَّا نَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰیٰنَاۤ
اَنْ كُنَّاۤ اَوَّلَ الْمُؤْمِنِیْنَؕ۠(۵۱) (پ 19، الشعراء:
50، 51) ترجمہ كنز العرفان: جادوگروں نے کہا: کچھ نقصان نہیں،بیشک ہم اپنے رب کی
طرف پلٹنے والے ہیں۔ ہم اس بات کی لالچ کرتے ہیں کہ ہمارا رب ہماری خطائیں بخش دے
اس بنا پر کہ ہم سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں۔ اس آیت مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ
فرعون کی دھمکی سن کر ان جادو گروں نے کہا اللہ کی خاطر جان دینے میں کچھ نقصان
نہیں چاہے دنیا میں کچھ بھی ہو کیونکہ ہم اپنے رب کی طرف ایمان کے ساتھ پلٹتے ہیں
اور ہمیں اللہ کی رحمت سے امید ہے اور لالچ ہے کہ اللہ پاک ہماری خطائیں معاف
فرمادے گا۔
اس آیت مبارکہ
میں جو لالچ کا ذکر ہے تو یہاں اچھی لالچ مراد ہے کہ وہ اس بات کی لالچ رکھتے ہیں
کہ ان کی خطائیں معاف کر دی جائیں اور یہ لالچ اچھی ہے اور اس پر اللہ کی رحمت سے
ثواب بھی ہے۔
لالچ
کے متعلق حدیث مبارکہ:
لالچ ایسی
پھسلانے والی چٹان ہے جس پر علماء بھی ثابت قدم نہیں رہتے۔ (کنز العمال، 2/198، جز: 3، حدیث: 7576)
اگر ابن آدم
کے پاس سونے کی دو وادیاں بھی ہوں تب بھی یہ تیسری کی خواہش کرے گا اور ابن آدم کا
پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث:
2419)
لالچ
کا حکم: مال
و دولت کی ایسی لالچ جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو یا ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ
ختم کر دے، نہایت ہی قبیح گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی
بیماری ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات ص 191)
کچھ لوگ نیک و
پرہیزگار ہوتے ہیں لیکن لالچ جب ان کے دل میں گھر کر جاتا ہے تو ان کا عبرت ناک
انجام ہوتا ہے جیسے بلعم بن باعورء کی ایک مشہور مثال ہے کہ وہ اپنے دور کا بہت
بڑا عالم اور عابد و زاہد تھا ایسے اسم اعظم کا بھی علم تھا اور بہت ہی مستجاب
الدعوات تھا کہ اس کی دعائیں بہت زیادہ قبول ہوتی تھی ایک مرتبہ اس کی قوم نے حضرت
سیدنا موسی علیہ السلام کے لئے بددعا کرنے کا کہا تو پہلے تو اس نے انکار کردیا
لیکن جب اس کی قوم نے اس کو راضی کرنے کی بہت کوشش کی اور یہ کسی طرح راضی نہ ہوا تو
اس کی قوم نے اسے مال و دولت کا لالچ دیا یہ لالچی شخص مال و دولت کا بھوکا ان کے
جال میں آگیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بد دعا دینے کے لئے راضی ہو گیا، لیکن
جب یہ بددعا دینے کی کوشش کرتا تو اس کے منہ سے اپنے قوم کے لئے بد دعا نکلتی،
بلعم بن باعوراء نے مال و دولت کی لالچ میں آکر اپنی دنیا و آخرت برباد کر ڈالی۔
اس میں ہمارے
لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم نیک کاموں کی لالچ رکھ کر اپنی قبر کو سنوارتے ہیں اور اس
کے مکروہ جال سے بچ کر کامیاب و کامران ہوتے ہیں یا برے کاموں کی لالچ رکھ کر اپنی
دنیا و آخرت برباد کرتے ہیں اور مال و دولت کی لالچ میں پھنس کرنا کام و نامراد
ہوتے ہیں۔
یقیناً نیکیوں
اور اچھے کاموں کی حرص و لالچ اچھی ہے اور اس پر ثواب بھی ہے لیکن اگر ہم برے
کاموں کی لالچ و حرص رکھیں تو زندگی کا کیا بھروسہ کہ یہ چند روزہ زندگی فانی ہے سب
مال یہی چھوڑ کر ایک دن اندھیری قبر میں جانا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔
اللہ سے دعا
ہے کہ ہمیں نیک کاموں کی حرص و لالچ اور ہر ایک کام کو بغیر کسی غرض کے کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین