حرص اور لالچ
آپس میں مترادف ہیں یعنی دو ایسے الفاظ ہیں جن کا معنی ایک ہی ہے لالچ اردو زبان
کا جبکہ حرص عربی زبان کا لفظ ہے حرص و لالچ کسی چیز کی مزید خواہش کرنے کا نام ہے
اور یہ کسی بھی چیز کی ہوسکتی ہے۔
حرص
و لالچ کی تعریف: حکیم
الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: کسی چیز سے
جی نہ بھرنے اور ہمیشہ زیادتی کی خواہش رکھنے کو حرص کہتے ہیں جبکہ رکھنے والے کو
حریص کہتے ہیں۔ (مراۃ المناجیح، 7/86) لہذا
مزید مال کی خواہش رکھنے والے کو مال کا حریص، نیکیوں میں اضافے کے تمنائی کو
نیکیوں کا حریص، جبکہ گناہوں کا بوجھ بڑھانے والے کو گناہوں کا حریص کہیں گے۔
شیخ الحدیث
حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: لالچ اور حرص کا جذبہ
خوراک، لباس، مکان، سامان، دولت، عزت، شہرت، الغرض ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔
لالچی انسان
نہایت قابلِ رحم ہوتا ہے اس لیے کہ ہوشیار لوگ طرح طرح سے لالچ دے کر اسے بے وقوف
بنا کر اپنے کام نکلواتے ہیں، مثلاً کبھی کوئی نوکری کا جھانسہ دے کر اس سے پیسے
بٹورتا ہے کبھی انعام کا لالچ اسے زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم کروا دیتا ہے۔
کبھی راتوں رات امیر و کبیر بننے کا لالچ اسے لے ڈوبتا ہے، مگر جب آنکھ کھلتی ہے
تو اسے اپنے کیے پر بہت پچھتاوا ہوتا ہے۔
دعوت اسلامی
کے اشاعتی ادارے مکتبہ المدینہ کی کتاب حرص کے صفحہ نمبر 218 پر ہے: ایک غریب آدمی
کے 3 بیٹے تھے جو کچھ اسے دال روٹی میسر آتی خود بھی کھاتا اور انہیں بھی کھلاتا۔ ان
میں سے ایک بیٹا باپ کی غربت اور دال روٹی سے ناخوش تھا چنانچہ اس نے ایک دولت مند
نوجوان سے دوستی کر لی اور اچھا کھانا ملنے کے لالچ میں اس کے گھر آنے جانے لگا۔ ایک
دن ان کے درمیان کسی بات پر ان بن ہوگئی دولت مند نے اپنی امیری کے غرور میں اسے
خوب مارا پیٹا اور اس کے دانت توڑ ڈالے۔ تب وہ غریب دل ہی دل میں توبہ کرتے ہوئے
کہنے لگا کہ میرے باپ کی پیار سے دی ہوئی دال روٹی اس مار دھاڑ اور ذلت کے تر
نوالے سے بہتر تھی۔ اگر میں اچھے کھانے پینے کی حرص نہ کرتا تو آج اتنی مار نہ
کھاتا اور میرے دانت نہ ٹوٹتے۔
مال
کی حرص مت کرو اس میں دو جہاں کا
وبال رکھا ہے
اس حکایت میں بالخصوص
ان کے لیے عبرت کے مدنی پھول ہیں جو مال و دولت یا جاہ و منصب وغیرہ کی ہوس میں
اپنی آخرت کو داؤ پر لگا دیتے ہیں، در در کی ٹھوکریں کھاتے اور پھر بعد میں
پچھتاتے ہیں۔
یاد رکھیے! اللہ
پاک نے جس کا جتنا رزق مقدر فرما دیا ہے اسے وہ مل کر رہے گا لہذا عافیت اسی میں
ہے کہ جتنا اللہ تعالیٰ نے ہمیں نوازا ہے ہم اسی پر قناعت کرنا سیکھیں۔بقدر ضرورت
ہی روزی کمائیں اور زیادہ کا خیال بھی اپنے دل ودماغ سے نکال دیں، کیونکہ انسانی
فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ اگر اس کے پاس مال و دولت کا ڈھیر سارا خزانہ بھی ہاتھ
لگ جائے تب بھی اس کی حرص پوری نہیں ہو سکتی اور مزید مال و دولت کی تمنا اس کے دل
میں باقی رہے گی۔ چنانچہ رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بوڑھے کا دل دو چیزوں کی
محبت میں جوان ہی رہتا ہے: زندگی اور مال کی محبت۔ (مسلم، ص 403، حدیث: 2410)
ایک اور مقام
پر ارشاد فرمایا: اگر ابن آدم کے پاس سونے کی ایک اور وادی ہو تو چاہے گا کہ اس کے
پاس دو وادیاں ہوں اور اس کے منہ کو مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو
اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے تو اللہ کریم اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2419)
سرکار مدینہ ﷺ
نے کس قدر بہترین انداز میں حرص کے بارے میں ہماری رہنمائی فرمائی۔
ہمارے بزرگان
دین مال کی حقیقت سے اچھی طرح آگاہ تھے، چنانچہ حجۃ الاسلام حضرت امام محمد غزالی
رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: اللہ
پاک کی قسم! جو درہم کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ذلت دیتا ہے۔ منقول ہے، سب سے
پہلے درہم و دینار بنے تو شیطان نے اٹھا کر اپنی پیشانی پر رکھا پھر ان کو چوما
اور بولا: جس نے ان سے محبت کی وہ میرا غلام ہے۔
نیکیوں کی حرص
میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے، جبکہ مال کی لالچ میں مبتلا ہو کر بسا اوقات جھوٹ
جیسی بری بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے دنیوی لالچ کا نشہ انسان کو اچھی صحبت سے
محروم کروادیتا ہے اور بالآخر اسے تباہی کے کنارے لا کھڑا کرتا ہے۔
اللہ کریم
ہمیں لالچ جیسی آفت سے محفوظ فرما کر نیکیوں کے حرص کی لازوال نعمت سے سرفراز
فرمائے۔ آمین یارب العالمین