حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طلب علم:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ وسلم علیہ کا ظاہری وصال ہوا تو میں ایک انصاری دوست کے پاس گیا اور ان سے کہا ابھی الحمدللہ بڑے بڑے صحابہ کرام موجود ہیں چاہیے کہ ان سے علم حاصل کریں ورنہ ان کے بعد لوگ ہم سے مسائل پوچھیں گے اور ہمیں علم نہ ہوگا تو مشکل ہوگی انصاری دوست پرتواضع کا غالبہ تھا۔انہوں نے کہا کہ آپ بھی عجیب بات کرتے ہیں کہ ایسا بھی کوئی زمانہ آئے گا کہ لوگوں کو ہماری بھی ضرورت پڑے گی۔ ابن عباس فرماتے ہیں ان کے یہ کلمات سن کر میں ان کو ان کے حال پر چھوڑا اور خود طلبِ علم کے لیے نکل پرتا جس صحابی رضی اللہ عنہ کے بارے میں مجھےمعلوم ہوتا کہ ان کے پاس کچھ حدیث کا علم ہے تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوجاتا اور اس کو حاصل کرتا۔

بعض اوقات مجھے معلوم ہوتا کہ فلاں بزرگ حدیث کی روایت کرتے ہیں تومیں ان کے دروازے پر حاضر ہوجاتا معلوم ہوتا کہ وہ قیلولہ یعنی آرام فرما رہے ہیں تو میں ان کے دروازے پر ہی اپنی چادر سر کے نیچے رکھ کر لیٹ جاتا تھا، ہوا سے تمام گرد و غبار میرے چہرے اور کپڑوں کو لگ جاتا تھا یہاں تک کہ وہ بزرگ میرے پاس تشریف لاتے اور مجھے اس حال میں دیکھ کر فرماتے اے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بھتیجے آپ نے یہ کیا کیا ہے؟

آپ کوئی آدمی بھیج کر مجھے بلالیتے میں حاضر ہوجاتا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندانی اعزاز اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی قرابت اور عنایات سے حاصل شدہ عزت کو طلب علم کے راستے میں اس طر ح نظر انداز کیا کہ عاجزانہ اور عامیانہ انداز میں در در پھر کر علم حاصل کیا۔

ابن عباس فرماتے ہیں:

گویا علم ایسی عزت ہے کہ اس میں ذلت کا نام نہیں ہے مگر حاصل ایسی ذلت اور شفقت سے ہوتا ہے کہ اس میں عزت کا نام نہیں اسی والہانہ جدوجہد کا نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت صحابہ میں آپ کا لقب خیر الامت پڑاْ

حکایات

امام بخاری علیہ الرحمہ سے کون واقف نہیں وہ طالبِ علم کے سفر میں تین دن متواتر کھانا نہ منے پر جنگل کی بوٹیاں کھاتے تھے۔(مقدمہ شرح بخاری)