اولاد کی تربیت کرنا والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے روز کے معمولات پر نظر رکھیں تاکہ ان کی بہترتربیت کرسکیں۔ اولاد کی تربیت میں زیادہ حصہ ماں کا ہوتا ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے۔

آج کل بچوں کے بگڑنے کے اسباب میں سرفہرست موبائل کا استعمال ہے جو کہ بچوں کے اخلاق پروان کے روز کے معمولات پر اثر انداز ہوتا ہے۔

بچے موبائل گیمز اور موبائل کی دوسری چیزوں میں گم ہو کراپنی ذمہ داریاں بھول جاتے ہیں، اپنے روزمرہ کے کام سے غفلت برتتے ہیں اور ان کو پس پشت ڈال کر موبائل پر زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔

ماحول کا اثر: بچوں کے مزاج پر زیادہ اثر ان کے ماحول کا ہوتا ہے اگر ان کاماحول بہت اچھا اور دینی ہوگا ان کے دوست اچھے ہوں گے تو ان کے بگڑنے کے امکانات کم ہوں گے کیونکہ بچہ جس ماحول میں زیادہ وقت گزارتا ہے اسی کا اثر قبول کرتا ہے کیونکہ بچے وہ نہیں کرتے جو انہیں کہا جاتا ہے بلکہ وہ کرتے ہیں،جو وہ دیکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ کھیلنے والے ان کے دوست ہیں جن کے ساتھ بچہ دن میں وقت گزارتا ہے یا انکے اسا تذہ ہیں اگر وہ اچھے ہوں گے تو بچوں پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

قرآن کے مضامین سے ناآشنائی: بچوں میں بگڑنے کی بڑی وجہ قرآن کے مضامین سے دوری ہے اگر ہم قران کے مضامین سے دور رہیں گے اور اپنے بچوں کو دور رکھیں گے۔ صحابہ کرام، اکابرین دین کی دین سے محبت، قربانیوں،قناعت پسندی کے واقعات سے لاعلمی ہوگی تو وہ زمانے میں غلط عادات کا شکار ہو جائیں گے۔ جب انہیں اپنے حقوق کے بارےمیں،والدین کے حقوق کے بارے، میں استاد کے حقوق کے بارے میں، پڑوسی کے حقوق کے بارے میں،کسی کی مدد کرنے کے بارے میں اور دوسرے دینی احکامات کے بارے میں علم ہی نہیں ہوگا تو وہ گمراہ ہو سکتے ہیں۔

تربیت سے زیادہ تعلیم پر توجہ: ہم تعلیم پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں لیکن تربیت پر توجہ نہیں دیتے یہ بچوں کے بگڑنے کی بڑی خاص وجہ ہے، بچوں میں تربیت نہ کرنے کی وجہ سے حسد، جھوٹ، چغلی، غیبت جیسی عادتیں پیدا ہو جاتی ہیں اگر بچوں کو جھوٹ بولنے اور غیبت کرنے اور ان تمام بری عادتوں سے نہیں روکا جائے گا تو وہ ایک اچھے انسان نہیں بن سکیں گے بلکہ گھریلو معاملات میں اور معاشرے میں ان عادتوں کی وجہ سے مزید برائیوں میں مبتلا ہو جائیں گے اگر بچوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ہے تو اس بارے میں ان کی تربیت کرنی چاہیے کہ جھوٹ بولنا نہ صرف گناہ ہے بلکہ اس کے معاشرے پر بہت برے اثرات پڑتے ہیں کیونکہ بچے جھوٹ کے سہارے پر بڑی سے بڑی غلطی کر لیتے ہیں اور پھر جھوٹ بول کر الزام دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔اسی طرح بچوں کے دیگر معاملات پر نظر رکھنی چاہیے جس کی وجہ سے ہم بچوں کو بگڑنے سے بچا سکتے ہیں بچوں کو اگر روک ٹوک نہیں کی جائے گی اور ان کی تربیت نہیں کی جائے گی تو وہ ان کے بگڑنے کا سب سے بڑا سبب بنے گی۔

والدین کی بری عادات: بچے وہ کرتے ہیں جو وہ اپنے والدین کو کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو بچوں کے بگڑنے کا سبب یہ بھی ہے کہ جب والدین کا رویہ نامناسب ہوگا،والدین بدمزاج ہوں گے، مادہ پرست ہوں گے، بڑوں کی بے عزتی کرنے والے، چھوٹوں کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آنے والے، جھڑک کر پیش آنے والےہوں گے یا لوگوں سے نفرت کرنا، اپنی مرضی کے خلاف کوئی کام ہونے پر واویلا مچانا،ہر بات میں، ہر معاملے میں اپنی پسند کو،اپنی رائے کو ترجیح دینا اور دوسروں کی پسند اور رائے کواہمیت نہ دینا دوسروں کو کمتر سمجھنا، حسد کرنا،کمزوروں پر ظلم کرنا اور طاقتور سے ڈر جانا اور دوسروں سے بغض رکھنا اگر والدین ان عادتوں کے مالک ہوں گے تو وہی اثرات بچوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور بچےبھی انہیں عادتوں کا شکار ہو جاتے ہیں جو کہ ان کی شخصیت بگاڑ کر رکھ دیتی ہیں۔

غلط بات پر بچوں کو سزا نہ دینا: غلط بات پر بچوں کو سزا نہ دینا اور اس کو نافذ نہ کرنا یہ بھی بچوں کے بگڑنے کا ایک سبب ہے کیونکہ بچے اس بات کے عادی ہو جاتے ہیں کہ ہم کچھ بھی کر لیں یہ صرف دھمکیاں ہیں ہمیں کوئی سزا بھگتنی نہیں پڑے گی یہ چیز بچوں کو غلطیوں کا عادی بنا دیتی ہے اور پھر وہ معاشرے میں ایک غیر ذمہ دار شخص بن کر سامنے آتے ہیں اگر ان کو بروقت سزا دے دی جائے تو ان کو اپنی غلطی کا اندازہ بھی ہو جائے گا اور وہ دوبارہ اس کو کرنے سے بھی ڈریں گے لیکن ان پر سزا نافذ نہ کرنا یہ والدین کی سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے جو بچوں کو غلطیوں کااور گناہوں کا عادی بنا دیتی ہے اس لیے اسلام میں سات سال کے بچے کو مار کر نماز پڑھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ بچہ جب سات سال کا ہو جاتا ہے اور وہ نماز پڑھنے میں غفلت کرتا ہے، نماز پڑھنے سے گھبراتا ہے تو اس کو مارنے کا حکم دیا گیا ہے اس کے لیے سزا بتائی گئی ہے۔یہ سزا اسی لیے بتائی گئی ہے تاکہ بچے ڈر کر اور اپنی غلطی کے نتائج پہ نظر رکھتے ہوئے اس کام کو سرانجام دیں۔

والدین کا بچوں سے بےجا لاڈ پیار: یہ بھی اولاد بگڑنے کا ایک سبب ہے والدین ہر حال میں اپنے اولاد کی خواہش پورا کرنا چاہتے ہیں لیکن اس بات کا انہیں خیال رکھنا چاہیے کہ بچوں کی اگر تمام خواہشات کو پورا کر دیا جائے گا تو ان کے اندر برداشت ختم ہو جائے گی اور برداشت ختم ہونے کی وجہ سے وہ دنیا میں مشکلات کا سامنا نہیں کر پائیں گے انہیں ان کی خواہشات کو پورا کرنے سے پہلے ان کو سمجھانا بھی چاہیے اور ہر خواہش پوری بھی نہیں کرنی چاہیے تاکہ بچوں کو برداشت اور مشکل حالات کا سامنا کرنے کی عادت ہو جائے ایسا نہ کرنے پروہ اپنی ہر جائز اور ناجائز خواہش پورا کروانے کے عادی ہو جاتے ہیں اور بڑے ہو کر بھی وہ اپنے تمام ضروریات کو جائزو ناجائز طریقے سے پورا کرنے کے عادی بن جاتے ہیں جو کہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے۔

بچوں کی غلطیوں پر والدین کی حمایت: اولاد بگڑنے کا ایک بڑا سبب بچوں کی غلطیوں پہ والدین کی حمایت کرنا ہے۔ بچے چاہے کتنی بھی چھوٹی غلطی کریں والدین کو ان کی حمایت کسی صورت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس طرح ان کی غلطیاں پختہ ہوتی چلی جاتی ہیں اور انہیں ظلم کرنے اور اپنے دوستوں،ساتھیوں یا کسی بھی جاندار کو یا کسی بھی انسان کو ستانے کی عادت ہو جاتی ہے اور ان میں اچھے اور برے کی تمیز ختم ہو جاتی ہے اور انہیں کسی کا ڈر نہیں رہتا کہ ہمارے والدین ہماری غلطیوں پر ہماری حمایت کر لیں گے ہم کسی کے ساتھ کچھ بھی کریں۔

بچوں کی دلچسپی کے مشاغل: بچوں کی دلچسپی کے مشاغل اگر خلاف دین کا موں اور فضولیات پر مشتمل ہوں گے اوربچے فضول مشاغل میں مصروف ہوں گے تو یہ بھی ان کے بگڑنے کا سبب ہے کیونکہ اس طرح ان کے اندر کسی نیک مقصد کے لیے پریشانیاں، تکلیفیں اٹھانے اور قربانیاں دینے اور برداشت کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوگا بچوں کی زندگی میں مقصدیت کا بھی رجحان نہیں ہوگا اور اس کی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی زندگی میں کسی نہ کسی نیک مقصد کو پورا کرنے کا رجحان بچوں کو دیں کیونکہ یہ رجحان بچوں میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔

والدین کا ٹی وی سیریلز اور ڈراموں پر بچوں کے سامنے تبصرہ کرنا: بچوں میں بگاڑ کا ایک سبب والدین کے ساتھ مل کر ٹی وی سیریلز دیکھنا، ٹی وی سیریلز اور ڈراموں پر بچوں کے سامنےتبصرہ کرناہے جو کہ بچوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں بچے اپنے والدین کے ساتھ بیٹھ کر فضول سیریلز دیکھتے ہیں اور ان کے ذہن اسی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور ان کے ذہن میں ویسے ہی لوگوں کا خاکہ بننا شروع ہو جاتا ہے جو کہ وہ سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں یہ بچوں میں بگاڑ کا سب سے خطرناک سبب ہے۔