معاشرہ کی ترقی و استحکام کے لئیے اس میں رہنے والے ہر فرد کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہےاسی لحاظ سے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو اور اپنے ماتحت افراد کو معاشرے میں بگاڑ کا باعث نہ بننے دے اور اس ضمن میں اولین ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اولاد کی پرورش میں انتہائی سنجیدگی سے کام لیں تاکہ یہ اولاد قصر سماج کی تعمیر میں معاون ہوں نہ کہ اسے منہدم کردیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔

معلوم ہوا ہر شخص پر نہ صرف اپنی بلکہ اپنے ماتحت آنے والے افراد بالخصوص اپنی اولاد کے حوالے سے ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی کہ وہ انہیں ان کی نفسیات کے مطابق فضائل اخلاق کا درس دیں اور رذائل اعمال کی کراہت کو ان کے دل و دماغ میں راسخ کریں اسی طرح اس کا عکس کرنے والے والدین کی اولاد بے راہ روی کا شکار ہوجاتی ہے۔

ذیل میں ایسے چند بنیادی اسباب ذکر کیے گئے ہیں جو اولاد کو بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں ملاحظہ فرمائیے:

والدین کی کم علمی: فی زمانہ اولاد سے زیادہ والدین کو تربیت کی حاجت ہے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کیونکہ آج کے والدین کل کی اولاد رہ چکے تھے چونکہ ان کی اپنی تربیت میں کمی رہ گئی لہذا اپنی اولاد کے لئیے بھی تعلیم و تربیت کا ساماں نہیں کرسکے اور یوں یہ اپنی اولاد کو زیور تعلیم سے آراستہ نہ کرسکے اور جہالت کی اندھیری کھائی میں دھکیلتے چلے گئے۔

گھریلو ماحول میں تناؤ: والدین کے باہمی تعلق و دیگر رشتہ داروں سے تعلقات میں کشیدگی ہر وقت لڑائی جھگڑے کا ماحول اولاد کی ذہنی صحت کو متاثر کرتی ہے جس کے سبب بچپن سے ہی بچوں میں بداخلاقی،حسد و جلن،غیض و غضب اور،انتقامی جذبے پروان چڑھنے لگتے ہیں جو بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ شخصیت کا مکمل جزو بن جاتے ہیں۔

توجہ و شفقت سے محرومی: والدین کی توجہ، شفقت و محبت کا اولین حقدار چونکہ اولاد ہوتی ہے اور اس سے محرومی ان کی ذہنی و جسمانی استحصال کا سبب بنتی ہے، بعض اوقات والدین اپنی مصروفیات کے سبب بچوں کو وہ توجہ نہیں دے پاتے جس کے وہ متقاضی ہوتے ہیں اور یوں توجہ،شفقت و محبت سے محرومی کے سبب رفتہ رفتہ وہ والدین سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور معاشرے میں ایک مایوس،کمزور و ناتواں فرد کی صورت سامنے آتے ہیں جن کا وجود معاشرے پر فقط اک بوجھ بن کر رہ جاتا ہے۔

بے جا لاڈ و پیار یا سختی: بچوں کو بے جا لاڈ پیار دینا کہ ہر جائز و ناجائز فرمائشوں کو فورا پورا کردینا، محبت کے نام پر انہیں آسائشوں کا عادی بنادینا والدین کی ایسی محبت (درحقیقت دشمنی) بگاڑ کا باعث بنتی ہے یونہیں بچوں سے بے زاری، ہر وقت ڈانٹ پھٹکار، لعن و طعن،مار پیٹ اور جائز مطالبوں کو بھی پورا نہ کرنا،انکے جذبات و عزت نفس کو ٹھیس پہنچاتا ہے اور ایسی بدسلوکی بچوں کو اکثر خود سر و باغی بنادیتی ہے۔

حرام ذرائع سے پرورش: مفہوم حدیث ہے: جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (معجم اوسط، 5/34، حدیث: 6495) دیکھا بھی گیا ہے کہ حرام ذرائع سے مال کمانے والے لوگ اپنی اولاد کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوتے ہیں اور جس اولاد کے لئے مال کمانے کی جستجو انہیں حرام کی طرف لے جاتی ہے بالآخر وہی اولاد انہیں چھوڑ کر اپنی الگ دنیا بسالیتی ہے۔

ایسے مال کا کیا فائدہ ہوا جو اولاد کو سنوار نہ سکی؟ اور سوائے افسوس کے ہاتھ کچھ نہ رہ گیا

خلاصہ کلام یہ کہ اولاد بگڑنے کا سب سے بڑا سبب سراسر والدین کا شریعت کی طرف سے عائد کردہ فرائض سے غفلت برتنا ہے، والدین کی ہی غفلت اولاد بری صحبت میں بھی مبتلا کردیتی ہے اور یہ اولاد کے لئیے ایسا زہر قاتل جس کا تریاق مشکل ترین ہوجاتا ہے، لہذا والدین کو چاہیے اولاد کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں سنجیدگی کے ساتھ کمربستہ ہوں، ہمارے دین میں اولاد کی تعلیم و تربیت پر کس قدر زور دیا گیا ہے اس کا گہرائی سے مطالعہ کریں، کم علم ہونے کے سبب اہل علم حضرات سے رجوع کریں، بالخصوص اولاد کو دینی تعلیم دلوائیں کیونکہ والدین کا ہاتھ چوم کر گھر سے نکلنے والے اور بعد از موت والدین کے لئیے ایصال ثواب کرنے والے دینی درسگاہوں سے وابستگان ہی ہوتے ہیں۔

فرمان خاتم النبیین ﷺ ہے: اپنی اولاد کو تین باتوں کی تعلیم دو: 1۔ اپنے نبی ﷺ کی محبت 2۔ اہل بیت کی محبت 3۔ قرآن پاک کی تعلیم۔ (جامع صغیر، ص 25، حدیث: 311) ان شاءاللہ الکریم جس نے اپنی اولاد کو ان تین خصلتوں سے آراستہ کیا دنیا میں بھی ایسی اولاد نہ صرف اپنے والدین، اساتذہ کے لئیے باعث فخر ہوتی ہیں بلکہ پورے معاشرہ کے لئیے قابل تقلید نمونہ بن جاتی ہیں اور آخرت میں ذریعہ نجات۔

اللہ پاک ہماری نسلوں میں عشق مصطفیٰ ﷺ پیدا فرما، ہادی رہبر ﷺ کی کامل اطاعت نصیب فرما، ہر اولاد کو اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا۔ آمین


والدین اولاد سے پرخلوص محبت کرتے ہیں۔ان کی خواہش ہوتی بے ہماری اولاد شجر سایہ دار بنے۔اور معاشرہ میں باوقار زندگی گزارے۔ آج میجورٹی آف مسلم کا یہی مسئلہ ہے کہ اولاد نافرمان ہے۔ آخر اولاد بگڑنے کے اسباب کیا ہیں؟ بے شک آپ نے اولاد کی تربیت کی، اچھے برے کی پہچان کروائی مگر والدین کے حقوق کیا ہیں؟ان کا ادب کیسے کرتے ہیں؟ یہ اولاد کو جب معلوم ہوتا جب ان کی تربیت دینی اعتبار سے کی گئی ہوتی۔ بےشک اولاد کو دنیا بتانا ضروری ہے مگر دین سکھانا بھی ضروری ہے۔ اپنی اولاد کا تعلق اللہ اور رسول پاک ﷺ سے جوڑیں۔

ہر خواہش پوری کرنا: والدین اولاد سے محبت کی بناء پر انکی ہر خواہش پوری کرتے ہیں۔ کبھی خواہش پوری نہ کریں اس طرح بچہ کو صبر کرنا آئے گا۔ کبھی آپ کے حالات آپ کو اجازت نہیں دیتے ہونگے پھر آپ منع کریں گے جس کے نتیجہ میں بچہ بگڑ جائے گا اور ہوسکتا ہےبچہ اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے چوری اور غلط راستہ اختیار کرے۔

دوسروں کے سامنے سمجھانا: بعض والدین ہر شخص سے ہی یہ بات کرتے ہیں۔ بچہ کہنا نہیں مانتا پریشان کرتا ہےوغیرہ اس طرح آپ اپنی اولاد کو رسوا کررہے ہیں بتانا ہے تو ایسے شخص کو بتایئں جو اسے سمجھائے اور کسی کے سامنے بچہ کو سمجھانا آپ سے متنفر تو کرہی دے گا مگر بچہ احساس کمتری کا بھی شکار ہوجا ئے گا۔

موبائل کا استعمال: سوشل میڈیا کے نقصانات سے کون واقف نہیں ہے۔ بچہ کو غیر ضروری موبائل استعمال نہ کرنے دیں، بچہ رورہا ہے موبائل دے دیا۔ یا کارٹون لگا کر دے دیئے۔ موبائل کے بجائے وقت دیں یہ وقت جو آپ دیں گے اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپکی بچے سے اچھی باؤنڈینگ بن جائے گی۔

بری صحبت: والدین کے بعد بچہ دوستوں سے سیکھتا ہے۔ آپ کی تربیت اور سمجھانا بیکار ہوجائے گا جب اسے بری صحبت ملی۔ بچے اکثر فرمائشیں کرتے ہیں کہ یہ چیز میرے دوست نے خریدی ہے مجھے بھی چاہیے۔ بچوں کی دوستی سادہ اور نیک بچوں سے کروائیں گے تو آپ محسوس کریں گے بچہ کی ضد کرنے کی عادت کم ہوگی۔ اب وہ اسے نماز پڑھتا دیکھے گا تو اس کے ساتھ خود بھی مسجد میں جائے گا۔ اور آپ کے لیےصدقہ جاریہ ہوگا۔

ہر ماں باپ کو یہ جان لینا چاہیئے کہ بچپن میں جو اچھی بری عادتیں بچوں میں پختہ ہو جاتی ہیں وہ عمر بھر نہیں چھوٹتی ہیں۔

اولاد بگڑنے کے اسباب:بڑوں کا ادب نہ سکھانا، بچوں کو ایسے سکولوں میں بھیجنا جہاں بچے اور بچیاں مکس پڑھتے ہوں، بچوں پر توجہ نہ دینا کہ وہ کیسے دوستوں میں بیٹھتے ہیں، بچوں کی ہر طرح کی فرمائش پوری کرنا، بچوں کو حد سے زیادہ لاڈ پیار دینا، بچوں کی تربیت پر توجہ نہ دینا، اولاد کو صرف دنیاوی تعلیم دینا، بچیوں کو کالج کی سیڑھی چڑھا دینا، بچوں کو کوئی غلط کام کرتا دیکھ کر اس کام سے نہ روکنا، بچے اگر کوئی چیز چوری کر کے گھر لائیں تو منع نہ کرنا اور نہ ہی واپس لوٹانے کا کہنا، کزنز یا دیگر غیر مردوں سے پردہ نہ کرانا وغیرہ یہ سب اولاد کو برباد کرنے کے اسباب ہیں ان کے علاوہ اور بھی بہت سارے اسباب ہیں:

اولاد کی تربیت: ماں باپ کو لازم ہے کہ بچوں کو بچپن ہی میں اچھی عادتیں سکھائیں اور بری عادتوں سے بچائیں بعض لوگ یہ کہہ کر ابھی بچہ ہے بڑا ہوگا تو ٹھیک ہو جائے گا۔ بچوں کو شرارتوں اور غلط عادتوں سے نہیں روکتے وہ لوگ در حقیقت بچوں کے مستقبل کو خراب کرتے ہیں اور بڑے ہونے کے بعد بچوں کے برے اخلاق اور گندی عادتوں پر روتے اور ماتم کرتے ہیں اس لئے نہایت ضروری ہے کہ بچپن ہی میں بچوں کی کوئی شرارت یا بری عادت دیکھیں تو اس پر روک ٹوک کرتے رہیں بلکہ سختی کے ساتھ ڈانٹتے پھٹکارتے رہیں۔ اور طرح طرح سے بری عادتوں کی برائیوں کو بچوں کے سامنے ظاہر کر کے بچوں کو ان خراب عادتوں سے نفرت دلاتے رہیں اور بچوں کی خوبیوں اور اچھی اچھی عادتوں پر خوب خوب شاباش کہہ کر ان کا من بڑھائیں بلکہ کچھ انعام دے کر ان کا حوصلہ بلند کریں۔ اور بچوں کی بہترین تربیت کےلئے دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ کریں اور صرف اور صرف مدنی چینل دکھائیں بچوں کو غلام رسول، کنیز فاطمہ اور سعد اور سعدیہ والے کارٹون دکھائیں۔

بچوں کی ہر ضد پوری مت کرو کہ اس سے بچوں کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور وہ ضدی ہو جاتے ہیں اور یہ عادت عمر بھر نہیں چھوٹتی۔ چلا کر بولنے اور جواب دینے سے ہمیشہ بچوں کو روکو۔ خاص کر بچیوں کو تو خوب خوب ڈانٹ پھٹکار کرو۔ ورنہ بڑی ہونے کےبعد بھی یہی عادت پڑی رہے گی تو میکے اور سسرال دونوں جگہ سب کی نظروں میں ذلیل و خوار بنی رہے گی اور منہ پھٹ اور بد تمیز کہلائے گی۔

غصہ کرنے اور بات بات پر روٹھ کر منہ پھلانا بہت برا ہے اور بہت زور سے ہنسنا، خواہ مخواہ بھائی بہنوں سے لڑنا جھگڑنا، چغلی کھانا، گالی بکنا ان حرکتوں پر لڑکوں اور خاص کر لڑکیوں کو بہت زیادہ تنبیہ کیا کرو۔ ان بری عادتوں کا پڑ جانا عمر بھر کےلئے رسوائی کا سامان ہے۔

بچے غصہ میں اگر کوئی چیز توڑیں پھوڑ یں۔ یا کسی کو مار بیٹھیں تو بہت زیادہ ڈانٹو۔ بلکہ مناسب سزا دو تاکہ بچے پھر ایسا نہ کریں اس موقع پر لاڈ پیار نہ کرو۔