اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت غلام میراں،فیضان عائشہ صدیقہ مطفر پورہ سیالکوٹ
اولاد اللہ کی طرف سے ہمارے لیے ایک عظیم نعمت ہے
اس کے ذریعے ہمارے نام و نسل کی بقا ہے ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ اس کو
نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے جو کہ دنیا میں بھی اسکی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور
آخرت میں بھی اسکی نجات کا ذریعہ۔
اولاد کے نیک بننے میں والدین کی تربیت کا بہت بڑا
عمل دخل ہے جو والدین اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں تو اللہ ان کو اسکا صلہ
ضرور عطا کرتا ہے اولاد کی تربیت دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق کرنا والدین کی
ذمہ داری میں شامل ہے لیکن آج کل کے دور میں اسکا فقدان ہے اکثر والدین اس بات کا
اظہار کرتے ہیں کہ انکی اولاد بگڑ گئی ہے بات نہیں مانتی، بدتمیز ہے،صفائی ستھرائی
کا لحاظ نہیں رکھتی وغیرہ وغیرہ۔
اولاد کی تربیت کیسے کی جائے؟اسکے بہترین راہنما
اصول قرآن پاک نے بیان کیے ہیں اور ماڈرن سائیکالوجی سے بھی ان اصولوں کی تائید
ہوتی ہے مثلاً ایمان والوں کو نیک اعمال کی ترغیب دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت
کی عالی شان نعمتوں کا وعدہ کیا ہے اور گناہ گاروں کو ان کے برے اعمال پر سزاؤں کی
وعید سنائی ہے اس اسلوب کو ہم ترغیب وترھیب کا نام دیتے ہیں تربیت کے میدان میں آج
ماڈرن سائیکالوجی بھی اسی اسلوب کو اپنائے ہوئے ہے اچھا کام کرنے پر حاصلہ افزائی
اور برا کام کرنے پر سزا۔تربیت کے حوالے سے سائیکالوجی کی یہ تھیوری ہے جسکو
آپرینٹ کنڈیشننگ کا نام دیا گیا ہے اس تھیوری کے مطابق اچھا کام کرنے والے کی اگر
حوصلہ افزائی کی جائے تو تھوڑے ہی عرصے میں اس کی یہ اچھائی والی عادت پختہ ہو
جائے گی اور ناپسندیدہ کام کرنے والے کی اگر سرزنش کی جائے تو تھوڑے ہی عرصے میں اس
کی یہ بری عادت چھوٹ جاتی ہے۔
اگر تربیت کا یہ اسلوب والدین اپنی اولاد کے لیے
صحیح معنوں میں اپنا لیں ان شاءاللہ عزوجل انکی اولاد ہر لحاظ سے بہتر ہوسکتی
ہے۔ترغیب و ترتیب کے اسلوب کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کس طرح اپنے بچوں کی تربیت
کرسکتے ہیں؟اس ضمن میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنے سے ان شاءاللہ اچھے نتائج
برآمد ہوں گے۔
گھر یا خاندان کے تمام افراد کو چاہیے کہ سب بچوں
کو ایک جیسا پیار دیں اگر گھر کا ایک فرد بےجالاڈ کرے گا اور بچے کی غلط باتوں پر
اسکی سرزنش نہیں کرے گا تو اس سے بچے کے بگڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور بروں
کے بھی آپس کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔
والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو دین اسلام کی
باتیں سکھائے اور انکے دل میں صحابہ کرام اور آقا جان ﷺ کی محبت پیدا کریں اور
انہیں زیادہ سے زیادہ اچھی باتیں سکھائے اور انکے سامنے بھی اچھی باتیں کریں۔
جب بھی بچہ مطلوبہ اصول پر عمل کرے تو اس عمل کرنے
پر اس کو حوصلہ افزائی ضرور دیں انسانی نفسیات ہے کہ چھوٹی عمر میں چند بار حوصلہ
افزائی ملنے پر کام کرنے کی پختہ عادت بن جاتی ہے لہذا جتنی چھوٹی عمر میں بچے کی
تربیت شروع ہو اتنا آسان ہو جاتا ہے اسی طرح اگر بچہ مطلوبہ اصول پر عمل نہیں کرتا
تو اس پر اسکو سرزنش ضرور ملنی چاہیے اور ہر بار ملنی چاہیے ایسا کرنے سے بچہ جلد
سیکھ جائے گا وگرنہ کبھی سرزنش کرنا اور کبھی نہ کرنا بچے کی تربیت میں سب سے بڑی
رکاوٹ ہے۔جوں جو۔ بچے بڑے ہوتے ہیں تو ان کی عقل و شعور میں اضافہ ہوتا جاتا ہے
پانچ یا چھ سال سے بڑے بچوں کی تربیت کا اندازہ مختلف ہونا چاہیے انکے ساتھ ہر نیا
اصول ڈائیلاگ کے ذریعے طے ہونا چاہیے جس میں بچے کی خواہشات کو بھی مدنظر رکھا
جائے اچھا کام کرنے پر تحفہ ہوگا اور برا کام کرنے پر سرزنش ہوگی اس پر بھی بچوں
سے رائے ضرور لیں پھر جو طے پائے اس کو لکھ کر نمایاں جگہ پر لگا دیا جائے۔تحریر
نمایا جگہ لگانے کے دو فوائد ہیں ایک یہ کہ روزانہ کی بنیادوں پر بچے کو اصول دکھا
کر ان کی یاددہانی کرتے رہیں کیونکہ بچے بعض دفعہ بھول بھی جاتے ہیں اور دوسرا بڑا
فائدہ یہ ہے کہ غلط کرنے پر جب بھی سرزنش کریں تو تحریر پر لکھی ہوئی طے شدہ سرزنش
بچے کو ضرور دیکھائیں اور بچے کو بتائیں کہ اس سرزنش پر بچے نے معاہدہ کیا تھا اس
طرح جب بچے کو سزا ملے گی تو وہ والدین پر غصہ کرنے کی بجائے اپنے آپ کو کوسے گا
اور آئندہ ایسا کام کرنے سے اجتناب کرے گا۔