اولاد بگڑنے کے اسباب پر غور کریں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ ہمارے معاشرے میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد بہترین کردار اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرے، مگر بسا اوقات حالات اس کے برعکس ہوجاتے ہیں۔ اولاد بگڑنے کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں، جن پر قابو پانا اور ان کا حل تلاش کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ یہاں چند اہم اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہے:

1۔ والدین کی عدم توجہ: والدین کی مصروفیات اکثر بچوں کی زندگی میں کمی کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ جب والدین بچوں کو وقت نہیں دیتے اور ان کی باتوں کو نظرانداز کرتے ہیں، تو بچے خود کو غیر اہم سمجھتے ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ باہر کے لوگوں، خاص کر دوستوں، سے تعلقات بڑھانے لگتے ہیں اور انہیں کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں، جس سے ان کے بگڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

2۔ بری صحبت کا اثر: دوست اور اردگرد کا ماحول بچوں کے کردار پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ اگر بچے غلط دوستوں میں اٹھنے بیٹھنے لگیں، تو وہ ان کی عادات، گفتگو اور انداز کو اپنا لیتے ہیں۔ بری صحبت کی وجہ سے بچے اکثر والدین اور اساتذہ کی بات نہیں مانتے اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کی صحبت پر نظر رکھیں اور انہیں اچھے دوستوں کی صحبت میں رکھیں۔

3۔ والدین کا سخت یا نرم رویہ: والدین کا رویہ بچوں کے کردار پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اگر والدین بہت زیادہ سختی کریں تو بچے ردعمل کے طور پر بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ دوسری جانب، اگر والدین بچوں کو حد سے زیادہ نرمی سے پالیں اور انہیں ہر قسم کی آزادی دے دیں تو بچے لاپرواہ اور ضدی بن جاتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ سختی اور نرمی میں توازن برقرار رکھیں تاکہ بچے بہتر تربیت حاصل کرسکیں۔

4۔ دوہرے معیار: کچھ والدین خود جن اصولوں پر عمل نہیں کرتے، وہ بچوں پر لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب بچے یہ تضاد دیکھتے ہیں تو ان میں بغاوت کا عنصر پیدا ہوتا ہے۔ وہ اصولوں کی پرواہ نہیں کرتے اور ان سے انکار کرتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود ایک نمونہ بنیں اور وہی اصول بچوں پر لاگو کریں جن پر وہ خود عمل کرتے ہیں۔

5۔ تعلیمی دباؤ اور ناکامی کا خوف: اکثر والدین بچوں پر تعلیمی کامیابی کے لیے بے حد دباؤ ڈالتے ہیں۔ یہ دباؤ بعض اوقات بچوں کو مایوس کر دیتا ہے اور وہ بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ناکامی کے خوف کی وجہ سے بچے اکثر غیر اخلاقی راہوں کا انتخاب کرتے ہیں یا پھر بگڑنے لگتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو حوصلہ دیں اور ان کی تعلیمی صلاحیتوں کو ان کی دلچسپی کے مطابق پروان چڑھائیں۔

6۔ جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا: آج کے دور میں ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا رجحان بھی بچوں کے بگڑنے کا سبب ہے۔ سوشل میڈیا پر موجود غیر ضروری معلومات اور غلط مشورے بچوں کی ذہنی نشوونما کو متاثر کرتے ہیں۔ بہت سے بچے اپنے والدین کی باتوں کو نظرانداز کرکے آن لائن لوگوں کی باتوں پر عمل کرنے لگتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال سکھائیں اور ان کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔

7۔ اخلاقی تربیت کی کمی: اکثر والدین بچوں کی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں مگر اخلاقی تربیت کو نظرانداز کرتے ہیں۔ یہ عدم توازن بچوں میں اخلاقی کمزوری اور بگڑنے کا سبب بنتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اخلاقی قدروں کی بھی تربیت دیں تاکہ وہ سمجھدار اور بااخلاق انسان بن سکیں۔

8۔ والدین کے آپس کے جھگڑے: گھر کے ماحول کا بچوں کی شخصیت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ اگر والدین کے درمیان جھگڑے اور اختلافات ہوں تو بچے ذہنی اور جذباتی طور پر پریشان ہوجاتے ہیں اور ان میں بغاوت کے رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے مسائل کو بچوں کے سامنے نہ لائیں اور گھر کا ماحول خوشگوار رکھیں۔

اولاد بگڑنے کے ان اسباب کو سمجھ کر والدین اپنی تربیت کے انداز میں بہتری لا سکتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ والدین بچوں کو محبت اور توجہ دیں، ان کی جذباتی ضروریات کو سمجھیں، ان پر مناسب نظر رکھیں اور ان کی اخلاقی و تعلیمی تربیت میں توازن پیدا کریں۔ والدین کا کردار بچوں کے لیے ایک نمونے کی طرح ہونا چاہیے تاکہ بچے ان کی تقلید کریں اور معاشرے کے بہترین افراد بنیں۔

اولاد بگڑنے کے بہت سے اسباب ہیں جن میں چند درج ذیل ہے:

اولاد کی تربیت: والدین اپنی اولاد سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اپنے کردار اور اپنے انداز سے ان سے محبت کا اظہار بھی کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ والدین نے کبھی ان کی فکری، نظریاتی اور نفسیاتی حوالہ سے اچھے انداز میں تربیت کی کوشش کی؟ تو جواب ہمیں مایوس کن ملے گا۔ آج کل جو بے چینی اور اضطراب اور غیر مطمئن حالات دیکھنے میں آرہے ہیں ان سب کا بڑا سبب اسی معاشرتی پہلو سے غفلت شعاری ہے معاشرے کی بڑی بڑی خرابیاں اور ناقابل علان برائیاں والدین کے تربیت اولاد میں تساہل کا نتیجہ ہے والدین کی ذرا سی غفلت اور کوتاہی آگے چل کر پوری قوم کے لئے متعدد مسائل کا سبب بن جاتی ہے اگر وہ ابتداء سے ہی اولاد کی صحیح تربیت کرتے اور اور اس فرض کو پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کرتے تو غلط نتائج ہرگز نہ نکلتے۔

بری صحبت اختیار کرنا: اولاد بگڑنے کا ایک بڑا سبب بری صحبت بھی ہے صحبت انسان کا اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہے اسی طرح بری صحبت اس کو اپنے رنگ میں رنگ کر اسے برائی کی طرف لے جاتی ہے۔ ان سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر اولاد بری صحبت اختیار کرے گی تو وہ خود برے کام ہی کرے گی نافرمانیاں ہی کرے گی لیکن اگر وہ اچھی صحبت اختیار کر لے تو وہ اچھی ہی ہوگی۔

علم سے دوری: علم اندھے دلوں کی زندگی اور تاریک آنکھوں کا نور ہے بندہ اس کے سبب دنیا و آخرت میں نیک لوگوں کے مراتب اور بلند درجات تک پہنچتا ہے۔ لہٰذا علم سے دور لوگ بڑے ہی غافل ہیں۔ علم سے اگر اولاد دور ہوگی وہ اچھے برے کاموں میں تمیز نہیں کر پائے گی یہی وجہ ہے کہ اولاد فرمانبردار نہیں ہوتی۔ علم نیک بخت لوگوں کے دلوں میں ڈالا جاتا ہے جبکہ بد بختوں کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے۔ لہذا والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو علم سکھائیں۔

اچھا ماحول نہ ملنا: بعض دفعہ بچوں کو ماحول اچھا نہیں مل رہا ہوتا اور وہ گناہوں بھرے ماحول میں بگڑ جاتے ہیں۔اس لئے انہیں سنتوں بھرا ماحول دینے کی کوشش کرنی چاہیے نیکیوں کی عادت اور گناہوں سے چھٹکارے کے لیے ماحول کی تبدیلی ضروری ہے اگر آپ نیکیوں بھرے ماحول میں رہیں گے تو نیکیاں آپ کی عادت بن جائیں گی اسی طرح گناہ بھرے ماحول میں رہنے سے گناہ بھی عادت کا حصہ بن جائیں گے۔

نفسانی خواہشات اور دنیا کی محبت: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ(۱۴) (پ 3، آل عمران: 14) ترجمہ: لوگوں کے لئے آراستہ کی گئی ان خواہشوں کی محبت عورتیں اور بیٹے اور تلے اوپر سونے چاندی کے ڈھیر اور نشان کئے ہوئے گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی یہ جیتی دنیا کی پونجی ہے اور اللہ ہے جس کے پاس اچھا ٹھکانا۔ اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نفسانی خواہشات اور دنیا کی محبت بے کار ہے۔ آج کل بہت سے بچے اسی بیماری میں مبتلا نظر آرہے ہیں۔ اور نفسانی خواہشات کی وجہ سے گناہوں کے گھڑے میں گرتے نظر آرہے ہیں۔ چنانچہ یہ چیزیں ایسی مرغوب ہوئیں کہ کافر تو بالکل ہی آخرت سے غافل ہو گئے اور کفر میں جاپڑے جبکہ دوسرے لوگ بھی انہیں چیزوں کی محبتوں کے اسیر ہوگئے حالانکہ یہ تو دنیاوی زندگی گزارنے کا سامان ہے۔ (اے ایمان والو، ص 548)


اولاد اللہ پاک کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے اس کے ذریعے ہمارے نام و نسل کی بقا ہے۔ ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ پاک اس کو نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے جو کہ دنیا میں بھی اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور آخرت میں بھی اس کی نجات کا ذریعہ۔بلاشبہ بچے ملک وملت کا اصل سرمایہ اور مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔ سماج اور معاشرے کے بناؤ اوربگاڑ میں ان کا اہم رول ہوتا ہے۔

آج کل ہمارے معاشرے میں جس کو دیکھیں وہ یہی رونا روتے نظر آ رہا ہوتا ہے کہ ہمارے بچے بگڑ گئے ہیں۔ بات نہیں مانتے،نافرمان ہیں گالیاں دیتے ہیں، نماز نہیں پڑتے، موبائل پر وقت ضائع کرتےہیں۔ وغیرہ وغیرہ ماں باپ کی دن رات تربیت کے سلسلے میں کی جانے والی تگ و دو کے باوجود ایسا نتیجہ کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ آج کے بہت سے ماں باپ رسماً اپنی ذمہ داریاں تو خوب نبھا رہے ہوتے ہیں لیکن حقیقتاً وہ تربیت نہیں کر پا رہے ہوتےبلکہ اولاد بگڑنے میں بہت ہاتھ ماں باپ کاہو جاتا ہے

آئیےجائزہ لیتے ہیں کہ اولاد کے بگاڑ کی کیا کیا وجوہات ہیں:

اسلامی تعلیمات سے دوری: اولاد کے بگاڑ میں سب سے بڑی وجہ پہلی تو ماں باپ اس کے بعد اولاد کی دین کی تعلیمات سے دوری ہے اسلامی تعلیم وتربیت کے بغیر اولاد دنیا وآخرت میں نہ سرخروئی حاصل کرسکتی ہے نہ والدین کے لیے آخرت کا سامان ہی بن سکتی ہے۔

برےماحول کا اثر: سائنسی تحقیقات سے ثابت ہے کہ بچہّ تقریباً پانچ سال کی عمر تک اپنے اطراف و جوانب میں جو کچھ دیکھتا اور سنتاہے وہ ہمیشہ کے لیے اس کے ذہن وقلب پرنقش ہوجاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ چند ماہ کا بھی ہونے نہیں پاتا کہ ٹی وی پر ناچ گانے اور فحش حرکات بڑے مزے سے دیکھتا ہے اور پانچ سال تک تو نہ جانے اپنے گھر اور ماحول کی کتنی برائیاں اپنے اندر جذب کرچکاہوتا ہے۔ ظاہر ہے وہ بچہ کیا بن کر نکلے گا؟

بچپن کا ماحول: بچوں کو اگر بچپن ہی سے غلط ماحول ملے جہاں حرام حلال کی کوئی تمیز نہ ہو، وہ کسی کے حقوق جانتے ہوں نہ اپنے فرائض سے آگاہ ہوں، جھوٹ بولنا فلمیں بھی دیکھنا اور بچوں کو بھی دکھانا فیشن وبے پردگی ہو،جن کی زندگیوں کا کوئی مقصد ہی نہ ہو،ایسے ماحول سے کیوں کر آس لگائی جائے کہ وہاں بچے نیک وصالح اوربا اخلاق و باکردار بن کر پروان چڑھیں گے۔

ناجائز و حرام کمائی: ناجائز و حرام زریعہ معاش سے بھی اولاد نافرمان ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے قدم بقدم مسائل کا سامنا ہوتا ہے حتیٰ کہ زمانۂ حمل وزمانۂ رضاعت میں بھی حرام غذاؤں کی وجہ سے بچوں کا کردار غیراخلاقی ہو جاتا ہے۔

محبت و شفقت کی کمی: محبت وشفقت سے محرومی بھی بچوں کو بگاڑ دیتی ہےبچوں سے نفرت وبیزاری،ہمیشہ ڈانٹ پھٹکار، مار پیٹ، لعن طعن، ان کی جائز مطالبوں کو بھی پورا نہ کرنا، ان کے جذبات و عزت نفس کو ٹھیس پہنچانا ان کا دل توڑدیتا ہے۔ ان پر مایوسی طاری کردیتا ہے اور پھر وہ والدین اور گھر سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر بچے خودسر و باغی ہوجاتے ہیں۔

بےجا لاڈ پیار: بچوں کا بجا و بے جا لاڈ ان کی ہر ضد پوری کرنا اورکبھی کسی غلطی پر بھی ٹوکنے کا نام نہ لینا اور پھربڑا ہونے پرجانوروں کی طرح مار پیٹ کرنا انہیں درست نہیں کرپاتا بلکہ مزید باغی بنا دیتی ہے۔

بے جا ڈرانا: بچوں کو بچپن میں ہی بات بات پر ڈرایا جاتا ہے ایسا نا کرنا ورنہ یہ ہو جائے گا اور مار پڑے گی یہی بچپن کا ڈر تا عمر ان کے ذہن و دماغ میں بس جاتا ہے اور ان میں بزدلی و پست ہمتی پیداہوجاتی ہے۔

بے جا آزادی: بچوں کو شروع ہی سے باربار نصیحتیں کر نے سے پرہیز کی جاتی ہے اور ہر غلط کام کو اس وجہ سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ ابھی بچہ ہے۔ بےجا آزادی سے بچوں میں غیر اخلاقی عادات پیدا ہوتی ہیں جیسا کہ کسی کی بھی پڑی ہوئی چیز اٹھا کر چھپا لینا بات بات پر ہاتھ اٹھانا وغیرہ۔

حرام و حلال کی تمیز نہ سکھانا: حلال وحرام کی تمیز نہ سکھانے کی وجہ سے بھی چوری اورمفت خوری جیسی بری لت لگ جاتی ہے۔

کاہلی اور سستی: کاہلی، سستی اورنکما پن جیسی بری خصلتوں پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے بھی بچے بگڑ جاتے ہیں۔محنت و مشقت کرنے اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرنے بڑوں کی خدمت کرنے وغیرہ جیسے کام کرنے کی عادت نہیں رہتی۔

دوستوں کی صحبت: بچےدوستوں کی اچھی و دینداری والی صحبت اور محبت نہ ملنے سے بھی محرومی محسوس کرنے لگتے ہیں یا برے دوستوں کی صحبت اور انکی نشان دہی نہ کرنے کی وجہ سے بچے بگڑ جاتے ہیں۔

خاندانی باہمی مسائل: جوبچے پچپن میں ماں باپ، دادا، دادی، پھوپھی وغیرہ کے مظالم اور براسلوک دیکھتے ہیں ان کے ذہنوں میں بھی غم وغصہ اور نفرت اورانتقام کے جذبات انکے ساتھ ساتھ پروان چڑھتے ہیں جو ان کی تربیت کے ضمن میں سم قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

احساس کمتری: احساس کمتری خواہ جسمانی ہو یاذہنی یاکسی اور کمزوری یا برائی کی وجہ سے ہو نقصان دہ ہوتی ہے۔ اور یہ اس وقت زیادہ مضر ثابت ہوتی ہے جب اپنوں کے ساتھ دوسرے لوگ بھی ان کامذاق اڑاتے ہیں یا انہیں حقیر وکمتر سمجھتے ہیں۔ان کی دوسری خوبیوں کی طرف بھی توجہ نہیں دیتے بلکہ دوسرے لوگوں کے سامنے اپنے بچوں کی برائیاں کرتے ان کی کمزوریوں اور خامیوں کاتذکرہ کرتے کسی کے بھی سامنے انہیں ڈانٹتے جھڑکتے اور شرمندہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچے بہت زیادہ بگڑ جاتے ہیں اور بہت مسائل پیدا کرتے ہیں۔

طنز کرنا: بچوں کے سامنے اس طرح کی طنز آمیز باتیں کہ وہ کسی کام کے نہیں ناکارہ و نالائق ہیں، ان کے ذہن و قلب پرمنفی اثر ڈالتی ہیں اور وہ اپشنے آپ کو ناکارہ وذلیل سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ وہ اس لائق ہی نہیں کہ کوئی کام کرسکیں یا کچھ سیکھیں یا اپنے اندر اعلیٰ اوصاف پیدا کرسکیں۔ پھر وہ تا عمر کچھ کر بھی نہیں پاتے نہ ہی اس کا عزم و حوصلہ بلند ہوتا ہے اگرچہ یہ باتیں بچوں کی اصلاح کی غرض سے ہی کرتے ہیں، لیکن اس طرح کی باتیں انہیں سدھارنے کی بجائے مزیدناکارہ بنادیتی ہیں۔

ان تمام وجوہات کی بناء پر اولاد بہت بگڑ رہی ہے ان وجوہات پر قابو پا کر ہم اپنی اولادوں کی بہتر تربیت کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوار سکتے ہیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے اولاد کو ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے دنیا و آخرت میں۔ بخشش کا ذریعہ بنائے تعلیم و تربیت میں مدد فرمائے۔ آمین


والدین اولاد کے حاکم ہوتے ہیں اور ہر حاکم پر لازم ہے کہ وہ اپنی رعایا کی تربیت کرے۔ بروز قیامت ہر حاکم سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا اگر والدین کو دیکھا جائے تو سوال ہوگا کہ اپنی رعایا یعنی اولاد کی کیا تربیت کی اور کیا سکھایا؟ اور اولاد بگڑنے میں اولا ہاتھ ماں باپ کا ہی ہوتا ہے۔ اولاد بگڑنے کے اسباب درج ذیل ہیں:

1۔ والدین بچپن سے ہی اولاد کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں کہ بس اولاد نے جس طرف اشارہ کیا وہی لے دیا تو یوں والدین اس بچے پر ظلم کرتے۔ان کے بگڑنے کا سبب بنتے۔ اسے صبر کرنا نہیں آتا۔یوں ہر خواہش پوری کرنے کے باعث جب یہی اولاد نوجوان ہوتی تو والدین کو تنگ کر کے رکھ دیتی کہ ہماری فلاں خواہش بھی پوری کریں فلاں خواہش بھی پوری کریں۔

2۔ والدین کا اپنے بچوں میں ایک کو ترجیح دینا اور دوسرے کے ساتھ بے توجہی برتنا بھی بچوں کے بگڑنے کا ایک بڑا سبب ہے اس سے ایک بچے کے اندر گھٹن،جلن و حسد،نفرت و مایوسی اور رقابت و بغاوت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور دوسرے میں غرور و برتری کے۔

3۔ تربیت میں کمی کی وجہ سے بھی اولاد میں بگاڑ پیدا ہوتا۔اولاد بچپن سے ہی تربیت نہیں کرتے کہ ابھی اس کو کیا سمجھ بڑا ہوگا تو سمجھائیں گے تب سمجھ جائے گا ابھی سمجھ نہیں بچہ ہے جو غلط کام کر رہا کرنے دیں بڑا ہو گا تو سمجھ جائے گا۔ایسے جملے اولاد کو بگاڑنے میں بڑا سبب بنتے ہیں۔

4۔ اولاد بگڑنے کے اسباب کو فراموش کرنا جیسے آج کل موبائل فون، ٹی وی اور انٹر نیٹ کا غلط استعمال بھی نئی نسل کی تباہی اور بگڑنے کا ایک سبب ہیں ابتداء والدین خود ہی یہ چیزیں دلاتے ہیں کہ ہمارے بچے دور جدید کی ان ایجادات سے کیوں بےخبر رہیں لیکن جب بچے ان چیزوں میں پانی کی طرح پیسہ بہا کر، راتوں کی نیندیں اڑا کر گناہوں کی بندگی میں ڈبکیاں لگا کر خوب لت پت ہو جاتے ہیں تو اس وقت پھر والدین ان گندگی سے نکالنا چاہیں بھی تو بچے ان چیزوں کو چھوڑنے کو تیار نہیں۔لہذا ایسی جدید چیزیں دینی ہیں تو ان کے نقصانات سے بھی آگاہ کیجیے۔

اولاد بگڑنے کے کئی عوامل ہوسکتے ہیں، جو عموماً والدین کی تربیت، ماحول، اور سماجی اثرات سے جڑے ہوتے ہیں۔ درج ذیل کچھ اہم اسباب ہیں:

1۔ والدین کی غفلت: والدین کا بچوں کے جذباتی یا جسمانی ضروریات کو نظرانداز کرنا۔

بچوں کے ساتھ وقت نہ گزارنا اور ان کی سرگرمیوں پر نظر نہ رکھنا۔ ان کی زندگی میں دلچسپی نہ لینا یا حد سے زیادہ سختی کرنا۔

2۔ نامناسب ماحول: گھر میں لڑائی جھگڑے یا بدسلوکی کا ماحول۔ والدین کے درمیان تعلقات کی خرابی یا علیحدگی۔ ایسا ماحول جہاں اخلاقی اقدار کو نظرانداز کیا جاتا ہو۔

3۔ دوستوں کی بری صحبت:غلط صحبت یا دوستوں کا اثر۔ نشے یا غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے ساتھ وقت گزارنا۔

4۔ تعلیم و تربیت کی کمی: دینی اور اخلاقی تربیت کا فقدان۔ والدین یا اساتذہ کا بچوں کی تعلیم کو اہمیت نہ دینا۔

5۔ میڈیا اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال: انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا بے جا استعمال۔ غیر اخلاقی مواد تک رسائی۔

6۔ حد سے زیادہ آزادی یا روک ٹوک: والدین کی طرف سے بچوں کو حد سے زیادہ آزادی دینا۔ یا پھر ان پر حد سے زیادہ پابندیاں لگانا۔

7۔ عدم توجہ اور محبت کی کمی: والدین کا بچوں کی حوصلہ افزائی نہ کرنا۔ بچوں کو محبت اور اعتماد نہ دینا۔

8۔ غربت یا مال و دولت کی زیادتی: غربت کی وجہ سے ضروریات پوری نہ ہونا۔ یا پھر بے جا دولت کی وجہ سے بچوں کا لاپرواہ ہو جانا۔

9۔ والدین کا غلط رویہ: بچوں کے سامنے غلط رویوں کا مظاہرہ۔ جھوٹ، دھوکہ، یا بے ایمانی کو معمول بنانا۔

10۔ دعا اور روحانی تعلق کی کمی: والدین کا بچوں کے لیے دعا نہ کرنا۔

11 ۔ دین سے دوری: دین سے دوری اور روحانی تربیت کا فقدان۔

حل کیا ہے؟ بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کریں۔ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں لیکن ان پر اعتماد بھی کریں۔ دینی اور اخلاقی تربیت کو اہمیت دیں۔ ان کے مسائل کو سنیں اور ان کی رہنمائی کریں۔ ان کے لیے اچھا رول ماڈل بنیں۔ دعا اور صبر کے ساتھ ان کی اصلاح کی کوشش کریں۔ اولاد کو بہتر بنانے کے لیے محبت، تربیت، اور رہنمائی کا توازن ضروری ہے۔

آج کل ہمارے معاشرے میں جس کو دیکھیں وہ یہی رونا روتے نظر آ رہا ہوتا ہے کہ ہمارے بچے بگڑ گئے ہیں۔ بات نہیں مانتے،گالیاں دیتے ہیں، نماز نہیں پڑتے، موبائل پر وقت ضائع کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ زیادہ تر والدین یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ دوستوں کی وجہ سے بگڑ گیا ہے۔لیکن کسی کا ذہن بھی اس طرف نہیں جاتا کہ شاید ہم سے پرورش کرنے میں کوتاہی نا ہو گئی ہو۔ کیوں کہ اگر آج کل والدین کو اگر دیکھیں تو ایک ہاتھ سے بچے کو فیڈر پلا رہے ہوتے ہیں تو دوسرے میں خود موبائل دیکھتے ہیں، یا اگر بچہ رو رہا ہوتا ہے تو موبائل پر کارٹون یا کچھ میوزک وغیرہ لگا دیتے ہیں۔ یہ مقام غور ہے والدین کے لیے کہ بچے کو موبائل کی عادت کون ڈال رہا ہے بچوں کا دماغ تو کورا کاغذ ہوتا ہیں انکو کیا معلوم کہ موبائل کیا چیز ہے یہ ہم ہی انکو دیتے ہیں کہ ہمیں تنگ نہ کریں اور اسکو دیکھ لیں۔ جب کہ والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو موبائل سے دور رکھیں جب والدین ہی بچپن سے یہ عادت بنائیں گے تو کیسے کہتے ہیں کہ دوستوں نے خراب کیا۔

نیز بچے قول سے کم سیکھتے ہیں جبکہ عمل سے زیادہ سیکھتے ہیں۔ اور وہ وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے والدین کو کرتا دیکھتے ہیں یا اپنے اردگرد موجود لوگوں کو کرتے دیکھتے ہیں۔ لہذا اگر والدین کو چاہئے کہ ہماری اولاد نمازیں پڑھے، نیک بنے تو اس کے لیے ہمیں پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہئے کہ ہم قرآن پڑھیں گے یا نمازیں پڑھیں گے تو ہمارے بچے بھی وہی کریں گے۔ اگر ہم بزرگان دین کو دیکھیں تو ان کے والدین بھی دین پر چلنے والے تھے اس لیے ہی ان ماؤں کی کوکھ سے غوث اعظم رضی اللہ عنہ، اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ جیسی عظیم ہستیوں نے جنم لیا۔

اگر ہم آج کے والدین کو دیکھیں تو خود گانے سنتی ہوں گی، نمازیں قضا کرتی ہوں گی، رمضان کے روزے چھوڑتیں ہوں گی اور تمنا کریں گی کہ ہمارا بچہ اچھا ہو تو یہ بہت مشکل بات ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایک خرابی جو پائی جاتی ہے کہ جسکی وجہ سے بچے خراب ہو رہیں ہیں وہ یہ ہے کہ بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو والدین اسکو کسی بری بات سے خاص منع نہیں کرتے بلکہ ہنس دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ابھی بچہ چھوٹا ہے بڑا ہو گا تو سمجھ جائے گا، بڑا ہو گا تو سمجھا دیں گے۔

یاد رہے کہ یوں چھوٹے ہوتے جو بری عادات پڑ جائیں انکو چھڑوانا پھر بہت مشکل ہوتا ہے اور تب والدین کہہ دیتے ہیں کہ دوستوں نے خراب کیا۔

نیز بچوں کے خراب ہونے کا ایک سبب انکی بےجا خواہشات پوری کرنا بھی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انکی مانی ہی نہ جائے بلکہ انکی کسی بھی خواہش کو پورا کرنے سے پہلے غور کر لیا جائے اور صرف جائز خواہشات کو ہی پورا کیا جائے۔

نیر والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کی تربیت اسلام کے پیارے اصولوں کے مطابق کریں۔ انہیں اپنے پیارے آقا مدینے والے مصطفٰی ﷺ کی سنتیں سکھائیں تاکہ اولاد والدین کے لیے راحت و ٹھنڈک کا باعث بنے اور اس سے والدین کی اور اولاد کی دنیوی اور اخروی زندگیاں بہتر بنیں۔

اللہ کریم ہمیں اپنے بچوں کی صحیح پرورش و تربیت کرنے کی توفیق دے اور ہمیں بھی اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری اولاد کی بہترین تربیت کرنا بھی ہے۔ کیونکہ بچے کی پہلی درس گاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے۔ لیکن آج کل ہمارےمعاشرے میں والدین اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنے میں بہت سستی کا شکار نظر آرہے ہیں۔ جس کی وجہ سے اولاد بگڑ جاتی ہے اور نافرمان ہوجاتی ہے۔

اولاد بگڑنے کے چند اسباب درج ذیل یہ ہیں:

1۔ علم دین سے دوری:آج کل والدین کی توجہ اپنی اولاد کو لے کر صرف دنیوی تعلیم پر ہی منحصر ہے والدین اپنےبچوں کو ڈاکٹر انجینئر بنانے کی حرص میں انسان بنانا بھول جاتے ہیں بچوں کو اگر ضروری دینی احکام سکھائیں جائیں تو بچے ہر شعبے میں احسن کردار ادا کر کہ اچھا شہری ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں۔

2۔ تربیت کی کمی:آج کل والدین اپنی مصروفیات میں ہی لگے رہتے ہیں اور بچوں کی حالت سے بے خبر ہوتے ہیں جس کے سبب اولاد کئی برائیوں میں مبتلا ہو جاتی ہے والدین کو روزانہ اپنے بچوں کو کچھ نہ وقت دینا چاہیے بچوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش اور برائیوں کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

3۔ بے جا پابندیاں: بعض والدین اولادکی خبر ہی نہیں لیتے اور بعض اولاد کوانکی مرضی سے سانس بھی نہیں لینے دیتے حتی کہ دینی معاملات میں بھی بچے خود مختار نظر نہیں آتے بعض بچےعلم دین حاصل کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں لیکن والدین رکاوٹ بن جاتے ہیں لہذا والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو اچھے کام ان کی رأئے سے کرنے کا اختیار دیں۔

4۔ برے دوستوں کی صحبت:بعض بچوں کو سکول کالج میں صحبت اچھی نہیں ملتی جس کا رنگ ان میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتا اور اچھے خاصے بچے بھی دن بہ دن بگڑتے نظر آتےہیں والدین کو اپنے بچوں کے دوستوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ آیا یہ دوست میرے بچے کے لیے نفع بخش ہے یا نقصان دہ۔

5۔ سوشل میڈیا کا بے جا استعمال: آج کل موبائل فون، ٹیبلٹ پی سی(Tablet P۔C)،ٹی وی اورانٹر نیٹ کا غلط استعمال بھی نئی نسل کی تباہی اوربگڑنے کا ایک سبب ہیں، ابتداءًوالدین خود ہی یہ چیزیں بچوں کو دلاتے ہیں کہ ہمارے بچے دور جدید کی ان ایجادات سے کیوں بے خبر رہیں لیکن جب بچے ان چیزوں میں پانی کی طرح پیسہ بہاکر،راتوں کی نیندیں اڑاکر گناہوں کی گندگی میں ڈبکیاں لگا کر خوب لت پت ہوجاتے ہیں تواس وقت باپ کی آنکھ کھلتی ہےمگر،اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت، لہٰذااگربچوں کوضرورتاًیہ جدید چیزیں دینی ہی ہیں توآپ بحیثیت باپ پیار محبّت سے ان چیزوں کے غلط استعمال کے نقصانات بھی ضرور بتائیے،صحیح استعمال سکھائیے۔ بچوں کو کڈز مدنی چینل دکھائیے۔

رب تعالیٰ سے دعا ہے جو بے اولاد ہے انکو نیک و صالح اولاد عطا فرما اورجو اولاد والے ہیں ان کی اولادوں کو نیک و فرماں بردار بنا دے۔ آمین

اولاد کی تربیت کرنا والدین پر بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے اگر اولاد کی تربیت میں کمی پیشی ہو جائے تو اولاد بہت سی آفات میں مبتلا ہو سکتی ہے اس لیے والدین کو چاہیے کہ اولاد کی تربیت میں اچھی خاصی توجہ دیں تاکہ نہ تو اولاد بگھڑے اور نہ گناہوں کے دلدل میں پھنسے۔

پیارے آقا ﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہتریں نمونہ ہے حضور ﷺ نے اپنی شہزادیوں کی کس طرح تربیت کی آپ ﷺ کی شہزادیاں ہر حال میں اللہ پاک کا شکر ادا کرتیں اور اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کی طرف گامزن رہتیں ان شہزادیوں نے اپنی اولاد کی تربیت اس طرح کی جو کہ امت مسلمہ کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنی۔ اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنی اولاد کی تربیت اچھی کریں آج کل بہت سے ایسے اسباب ہیں کہ جس کی وجہ سے اولاد دن بہ دن بگڑتی جارہی ہے اولاد بگڑنے کے بہت سے اسباب ہیں:

1۔ اولاد کی بے جا خواہشات کو پورا کرنا خواہ وہ خواہش جائز ہو یا نا جائز جس کی وجہ سے بچہ اپنی خواہشات کو دن بہ دن بڑھاتا جاتا ہے اور بلآخر اسے اپنے والدین کی عزت و ذلت کی بھی پرواہ نہیں رہتی۔

2۔ سوشل میڈیا کا غلط استعمال بچوں کو بگاڑنے میں بہت موثر ہے اسی طرح ٹی وی موبائل فون ٹیبلٹ انٹرنیٹ یہ ایجادات بچوں کی تباہی کا بہت بڑا سبب بنتی جا رہی ہیں۔

3۔ بچوں کی حد سے زیادہ تعریف کرنا اکثر مائیں بچوں کی حد سے زیادہ تعریف کرتیں ہیں اور چھوٹے چھوٹے کام کرنے پر زمین وآسمان کے قلابے ملاتی ہیں حلانکہ بچوں کی تعریف کرنا ضروری ہے مگر حد سے زیادہ تعریف کرنا الٹا اثر کرتی ہے۔

3۔ بری صحبت بچوں کو بگاڑنے کا سبب ہے بچے کا پتہ اس کے دوستوں کی حاصل کردہ صحبت سے معلوم ہوتا ہے اگر تو دوست اچھے ہونگے تو بچہ باقی دوسرے افراد کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے گا اور اگر تو بری صحبت اختیار کرتا ہو گا تو بچے کے صرف بولنے کے انداز سے ہی معلوم ہو جائے گا کہ اس کا رویہ بگڑا ہوا ہے۔۔

5۔ گھر میں والدین کا بے جا جھگڑنا بات بات کر گالی گلوچ کرنا اور پھر ایک دوسرے کا غصہ اولاد پر نکالنا۔جس کی وہ سے بچہ بد مزاج بد تمیز ہو جاتا ہے۔

کسی کی اولاد کے بگڑنے کا سبب یہ ساری ہی وجوہات نہ بھی ہو مگر ان میں سے کوئی ایک نہ ایک تو وجہ ضرور ہو گی جو کہ اولاد بگڑنے کا سبب بنی ہو گی۔ لہذا ہر والدین کو چاہیے کہ وہ ان وجوہات کو ختم کریں کہ اکثر اولاد کے مزاج وغیرہ میں بگاڑ کا سبب گھر والے بنتے ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ان وجوہات کو دور کر کے اولاد کی تربیت کریں، دینی تعلیمات کو اپنے گھر میں عام کریں۔

اللہ پاک ہمیں اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ-یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّكُوْرَۙ(۴۹) اَوْ یُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًاۚ-وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًاؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ(۵۰) (پ 25، الشوریٰ: 49) ترجمہ کنز الایمان: اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے بےشک وہ علم و قدرت والا ہے۔

ایک مرتبہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ رسول پاک ﷺ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے کہ آپ کا ہاتھ پلیٹ میں کبھی ادھر پڑتا، کبھی ادھر، رسول پاک ﷺ نے اس انداز سے سمجھایا کہ انہیں محسوس ہی نہیں ہوا کہ غلطی پر ٹوکا جارہا ہے یا آداب سکھائے جارہے ہیں،چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: اے بچے!جب کھانا کھاؤ تو اللہ کا نام لو،اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔ (بخاری، 3/521، حدیث: 5376)

اولاد بگڑنے کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں، جن میں والدین کی تربیت، معاشرتی ماحول اور دیگر عوامل شامل ہیں۔

تعلیمی عوامل: بچوں کو اچھی تعلیم کی سہولت فراہم نہ کرنا، اساتذہ کی جانب سے سخت رویہ، بچوں کی تعلیمی ضروریات کو نظرانداز کرنا، تعلیم کے بجائے کھیل یا دیگر سرگرمیوں پر زیادہ زور دینا، بچوں کو تعلیمی میدان میں بےجا دباؤ ڈالنا۔

والدین کی جانب سے: والدین کا بچوں کو وقت نہ دینا، تربیت میں سختی یا حد سے زیادہ نرمی، بچوں کے ساتھ محبت اور شفقت کا اظہار نہ کرنا، غلط صحبت کو نظرانداز کرنا، والدین کا آپس میں جھگڑنا یا تلخ کلامی۔

اولاد کی تربیت ایک اہم ذمہ داری ہے جو والدین اور نگہبانوں پر عائد ہوتی ہے۔ صحیح تربیت سے بچے نہ صرف اچھی شخصیت کے حامل بنتے ہیں بلکہ معاشرے میں بھی مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ ذیل میں اولاد کی تربیت کرنے کے 20 مؤثر طریقے پیش کیے گئے ہیں:

1۔ مثبت مثال قائم کریں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود وہ عادات اپنائیں جو وہ بچوں میں دیکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ بچے والدین کی حرکات اور سلوک کو دھیان سے دیکھتے ہیں۔

2۔ محبت اور شفقت کا اظہار کریں۔ بچوں کو محبت اور توجہ دینے سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور وہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

3۔ واضح حدود مقرر کریں۔ بچوں کو واضح قوانین اور حدود بتائیں تاکہ وہ جان سکیں کہ کس چیز کی اجازت ہے اور کس کی نہیں۔

4۔ معمولات بنائیں۔ روزمرہ کے معمولات جیسے سونے کا وقت، کھانے کا وقت، اور پڑھنے کا وقت مقرر کریں تاکہ بچوں کو استحکام کا احساس ہو۔

5۔ تعریف اور حوصلہ افزائی کریں۔ بچوں کی اچھی کارکردگی پر ان کی تعریف کریں تاکہ ان میں مثبت رویے کی حوصلہ افزائی ہو۔

6۔ غلطیوں سے سیکھنے کی ترغیب دیں۔ بچوں کو یہ سمجھائیں کہ غلطیاں زندگی کا حصہ ہیں اور ان سے سیکھنا ضروری ہے۔

7۔ وقت پر سزا دیں۔ اگر بچے قواعد کی خلاف ورزی کریں تو مناسب اور وقت پر سزا دیں تاکہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو۔

8۔ گفتگو کو فروغ دیں۔ بچوں کے ساتھ کھل کر بات چیت کریں تاکہ وہ اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار کر سکیں۔

9۔ مطالعہ کی عادت ڈالیں۔ بچوں میں مطالعہ کی عادت پیدا کریں تاکہ ان کا ذہنی نشوونما ہو اور علم میں اضافہ ہو۔

10۔ تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کریں۔ بچوں کو سوالات پوچھنے اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی ترغیب دیں تاکہ ان کی تنقیدی سوچ فروغ پائے۔

اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور ا۔س کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے۔ والدین کی خدمت میں عرض ہے کہ تربیت کیجئے مگر ان کے بگڑنے والے اسباب کوبھی فراموش نہ کیجئے،آئیے ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے: تم نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ بادشاہ نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہل وعیال کا نگران ہے اس سے اس کے اہل وعیال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولادکی نگران ہے، اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری، 2/159، حدیث: 2554)

بچوں کے بگاڑ کے چند اسباب اور اصلاح کی تدابیر کے حوالے سے چند مدنی پھول آپکے پیشں خدمت کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہوں، ملاحظہ ہوں:

1۔ غلط چیزوں کا بے جااستعمال: جیسے آج کل موبائل فون، ٹیبلٹ پی سی(Tablet P۔C)،ٹی وی اورانٹر نیٹ کا غلط استعمال بھی نئی نسل کی تباہی اوربگڑنے کا ایک سبب ہیں، اسکی ایک وجہ یہ بھی کہ ابتداءًوالدین خود ہی یہ چیزیں بچوں کو دلاتے ہیں کہ ہمارے بچے دور جدید کی ان ایجادات سے کیوں بے خبر رہیں لیکن جب بچے ان چیزوں میں پانی کی طرح پیسہ بہاکر،راتوں کی نیندیں اڑاکر گناہوں کی گندگی میں ڈبکیاں لگا کر خوب لت پت ہوجاتے ہیں تواس وقت والدین کی آنکھ کھلتی ہےمگر،اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت، اب اگر والدین اس گندگی سے نکالنا چاہیں بھی تو بچے ان چیزوں کوچھوڑنے کوتیار نہیں۔ لہٰذااگربچوں کوضرورتاًیہ جدید چیزیں دینی ہی ہیں توآپ بحیثیت والدین پیار محبّت سے ان چیزوں کے غلط استعمال کے نقصانات بھی ضرور بتائیے،صحیح استعمال سکھائیے،ضرورت ہوتو سادہ موبائل دلوائیےاور ان کو دعوت اسلامی کی ویب سائٹ کا وزٹ کروائیے۔

2۔ محبت دینے میں فرق کرنا: بچوں کے بگاڑ کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ اکثر بچوں سے صرف ان کے والدین اور نہایت قریبی عزیز ہی محبت کرتے ہیں۔ باقی دیگر رشتے دار و پڑوسی ان سے محبت تو درکنار انہیں پیار کی ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ان لوگوں کے ایسے رویے بھی بچوں میں نفرت و کشیدگی پیداکردیتے ہیں۔ کیوں کہ بچے نہایت حساس پھول ہوتے ہیں جو پیار کی ایک نظر کے بھوکے ہوتے ہیں اور ہر ایک سے محبت مانگتے ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ دوسرے بچوں کو بھی محبت کی نظر سے دیکھیں انہیں بھی جنت کے پھول سمجھیں۔

4۔ احسانات جتانا: بچوں کے بگاڑ کا ایک اہم سبب والدین خصوصاً باپوں کا اپنے بچوں کے سامنے باربار اس طرح کاتذکرہ بلکہ تکرار اور وہ بھی غصہ وجھنجھلاہٹ کے ساتھ کرنا بھی ہے کہ ہم تمہیں کھلا رہے پلارہے ہیں۔ تمہارے سارے اخراجات پورے کر رہے ہیں۔ اس طرح کا انداز بچوں کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ بلکہ ان میں بیگانگت پیدا کردیتا ہے۔ ظاہر ہے والدین ہی بچوں کے ساتھ غیروں وبیگانوں کا سلوک کریں ان پراحسان جتائیں تو پھر بچے کسے اپنا کہیں یا سمجھیں گے۔ غلط حرکات پر غصہ وتادیب ایک الگ چیز ہوتی ہے اوراس طرح باربار احسان جتانا ان کی عزت نفس کو مجروح کرنا اور ہی بات ہے۔ پھر بڑاہونے پر وہ بھی اپنے والدین کے ساتھ اسی طرح یگانگیت کامظاہرہ کرتے ہیں۔ ہاں حکمت کے ساتھ اورغیرمحسوس طریقے سے ان میں یہ احساس ضرور پیداکریں کہ والدین کی ساری محنت دوڑ دھوپ، اپنا سکھ چین وآرام قربان کرکے مصیبتیں اٹھانا تکلیفیں جھیلنا صرف انہیں کی خاطر ہے۔

5۔ احساس کمتری: والدین کا اپنے بچوں میں ایک کو ترجیح دینا اور دوسرے کے ساتھ بےتوجہی برتنا بھی بچوں کے بگڑنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس سے ایک بچے کے اندر گھٹن، جلن و حسد، نفرت و مایوسی اور رقابت وبغاوت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور دوسرے میں غرور وبرتری کے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب والدین ہی اپنے بچوں کو ایک نظر سے نہ دیکھیں اوران کے ساتھ لین دین اوربرتاؤ میں امتیازی سلوک کرنے لگیں تو پھر کس سے وہ پرخلوص محبت اور انصاف کی امید کریں؟

رسول اکرم ﷺ نے بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والوں کو سخت تنبیہ کی ہے۔ نیز لڑکیوں کو کمتردیکھنا، ان کے ساتھ غلط سلوک کرنا اورلڑکوں کو اہمیت دینا اور بے پناہ چاہنا اس سے بھی خدا اور رسولﷺ نے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔

6۔ محبت وشفقت میں کمی: محبت وشفقت سے محرومی بھی بچوں کو بگاڑ دیتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بچو ں کے ساتھ نہایت پیار و محبت و نرمی سے پیش آئیں۔ ان کے آرام وآسائش کا خیال رکھیں۔ یہ بات نہایت قابل غور اور یاد رکھنے کے لائق ہے جو حدیث سے بھی اور سائنسی تحقیقات سے بھی ثابت ہے کہ بچہّ تقریباً پانچ سال کی عمر تک اپنے اطراف و جوانب جو کچھ دیکھتا اور سنتاہے وہ ہمیشہ کے لیے اس کے ذہن وقلب پرنقش ہوجاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ چند ماہ کا بھی ہونے نہیں پاتا کہ ٹی وی پر ناچ گانے اور فحش حرکات بڑے مزے سے دیکھتا ہے اور پانچ سال تک تو نہ جانے اپنے گھر اور ماحول کی کتنی برائیاں اپنے اندر جذب کرچکاہوتا ہے۔ ظاہر ہے وہ بچہ کیا بن کر نکلے گا؟

7۔ بچپن کا ماحول:بچوں کو اگر بچپن ہی سے غلط ماحول ملے جہاں حرام حلال کی کوئی تمیز نہ ہو، وہ کسی کے حقوق جانتے ہوں نہ اپنے فرائض سے آگاہ ہوں، باترجمہ وتشریح قرآن و حدیث کا مطالعہ اور دینی احکام جاننے ان پر عمل کی کوششوں اور دینی وتعمیری کاموں میں حصہ لینے کے بجائے رومانی و فحش ناولوں و لٹریچر کا جن کے گھروں میں چرچا ہو، دنیاوی رنگینیوں میں اتنے مست ہوں کہ ذرہ برابر خوف خدا ان کے دلوں میں نہ ہوایسے ماحول سے کیوں کر آس لگائی جائے کہ وہاں بچے نیک وصالح اوربا اخلاق و باکردار بن کر پروان چڑھیں گے۔ بچوں کی تربیت کے لیے تو نہ صرف والدین کا باعمل بننا، تمام برائیوں سے پرہیز کرنا، نمازوں اور دیگرعبادات کی پابندی کے ساتھ ساتھ شریعت کی پوری پوری پابندی کرنالازمی ہے، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے گھر کے پورے ماحول کو بھی دینی و پاکیزہ بنانے کی کوشش کریں۔ ورنہ بچوں کو تونصیحتیں کی جارہی ہیں اور گھر کے لوگوں کے عمل ان کے خلاف ہوں اور پھر آس لگائی جارہی ہے کہ بچے نہ بگڑیں۔ تو یہ درست نہیں آئیے تربیت اولاد پر ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے۔

رسول کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: کسی باپ کی طرف سے اس کی اولاد کے لیے سب سے بہتر تحفہ یہ ہے کہ وہ اس کی اچھی تربیت کرے۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959) لہذا والدین اپنی اولاد کی بچپن سے ہی تربیت اسطرح کریں کہ خود اچھے اور غلط کے درمیان فرق کرنا خود سیکھ جائیں تاکہ انکی تربیت میں بگاڑکے اسباب جنم ہی نہ لے سکیں۔

الله کریم سے دعا ہے کہ ہمیں ہماری اولاد کی دین واسلام کے مطابق تربیت کرنےمیں مدد فرمائے اور اولاد کو ہمیشہ دینی ماحول سے وابستہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اولاد اللہ پاک کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور ہر مسلمان کو یہی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ پاک اسے نیک اور صالح اولاد سے نوازے جو دنیا میں اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور آخرت میں اس کے لئے ذریعہ نجات بنے تو جس طرح اولاد کے نیک اور صالح بننے میں والدین کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے اسی طرح ان کو بگاڑنےمیں بھی سب سے اہم کردار والدین کا ہی ہوتا ہے اسباب جانتے ہیں کہ وہ کام جن کو کرنے سے بچوں کی صحت پر اثر پڑتا ہے اور بچوں کی ذہنی اور جسمانی صلاحیت متاثر ہوتی ہےاور بچے بگاڑ کا شکار ہوتے ہیں:

1۔ سب سے اہم سبب ہے والدین کا آپس میں ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہنا جس کی وجہ سے گھر کا سکون بھی برباد ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے بچوں کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے اور ان کا ذہنی سکون برباد ہو جاتا ہے بچوں کے دل سے والدین کی عزت تکریم محبت سب ختم ہو جاتی ہے اور بچے نافرمانی کرتے ہیں اور برے کاموں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔

2۔ بچوں کو بلا وجہ ڈانتے رہنا یاپھر لوگوں کے سامنے ڈانٹنا یابچوں کو ہر چھوٹی چھوٹی بات پر مارنا۔

3۔ بچوں سے بجا محبت بھی بچے کو بگڑ دیتی ہے برے کاموں پر ان کو سمجھنے کی بجائے ان کا ساتھ دینا۔

4۔ جب ماں یا باپ میں سے کوئی ایک بچے کو برے کام سے روکے اور دوسرا بچے کا ساتھ دے اس طرح بچوں کے دل میں۔ سمجھانے والے کی عزت کم ہو جاتی ہے اور ساتھ دینے والے کی عزت بڑھ جاتی ہے اور بچا برائی کرنے پر ڈاٹ جاتا ہے۔

5۔ والدین کاایک بچے کو دوسرے پر ترجیح دینا اس طرح کرنے سے بچوں میں احساس محرومی پیدا ہوتی ہے۔

6۔ سوشل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال۔

7۔ بچپن ہی سے ان کو اچھے برے اور حلال حرام کی تمیز نہ سیکھنا۔

8۔ ان کی ضروریات کا خیال نہ رکھنا۔

9۔ علم دین سے دوری۔

10۔ بری صحبت اختیار کرنا۔

11۔ والدین کا اپنے بچوں کو وقت نہ دینا ان سے باتیں نہ کرنا۔ ہر وقت بچوں پر چیخ وپکار کرنا۔

12۔ اپنے بچوں کا دوسروں کے بچے کے ساتھ موازنہ کرنا۔

یہ کچھ اسباب بیان کیے گئے ہیں جن کی وجہ سے بچے بگاڑ کا شکار ہو جاتے ہیں ان اسباب کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ پاک ہمیں اپنی اولاد کی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ اِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَ هُوَ یَعِظُهٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِﳳ-اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(۱۳) (پ21، لقمان: 13) ترجمہ کنز العرفان: اور یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اے میرے بیٹے! کسی کواللہ کا شریک نہ کرنا، بیشک شرک یقینا بڑا ظلم ہے۔

رسول پاک ﷺ کی شفقت کو دیکھا جائے تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے دس سال رسول پاک ﷺ کی خدمت میں گزارے لیکن کبھی بھی انہیں ڈانٹا نہیں گیاجس کی گواہی حضرت انس رضی اللہ عنہ خود دیتے ہیں۔ (مسلم، ص 972، حدیث: 2309)

بچوں کے بگڑنے کے اسباب:1۔ بچوں کے جذبات کو نظرانداز کرنا۔ 2۔ غیر متوازن توجہ: کسی ایک بچے کو زیادہ توجہ دینا۔ 3۔ بچوں کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش نہ کرنا۔ 4۔ والدین کا خود بری عادات کا شکار ہونا۔ 5۔ بچوں پر حد سے زیادہ پابندیاں عائد کرنا۔

تربیت، انسانی اخلاق کو سنوارنے والی چیز ہے جس کی وجہ سے انسان دوسروں کی نظروں میں معزز بن جاتا ہے۔اگر اولاد کے اخلاق اچھے ہوں گے تو معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور لوگ ان کی عزت کریں گے، جبکہ برے اخلاق کی صورت میں معاشرے میں جہاں ان کا وقار ختم ہوگا وہیں الٹا والدین کی بدنامی اور رسوائی بھی ہوگی۔ اچھے اخلاق آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث ہیں، جبکہ برے اخلاق غضب الٰہی اور لوگوں کی طرف سے خود پر بوجھ لادنے کا سامان ہیں۔ان کے ظاہری اعمال و عبادات جیسے نماز وغیرہ کی طرف توجہ دیں، یعنی انہیں نماز سکھائیں اور اسے پڑھنے کا عادی بنائیں، یونہیں ظاہری باطنی آداب کے ساتھ نماز پڑھنے کی تعلیم و تربیت دیں اولاد کے باطن کی اصلاح اور درستی کی جانب توجہ کرنی چاہئے کہ جب یہ یقین دل میں بٹھا دیں گے کہ اللہ سمیع و بصیر، علیم و خبیر ہے، وہ بندے کا ہر عمل ہر وقت دیکھ رہا ہے، کوئی عمل اس سے پوشیدہ نہیں اور ہر چھوٹے بڑے عمل کا قیامت میں حساب دینا ہے، تو باطنی اصلاح بہت آسان ہوجاتی ہے۔

بچوں کی تربیت:

1۔ احترام سکھائیں: دوسروں کا احترام کرنا سکھائیں تاکہ بچے معاشرتی تعلقات میں مہارت حاصل کریں۔

2۔ مسئلے حل کرنے کی صلاحیت بڑھائیں: بچوں کو مختلف مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد کریں تاکہ وہ خود مختار بن سکیں۔

3۔ اخلاقی اقدار سکھائیں: ایمانداری، امانت داری، اور دیگر اخلاقی اقدار کی تعلیم دیں تاکہ بچے صحیح اور غلط میں تمیز کر سکیں۔

4۔ صبر اور تحمل کی تعلیم دیں: بچوں میں صبر اور تحمل کی خصوصیات پیدا کریں تاکہ وہ مشکلات کا سامنا بہتر طریقے سے کر سکیں۔

5۔ روحانی تعلیم دیں: مذہبی تعلیم اور روحانی سرگرمیوں میں بچوں کی شرکت انہیں اندرونی سکون اور اخلاقی بنیاد فراہم کرتی ہے۔

بچوں کے بگڑنے کے مختلف عوامل: 1۔ غلط صحبت۔ 2۔ معاشرتی دباؤ یا برے رویے کا سامنا۔ 3۔ موبائل فون یا انٹرنیٹ کا بے جا استعمال۔ 4۔ بچوں کے اردگرد غیر اخلاقی ماحول۔ 5۔ خاندان میں بگاڑ (طلاق یا علیحدگی)۔ 6۔ بچوں کو مذہبی تعلیم سے دور رکھنا۔ 7۔ بچوں کے سامنے جھوٹ بولنا یا غیر اخلاقی رویے۔ 8۔ والدین کا دین پر عمل نہ کرنا۔ 9۔ حلال و حرام کی تمیز نہ سکھانا۔ 10۔ بچوں کو صبر اور شکر کا درس نہ دینا۔