اولادبگڑنے
کے اسباب از ہمشیرہ محمد جواد،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
اولاد اللہ پاک کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے اس کے
ذریعے ہمارے نام و نسل کی بقا ہے۔ ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ پاک اس کو
نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے جو کہ دنیا میں بھی اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور
آخرت میں بھی اس کی نجات کا ذریعہ۔بلاشبہ بچے ملک وملت کا اصل سرمایہ اور مستقبل
کے معمار ہوتے ہیں۔ سماج اور معاشرے کے بناؤ اوربگاڑ میں ان کا اہم رول ہوتا ہے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں جس کو دیکھیں وہ یہی رونا
روتے نظر آ رہا ہوتا ہے کہ ہمارے بچے بگڑ گئے ہیں۔ بات نہیں مانتے،نافرمان ہیں
گالیاں دیتے ہیں، نماز نہیں پڑتے، موبائل پر وقت ضائع کرتےہیں۔ وغیرہ وغیرہ ماں
باپ کی دن رات تربیت کے سلسلے میں کی جانے والی تگ و دو کے باوجود ایسا نتیجہ کیوں؟
وجہ یہ ہے کہ آج کے بہت سے ماں باپ رسماً اپنی ذمہ داریاں تو خوب نبھا رہے ہوتے
ہیں لیکن حقیقتاً وہ تربیت نہیں کر پا رہے ہوتےبلکہ اولاد بگڑنے میں بہت ہاتھ ماں
باپ کاہو جاتا ہے
آئیےجائزہ لیتے ہیں کہ اولاد کے بگاڑ کی کیا کیا
وجوہات ہیں:
اسلامی تعلیمات سے دوری: اولاد
کے بگاڑ میں سب سے بڑی وجہ پہلی تو ماں باپ اس کے بعد اولاد کی دین کی تعلیمات سے
دوری ہے اسلامی تعلیم وتربیت کے بغیر اولاد دنیا وآخرت میں نہ سرخروئی حاصل کرسکتی
ہے نہ والدین کے لیے آخرت کا سامان ہی بن سکتی ہے۔
برےماحول کا اثر: سائنسی
تحقیقات سے ثابت ہے کہ بچہّ تقریباً پانچ سال کی عمر تک اپنے اطراف و جوانب میں جو
کچھ دیکھتا اور سنتاہے وہ ہمیشہ کے لیے اس کے ذہن وقلب پرنقش ہوجاتا ہے اور ہم
دیکھتے ہیں کہ بچہ چند ماہ کا بھی ہونے نہیں پاتا کہ ٹی وی پر ناچ گانے اور فحش
حرکات بڑے مزے سے دیکھتا ہے اور پانچ سال تک تو نہ جانے اپنے گھر اور ماحول کی
کتنی برائیاں اپنے اندر جذب کرچکاہوتا ہے۔ ظاہر ہے وہ بچہ کیا بن کر نکلے گا؟
بچپن کا ماحول: بچوں کو اگر
بچپن ہی سے غلط ماحول ملے جہاں حرام حلال کی کوئی تمیز نہ ہو، وہ کسی کے حقوق
جانتے ہوں نہ اپنے فرائض سے آگاہ ہوں، جھوٹ بولنا فلمیں بھی دیکھنا اور بچوں کو
بھی دکھانا فیشن وبے پردگی ہو،جن کی زندگیوں کا کوئی مقصد ہی نہ ہو،ایسے ماحول سے
کیوں کر آس لگائی جائے کہ وہاں بچے نیک وصالح اوربا اخلاق و باکردار بن کر پروان
چڑھیں گے۔
ناجائز و حرام کمائی: ناجائز
و حرام زریعہ معاش سے بھی اولاد نافرمان ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے قدم بقدم مسائل
کا سامنا ہوتا ہے حتیٰ کہ زمانۂ حمل وزمانۂ رضاعت میں بھی حرام غذاؤں کی وجہ سے بچوں
کا کردار غیراخلاقی ہو جاتا ہے۔
محبت و شفقت کی کمی: محبت
وشفقت سے محرومی بھی بچوں کو بگاڑ دیتی ہےبچوں سے نفرت وبیزاری،ہمیشہ ڈانٹ پھٹکار،
مار پیٹ، لعن طعن، ان کی جائز مطالبوں کو بھی پورا نہ کرنا، ان کے جذبات و عزت نفس
کو ٹھیس پہنچانا ان کا دل توڑدیتا ہے۔ ان پر مایوسی طاری کردیتا ہے اور پھر وہ
والدین اور گھر سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر بچے خودسر و باغی ہوجاتے ہیں۔
بےجا لاڈ پیار: بچوں کا بجا و
بے جا لاڈ ان کی ہر ضد پوری کرنا اورکبھی کسی غلطی پر بھی ٹوکنے کا نام نہ لینا
اور پھربڑا ہونے پرجانوروں کی طرح مار پیٹ کرنا انہیں درست نہیں کرپاتا بلکہ مزید
باغی بنا دیتی ہے۔
بے جا ڈرانا: بچوں کو بچپن
میں ہی بات بات پر ڈرایا جاتا ہے ایسا نا کرنا ورنہ یہ ہو جائے گا اور مار پڑے گی
یہی بچپن کا ڈر تا عمر ان کے ذہن و دماغ میں بس جاتا ہے اور ان میں بزدلی و پست
ہمتی پیداہوجاتی ہے۔
بے جا آزادی: بچوں کو شروع
ہی سے باربار نصیحتیں کر نے سے پرہیز کی جاتی ہے اور ہر غلط کام کو اس وجہ سے نظر
انداز کر دیا جاتا ہے کہ ابھی بچہ ہے۔ بےجا آزادی سے بچوں میں غیر اخلاقی عادات
پیدا ہوتی ہیں جیسا کہ کسی کی بھی پڑی ہوئی چیز اٹھا کر چھپا لینا بات بات پر ہاتھ
اٹھانا وغیرہ۔
حرام و حلال کی تمیز نہ سکھانا: حلال
وحرام کی تمیز نہ سکھانے کی وجہ سے بھی چوری اورمفت خوری جیسی بری لت لگ جاتی ہے۔
کاہلی اور سستی: کاہلی، سستی
اورنکما پن جیسی بری خصلتوں پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے بھی بچے بگڑ جاتے ہیں۔محنت
و مشقت کرنے اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرنے بڑوں کی خدمت کرنے وغیرہ جیسے کام کرنے کی
عادت نہیں رہتی۔
دوستوں کی صحبت: بچےدوستوں کی
اچھی و دینداری والی صحبت اور محبت نہ ملنے سے بھی محرومی محسوس کرنے لگتے ہیں یا
برے دوستوں کی صحبت اور انکی نشان دہی نہ کرنے کی وجہ سے بچے بگڑ جاتے ہیں۔
خاندانی باہمی مسائل: جوبچے
پچپن میں ماں باپ، دادا، دادی، پھوپھی وغیرہ کے مظالم اور براسلوک دیکھتے ہیں ان
کے ذہنوں میں بھی غم وغصہ اور نفرت اورانتقام کے جذبات انکے ساتھ ساتھ پروان چڑھتے
ہیں جو ان کی تربیت کے ضمن میں سم قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
احساس کمتری: احساس کمتری
خواہ جسمانی ہو یاذہنی یاکسی اور کمزوری یا برائی کی وجہ سے ہو نقصان دہ ہوتی ہے۔
اور یہ اس وقت زیادہ مضر ثابت ہوتی ہے جب اپنوں کے ساتھ دوسرے لوگ بھی ان کامذاق
اڑاتے ہیں یا انہیں حقیر وکمتر سمجھتے ہیں۔ان کی دوسری خوبیوں کی طرف بھی توجہ نہیں
دیتے بلکہ دوسرے لوگوں کے سامنے اپنے بچوں کی برائیاں کرتے ان کی کمزوریوں اور
خامیوں کاتذکرہ کرتے کسی کے بھی سامنے انہیں ڈانٹتے جھڑکتے اور شرمندہ کرتے ہیں جس
کی وجہ سے بچے بہت زیادہ بگڑ جاتے ہیں اور بہت مسائل پیدا کرتے ہیں۔
طنز کرنا: بچوں کے سامنے
اس طرح کی طنز آمیز باتیں کہ وہ کسی کام کے نہیں ناکارہ و نالائق ہیں، ان کے ذہن و
قلب پرمنفی اثر ڈالتی ہیں اور وہ اپشنے آپ کو ناکارہ وذلیل سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کے
ذہنوں میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ وہ اس لائق ہی نہیں کہ کوئی کام کرسکیں یا کچھ
سیکھیں یا اپنے اندر اعلیٰ اوصاف پیدا کرسکیں۔ پھر وہ تا عمر کچھ کر بھی نہیں پاتے
نہ ہی اس کا عزم و حوصلہ بلند ہوتا ہے اگرچہ یہ باتیں بچوں کی اصلاح کی غرض سے ہی
کرتے ہیں، لیکن اس طرح کی باتیں انہیں سدھارنے کی بجائے مزیدناکارہ بنادیتی ہیں۔
ان تمام وجوہات کی بناء پر اولاد بہت بگڑ رہی ہے ان
وجوہات پر قابو پا کر ہم اپنی اولادوں کی بہتر تربیت کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوار
سکتے ہیں۔
اللہ پاک سے دعا ہے اولاد کو ماں باپ کی آنکھوں کی
ٹھنڈک بنائے دنیا و آخرت میں۔ بخشش کا ذریعہ بنائے تعلیم و تربیت میں مدد فرمائے۔ آمین