آج کل ہمارے معاشرے میں جس کو دیکھیں وہ یہی رونا روتے نظر آ رہا ہوتا ہے کہ ہمارے بچے بگڑ گئے ہیں۔ بات نہیں مانتے،گالیاں دیتے ہیں، نماز نہیں پڑتے، موبائل پر وقت ضائع کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ زیادہ تر والدین یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ دوستوں کی وجہ سے بگڑ گیا ہے۔لیکن کسی کا ذہن بھی اس طرف نہیں جاتا کہ شاید ہم سے پرورش کرنے میں کوتاہی نا ہو گئی ہو۔ کیوں کہ اگر آج کل والدین کو اگر دیکھیں تو ایک ہاتھ سے بچے کو فیڈر پلا رہے ہوتے ہیں تو دوسرے میں خود موبائل دیکھتے ہیں، یا اگر بچہ رو رہا ہوتا ہے تو موبائل پر کارٹون یا کچھ میوزک وغیرہ لگا دیتے ہیں۔ یہ مقام غور ہے والدین کے لیے کہ بچے کو موبائل کی عادت کون ڈال رہا ہے بچوں کا دماغ تو کورا کاغذ ہوتا ہیں انکو کیا معلوم کہ موبائل کیا چیز ہے یہ ہم ہی انکو دیتے ہیں کہ ہمیں تنگ نہ کریں اور اسکو دیکھ لیں۔ جب کہ والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو موبائل سے دور رکھیں جب والدین ہی بچپن سے یہ عادت بنائیں گے تو کیسے کہتے ہیں کہ دوستوں نے خراب کیا۔

نیز بچے قول سے کم سیکھتے ہیں جبکہ عمل سے زیادہ سیکھتے ہیں۔ اور وہ وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے والدین کو کرتا دیکھتے ہیں یا اپنے اردگرد موجود لوگوں کو کرتے دیکھتے ہیں۔ لہذا اگر والدین کو چاہئے کہ ہماری اولاد نمازیں پڑھے، نیک بنے تو اس کے لیے ہمیں پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہئے کہ ہم قرآن پڑھیں گے یا نمازیں پڑھیں گے تو ہمارے بچے بھی وہی کریں گے۔ اگر ہم بزرگان دین کو دیکھیں تو ان کے والدین بھی دین پر چلنے والے تھے اس لیے ہی ان ماؤں کی کوکھ سے غوث اعظم رضی اللہ عنہ، اعلیٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ جیسی عظیم ہستیوں نے جنم لیا۔

اگر ہم آج کے والدین کو دیکھیں تو خود گانے سنتی ہوں گی، نمازیں قضا کرتی ہوں گی، رمضان کے روزے چھوڑتیں ہوں گی اور تمنا کریں گی کہ ہمارا بچہ اچھا ہو تو یہ بہت مشکل بات ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایک خرابی جو پائی جاتی ہے کہ جسکی وجہ سے بچے خراب ہو رہیں ہیں وہ یہ ہے کہ بچہ چھوٹا ہوتا ہے تو والدین اسکو کسی بری بات سے خاص منع نہیں کرتے بلکہ ہنس دیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ابھی بچہ چھوٹا ہے بڑا ہو گا تو سمجھ جائے گا، بڑا ہو گا تو سمجھا دیں گے۔

یاد رہے کہ یوں چھوٹے ہوتے جو بری عادات پڑ جائیں انکو چھڑوانا پھر بہت مشکل ہوتا ہے اور تب والدین کہہ دیتے ہیں کہ دوستوں نے خراب کیا۔

نیز بچوں کے خراب ہونے کا ایک سبب انکی بےجا خواہشات پوری کرنا بھی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انکی مانی ہی نہ جائے بلکہ انکی کسی بھی خواہش کو پورا کرنے سے پہلے غور کر لیا جائے اور صرف جائز خواہشات کو ہی پورا کیا جائے۔

نیر والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کی تربیت اسلام کے پیارے اصولوں کے مطابق کریں۔ انہیں اپنے پیارے آقا مدینے والے مصطفٰی ﷺ کی سنتیں سکھائیں تاکہ اولاد والدین کے لیے راحت و ٹھنڈک کا باعث بنے اور اس سے والدین کی اور اولاد کی دنیوی اور اخروی زندگیاں بہتر بنیں۔

اللہ کریم ہمیں اپنے بچوں کی صحیح پرورش و تربیت کرنے کی توفیق دے اور ہمیں بھی اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین