اولاد بگڑنے کے بہت سے اسباب ہیں جن میں چند درج ذیل ہے:

اولاد کی تربیت: والدین اپنی اولاد سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اپنے کردار اور اپنے انداز سے ان سے محبت کا اظہار بھی کرتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ والدین نے کبھی ان کی فکری، نظریاتی اور نفسیاتی حوالہ سے اچھے انداز میں تربیت کی کوشش کی؟ تو جواب ہمیں مایوس کن ملے گا۔ آج کل جو بے چینی اور اضطراب اور غیر مطمئن حالات دیکھنے میں آرہے ہیں ان سب کا بڑا سبب اسی معاشرتی پہلو سے غفلت شعاری ہے معاشرے کی بڑی بڑی خرابیاں اور ناقابل علان برائیاں والدین کے تربیت اولاد میں تساہل کا نتیجہ ہے والدین کی ذرا سی غفلت اور کوتاہی آگے چل کر پوری قوم کے لئے متعدد مسائل کا سبب بن جاتی ہے اگر وہ ابتداء سے ہی اولاد کی صحیح تربیت کرتے اور اور اس فرض کو پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کرتے تو غلط نتائج ہرگز نہ نکلتے۔

بری صحبت اختیار کرنا: اولاد بگڑنے کا ایک بڑا سبب بری صحبت بھی ہے صحبت انسان کا اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہے اسی طرح بری صحبت اس کو اپنے رنگ میں رنگ کر اسے برائی کی طرف لے جاتی ہے۔ ان سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر اولاد بری صحبت اختیار کرے گی تو وہ خود برے کام ہی کرے گی نافرمانیاں ہی کرے گی لیکن اگر وہ اچھی صحبت اختیار کر لے تو وہ اچھی ہی ہوگی۔

علم سے دوری: علم اندھے دلوں کی زندگی اور تاریک آنکھوں کا نور ہے بندہ اس کے سبب دنیا و آخرت میں نیک لوگوں کے مراتب اور بلند درجات تک پہنچتا ہے۔ لہٰذا علم سے دور لوگ بڑے ہی غافل ہیں۔ علم سے اگر اولاد دور ہوگی وہ اچھے برے کاموں میں تمیز نہیں کر پائے گی یہی وجہ ہے کہ اولاد فرمانبردار نہیں ہوتی۔ علم نیک بخت لوگوں کے دلوں میں ڈالا جاتا ہے جبکہ بد بختوں کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے۔ لہذا والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو علم سکھائیں۔

اچھا ماحول نہ ملنا: بعض دفعہ بچوں کو ماحول اچھا نہیں مل رہا ہوتا اور وہ گناہوں بھرے ماحول میں بگڑ جاتے ہیں۔اس لئے انہیں سنتوں بھرا ماحول دینے کی کوشش کرنی چاہیے نیکیوں کی عادت اور گناہوں سے چھٹکارے کے لیے ماحول کی تبدیلی ضروری ہے اگر آپ نیکیوں بھرے ماحول میں رہیں گے تو نیکیاں آپ کی عادت بن جائیں گی اسی طرح گناہ بھرے ماحول میں رہنے سے گناہ بھی عادت کا حصہ بن جائیں گے۔

نفسانی خواہشات اور دنیا کی محبت: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ(۱۴) (پ 3، آل عمران: 14) ترجمہ: لوگوں کے لئے آراستہ کی گئی ان خواہشوں کی محبت عورتیں اور بیٹے اور تلے اوپر سونے چاندی کے ڈھیر اور نشان کئے ہوئے گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی یہ جیتی دنیا کی پونجی ہے اور اللہ ہے جس کے پاس اچھا ٹھکانا۔ اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نفسانی خواہشات اور دنیا کی محبت بے کار ہے۔ آج کل بہت سے بچے اسی بیماری میں مبتلا نظر آرہے ہیں۔ اور نفسانی خواہشات کی وجہ سے گناہوں کے گھڑے میں گرتے نظر آرہے ہیں۔ چنانچہ یہ چیزیں ایسی مرغوب ہوئیں کہ کافر تو بالکل ہی آخرت سے غافل ہو گئے اور کفر میں جاپڑے جبکہ دوسرے لوگ بھی انہیں چیزوں کی محبتوں کے اسیر ہوگئے حالانکہ یہ تو دنیاوی زندگی گزارنے کا سامان ہے۔ (اے ایمان والو، ص 548)