اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت ذوالفقار انور،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی
نعمت اولاد بھی ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی
جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے
اور ا۔س کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے۔ والدین کی خدمت
میں عرض ہے کہ تربیت کیجئے مگر ان کے بگڑنے والے اسباب کوبھی فراموش نہ کیجئے،آئیے
ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے: تم نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت
افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ بادشاہ نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں
پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہل وعیال کا نگران ہے اس سے اس کے اہل وعیال کے بارے
میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولادکی نگران ہے، اس سے ان کے
بارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری، 2/159، حدیث: 2554)
بچوں کے بگاڑ کے چند اسباب اور اصلاح کی تدابیر کے
حوالے سے چند مدنی پھول آپکے پیشں خدمت کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہوں، ملاحظہ ہوں:
1۔ غلط چیزوں کا بے جااستعمال: جیسے
آج کل موبائل فون، ٹیبلٹ پی سی(Tablet P۔C)،ٹی وی اورانٹر نیٹ کا غلط استعمال بھی نئی
نسل کی تباہی اوربگڑنے کا ایک سبب ہیں، اسکی ایک وجہ یہ بھی کہ ابتداءًوالدین خود
ہی یہ چیزیں بچوں کو دلاتے ہیں کہ ہمارے بچے دور جدید کی ان ایجادات سے کیوں بے
خبر رہیں لیکن جب بچے ان چیزوں میں پانی کی طرح پیسہ بہاکر،راتوں کی نیندیں اڑاکر
گناہوں کی گندگی میں ڈبکیاں لگا کر خوب لت پت ہوجاتے ہیں تواس وقت والدین کی آنکھ
کھلتی ہےمگر،اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت، اب اگر والدین اس گندگی سے
نکالنا چاہیں بھی تو بچے ان چیزوں کوچھوڑنے کوتیار نہیں۔ لہٰذااگربچوں کوضرورتاًیہ
جدید چیزیں دینی ہی ہیں توآپ بحیثیت والدین پیار محبّت سے ان چیزوں کے غلط استعمال
کے نقصانات بھی ضرور بتائیے،صحیح استعمال سکھائیے،ضرورت ہوتو سادہ موبائل
دلوائیےاور ان کو دعوت اسلامی کی ویب سائٹ کا وزٹ کروائیے۔
2۔ محبت دینے میں فرق کرنا: بچوں
کے بگاڑ کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ اکثر بچوں سے صرف ان کے والدین اور نہایت
قریبی عزیز ہی محبت کرتے ہیں۔ باقی دیگر رشتے دار و پڑوسی ان سے محبت تو درکنار
انہیں پیار کی ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ان لوگوں کے ایسے رویے بھی
بچوں میں نفرت و کشیدگی پیداکردیتے ہیں۔ کیوں کہ بچے نہایت حساس پھول ہوتے ہیں جو
پیار کی ایک نظر کے بھوکے ہوتے ہیں اور ہر ایک سے محبت مانگتے ہیں، اس لئے ضروری
ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ دوسرے بچوں کو بھی محبت کی نظر سے دیکھیں انہیں بھی
جنت کے پھول سمجھیں۔
4۔ احسانات جتانا: بچوں
کے بگاڑ کا ایک اہم سبب والدین خصوصاً باپوں کا اپنے بچوں کے سامنے باربار اس طرح
کاتذکرہ بلکہ تکرار اور وہ بھی غصہ وجھنجھلاہٹ کے ساتھ کرنا بھی ہے کہ ہم تمہیں
کھلا رہے پلارہے ہیں۔ تمہارے سارے اخراجات پورے کر رہے ہیں۔ اس طرح کا انداز بچوں
کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ بلکہ ان میں بیگانگت پیدا کردیتا ہے۔ ظاہر ہے
والدین ہی بچوں کے ساتھ غیروں وبیگانوں کا سلوک کریں ان پراحسان جتائیں تو پھر بچے
کسے اپنا کہیں یا سمجھیں گے۔ غلط حرکات پر غصہ وتادیب ایک الگ چیز ہوتی ہے اوراس
طرح باربار احسان جتانا ان کی عزت نفس کو مجروح کرنا اور ہی بات ہے۔ پھر بڑاہونے
پر وہ بھی اپنے والدین کے ساتھ اسی طرح یگانگیت کامظاہرہ کرتے ہیں۔ ہاں حکمت کے
ساتھ اورغیرمحسوس طریقے سے ان میں یہ احساس ضرور پیداکریں کہ والدین کی ساری محنت
دوڑ دھوپ، اپنا سکھ چین وآرام قربان کرکے مصیبتیں اٹھانا تکلیفیں جھیلنا صرف انہیں
کی خاطر ہے۔
5۔ احساس کمتری: والدین کا
اپنے بچوں میں ایک کو ترجیح دینا اور دوسرے کے ساتھ بےتوجہی برتنا بھی بچوں کے
بگڑنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ اس سے ایک بچے کے اندر گھٹن، جلن و حسد، نفرت و مایوسی
اور رقابت وبغاوت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور دوسرے میں غرور وبرتری کے۔ سوچنے
کی بات ہے کہ جب والدین ہی اپنے بچوں کو ایک نظر سے نہ دیکھیں اوران کے ساتھ لین
دین اوربرتاؤ میں امتیازی سلوک کرنے لگیں تو پھر کس سے وہ پرخلوص محبت اور انصاف
کی امید کریں؟
رسول اکرم ﷺ نے بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے
والوں کو سخت تنبیہ کی ہے۔ نیز لڑکیوں کو کمتردیکھنا، ان کے ساتھ غلط سلوک کرنا
اورلڑکوں کو اہمیت دینا اور بے پناہ چاہنا اس سے بھی خدا اور رسولﷺ نے سختی کے
ساتھ منع فرمایا ہے۔
6۔ محبت وشفقت میں کمی: محبت
وشفقت سے محرومی بھی بچوں کو بگاڑ دیتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بچو ں کے ساتھ نہایت
پیار و محبت و نرمی سے پیش آئیں۔ ان کے آرام وآسائش کا خیال رکھیں۔ یہ بات نہایت
قابل غور اور یاد رکھنے کے لائق ہے جو حدیث سے بھی اور سائنسی تحقیقات سے بھی ثابت
ہے کہ بچہّ تقریباً پانچ سال کی عمر تک اپنے اطراف و جوانب جو کچھ دیکھتا اور
سنتاہے وہ ہمیشہ کے لیے اس کے ذہن وقلب پرنقش ہوجاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ
چند ماہ کا بھی ہونے نہیں پاتا کہ ٹی وی پر ناچ گانے اور فحش حرکات بڑے مزے سے
دیکھتا ہے اور پانچ سال تک تو نہ جانے اپنے گھر اور ماحول کی کتنی برائیاں اپنے
اندر جذب کرچکاہوتا ہے۔ ظاہر ہے وہ بچہ کیا بن کر نکلے گا؟
7۔ بچپن کا ماحول:بچوں کو اگر
بچپن ہی سے غلط ماحول ملے جہاں حرام حلال کی کوئی تمیز نہ ہو، وہ کسی کے حقوق
جانتے ہوں نہ اپنے فرائض سے آگاہ ہوں، باترجمہ وتشریح قرآن و حدیث کا مطالعہ اور
دینی احکام جاننے ان پر عمل کی کوششوں اور دینی وتعمیری کاموں میں حصہ لینے کے
بجائے رومانی و فحش ناولوں و لٹریچر کا جن کے گھروں میں چرچا ہو، دنیاوی رنگینیوں
میں اتنے مست ہوں کہ ذرہ برابر خوف خدا ان کے دلوں میں نہ ہوایسے ماحول سے کیوں کر
آس لگائی جائے کہ وہاں بچے نیک وصالح اوربا اخلاق و باکردار بن کر پروان چڑھیں گے۔
بچوں کی تربیت کے لیے تو نہ صرف والدین کا باعمل بننا، تمام برائیوں سے پرہیز
کرنا، نمازوں اور دیگرعبادات کی پابندی کے ساتھ ساتھ شریعت کی پوری پوری پابندی
کرنالازمی ہے، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے گھر کے پورے ماحول کو بھی دینی و پاکیزہ
بنانے کی کوشش کریں۔ ورنہ بچوں کو تونصیحتیں کی جارہی ہیں اور گھر کے لوگوں کے عمل
ان کے خلاف ہوں اور پھر آس لگائی جارہی ہے کہ بچے نہ بگڑیں۔ تو یہ درست نہیں آئیے
تربیت اولاد پر ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے۔
رسول کریم ﷺنے ارشاد فرمایا: کسی باپ کی طرف سے اس
کی اولاد کے لیے سب سے بہتر تحفہ یہ ہے کہ وہ اس کی اچھی تربیت کرے۔ (ترمذی،
3/383، حدیث: 1959) لہذا والدین اپنی اولاد کی بچپن سے ہی تربیت اسطرح کریں کہ خود
اچھے اور غلط کے درمیان فرق کرنا خود سیکھ جائیں تاکہ انکی تربیت میں بگاڑکے اسباب
جنم ہی نہ لے سکیں۔