آج کل ہمیں ایسے بہت سے واقعات سننے کو ملتے ہیں کہ فلاں بیٹے/بیٹی نے والدین سے اونچی آواز میں بات کی،بد تمیزی کی،بیوی کے کہنے پر ماں باپ کو کھانا نہیں دیا،ماں باپ کو old age house چھوڑ دیا اور طرح طرح کی نافرمانیاں کرتے ہیں یہ جاہلوں کی بات نہیں کر رہے یہ اج کل کے تعلیم یافتہ ڈگری والوں کی بات کر رہے ہیں جو معاشرے کے لئے تو ایک بہت اچھے انسان،اچھے شہری ہوتے ہیں مگر اچھے نہیں ہوتے تو اپنے والدین کے لئے اپنے گھر والوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک روا رکھتے ہیں مگر ان کی ان نافرمانیوں کا تعلق کہیں نہ کہیں والدین سے ہی ملتا ہے والدین اپنی عمر گزار دیتے ہیں اولاد کی خوشیاں پوری کرنے میں،اولاد کی خواہشات پوری کرنے میں،اولاد کی ہر چیز کا خیال رکھتے ہیں مگر نہیں رکھتے تو ان کی اچھی تربیت کااولاد کا والدین پر سب سے بڑا حق ان کی اچھی تربیت ہے حدیث پاک میں ہے: کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھائے۔ (ترمذی، 3/383، حدیث: 1959)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولاد کے لئے بہترین عطیہ اچھی تربیت ہے جس سے آج کل کے والدین غافل ہیں۔

تربیت کے لیے والدین اولاد کو سکولوں میں بھیج دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حق ادا کر دیا مگر ایسا نہیں ہے بڑے بزرگوں کا قول ہے کہ اولاد کا پہلا استاد اس کے والدین ہیں یعنی جو والدین کرتے ہیں وہی اولاد کرتی ہیں جو والدین کا لہجہ وہی اولاد کا لہجہ،جو والدین کا رویہ وہی اولاد کا رویہ،جو والدین کی سوچ وہی اولاد کی سوچ بن جاتی ہیں جدید تحقیق کے مطابق ابتدائی پیدائش سے 7سال کی عمر تک بچہ جو بھی کرتاہے بڑوں کی طرف دیکھ کر والدین کی طرف دیکھ کر کرتاہے جب والدین جھوٹ بولیں گے تو بچہ بھی جھوٹ بولنا شروع کر دے گا جب والدین بڑوں کا احترام کرنا چھوڑ دیں گے تو کل کو بچے بھی ان کا احترام نہیں کریں گے الحاصل بچہ جو بھی کرتا ہے والدین سے سیکھ کر کرتا ہے جیسے محبت، نرمی، احترام، خوش اخلاقی اور اس کے برعکس جھوٹ، بد تمیزی، لڑائی، جھگڑا، فریب سب والدین سے ہی سیکھتا ہے۔

ایک وجہ اولاد پر بے جا سختی بھی ہے اکثر والدین اور زیادہ تر والد صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کی اچھی تربیت کے لیے سختی کرنا ضروری ہے مگر ایسا بالکل نہیں ہے اچھی تربیت کے لیے سختی کرنا ضروری نہیں بلکہ نرمی کرنا ضروری ہے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کی سیرت میں تو ایسے بہت سے واقعات سننے کو ملتے ہیں جن سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اولاد کے ساتھ نرمی اختیار کر نی چاہیے۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں دس سال حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں رہا مگر ان دس برس میں کبھی حضور اکرم ﷺ نے مجھے نہیں ڈانٹااس کے علاوہ حضرت انس واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے مجھے کسی کام سے بھیجا، میں بچوں کے ساتھ کھیل کود میں لگ گیا اس کے باوجود بھی حضور اکرم ﷺ نے مجھے نہیں ڈانٹا۔

جو والدین اپنے بچوں پر بے جا سختی،روک ٹوک کر تے ہیں انہیں اس واقعے سے سبق حاصل کرنا چاہیے، جیسا کہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم ﷺ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے کہ آپ کا ہاتھ پلیٹ میں کبھی ادھر پڑتا، کبھی ادھر حضور اکرم ﷺ نے اس انداز سمجھایا کہ انہیں محسوس ہی نہیں ہوا کہ غلطی پہ ٹوکا جا رہا ہے کہ آداب سکھائے جا رہے ہیں، چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: اے بچے! جب کھانا کھاؤ تو اللہ کا نام لو، اپنے داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔ (بخاری، 3/521، حدیث: 5376)

والدین کو چاہیے کہ حضور اکرم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں قرآن وسنت کی روشنی میں اولاد کی تربیت کریں اگر والدین سختی کرے گے ہر چیز پر ٹوکیں گے تو اولاد بدظن ہو جائے گی یہ صرف چند سبب ہیں والدین سے متعلق اور بھی بہت سی وجوہات،اسباب ہو سکتے ہیں جیسے انٹرنیٹ کا بے جا استعمال،بری صحبت،دین سے دوری اور مغربی ماحول سے وابستگی بھی اولاد کی نافرمانی کی وجہ ہو سکتی ہے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے والدین کا فرمانبردار اور سچا عاشق رسول بنائے۔