اولاد بگڑنے کے بہت سے اسباب ہیں جیسے والدین کا اولاد پر توجہ نہ دینا والدین کا اولاد کی activties پر دھیان نہ دینا۔سوشل میڈیا کا بے جا استعمال۔بچوں کو بری صحبت سے نہ بچانا بچوں کے ماحول کا خیال نہ رکھنا اور اولاد پر بس اپنی مرضی کو ہی مسلط کرنا جس کی وجہ سے اولاد بدتمیزی کرنے لگتے ہیں۔ اور اگے سے جواب دینے لگتی ہے۔

اولاد کے بھی بگڑنے کا ذمہ دار کون؟ عموما دیکھا گیا ہے یہ بگڑی ہوئی اولاد کے والدین اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر کے خود کو بری الزمہ سمجھتے ہیں۔ مگر یاد رکھیے اولاد کی تربیت صرف ماں یا محض باپ کی نہیں بلکہ دونوں کی ذمہ داری ہے اللہ ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔

جب نبی کریم ﷺ نے یہ آیت مبارکہ صحابہ کرام کے سامنے تلاوت کی تو وہ یوں عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! ہم اپنے اہل و عیال کو آگ سے کیسے بچائیں؟ فرمایا: ان چیزوں کا حکم دو جو اللہ کو محبوب ہیں اور ان کاموں سے روکو جو اللہ کو ناپسند ہیں۔

اور حضور پاک ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا بادشاہ نگران ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا ادمی اپنے اہل و عیال کا نگران ہے اس سے اس کے اہل و عیال کے بارے میں پوچھا جائے گا عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولاد کی نگران ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔(بخاری،2/159، حدیث: 2554)

تربیت اولاد کی اہمیت: اگر ہم اسلامی اقدار کے حامل ماحول کے خواہش مند ہیں تو ہمیں اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی مدنی تربیت بھی کرنی ہوگی کیونکہ اگر ہم تربیت اولاد کی اہم ذمہ داروں کو بوجھ تصور کر کے اس سے غفلت بڑھتے اور بچوں کو ان خطرناک حالات میں آزاد چھوڑ دیں تو نفس و شیطان انہیں اپنا آلہ کار بنا لے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نفسانی خواہشات کی آندھیاں انہیں صحرائے عصیاں میں سرگرداں رکھیں گی۔اور وہ عمر عزیز کے چار دن آخرت بنانے کی بجائے دنیا جمع کرنے میں صرف کر دیں گے اور یوں گناہوں کا انبار لیے وادی نبوت کے کنارے پہنچ جائیں گے رحمت الٰہی شامل ہوئی تو مرنے سے پہلے توبہ کی توفیق مل جائے گی ورنہ دنیا سے کف افسوس ملتے ہوئے نکلیں گے اور قبر کے گڑھے میں جا سوئیں گے۔سوچیے تو سہی کہ جب بچوں کی مدنی تربیت نہیں ہوگی تو وہ معاشرے کا بگاڑ دور کرنے کے لیے کیا کردار ادا کر سکیں گے جو خود ڈوب رہا ہو وہ دوسروں کو کیا بچائے گا جو خود خواب غفلت میں ہو وہ دوسروں کو کیا بیدار کرے گا جو خود پستیوں کی طرف محو سفر ہو وہ کسی کو بلندی کا راستہ کیوں کر دکھائے گا۔

سونا جنگل رات اندھیری،چھائی بدلی کالی ہے

سونے والو جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے

بچوں کی تربیت کب شروع کی جائے؟ والدین کی ایک تعداد ہے جو اس انتظار میں رہتی ہے کہ ابھی تو بچہ چھوٹا ہے جو چاہے کرے تھوڑا بڑا ہو جائے تو اس کی اخلاقی تربیت شروع کریں گے۔ایسے والدین کو چاہیے کہ بچپن ہی سے اولاد کی تربیت پر بھرپور توجہ دیں کیونکہ اس کی زندگی کے ابتدائی سال بقیہ زندگی کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ پائیدار عمارت مضبوط بنیاد پر ہی تعمیر کی جا سکتی ہیں جو کچھ بچہ اپنے بچپن میں سیکھتا ہے وہ ساری زندگی اس کے ذہن میں راسخ رہتا ہے کیونکہ بچے کا دماغ مثل موم ہوتا ہے اسے جس سانچے میں ڈالنا چاہیں ڈالا جا سکتا ہے بچے کی یادداشت ایک خالی تختی کی مانند ہوتی ہے اس پر جو لکھا جائے گا ساڑھے عمر کے لیے محفوظ ہو جائے گا بچے کا ذہن خالی کھیت کی مثل ہے اس میں جیسا بیج بوئیں گے اس معیار کی فصل حاصل ہوگی یہی وجہ ہے کہ اگر اسے بچپن ہی سے اسلام کرنے میں پہل کرنے کی عادت ڈالی جائے تو وہ ساری عمر جھوٹ سے بیزار رہتا ہے اگر اسے سنت کے مطابق کھانے پینے بیٹھنے جوتا پہننے لباس پہننے سر پر عمامہ باندھنے اور بالوں میں کنگھی وغیرہ کرنے کا عادی بنایا جائے تو وہ نہ صرف خود ان پاکیزہ عادات کو اپنائے رکھتا ہے بلکہ اس کے یہ مدنی اوصاف اس کی صحت میں رہنے والے دیگر بچوں میں بھی منتقل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

ماں باپ کو چاہیے کہ ایک سے زائد بچے ہونے کی صورت میں انہیں کوئی چیز دینے اور پیار محبت اور شفقت میں برابری کا اصول اپنائیں بلا وجہ شرعی کسی بچے بالخصوص بیٹی کو نظر انداز کر کے دوسرے کو اس پر ترجیح نہ دیں اس سے بچوں کے نازک قلب میں بغض و حسد کی تہہ جم سکتی ہے۔جو ان کی شخصی تعمیر کے لیے نہایت نقصان دہ ہے میں نے کبھی کسی لڑکی سے آپ ﷺ نے ہمیں اولاد میں سے ہر ایک کے ساتھ مساوی سلوک کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔چنانچہ حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے اپنا کچھ مال دیا تو میری والدہ عمرو بنت رواحہ نے کہا کہ میں اس وقت تک راضی نہ ہوں گی جب تک کہ آپ اس پر حضور ﷺکو گواہ نہ کر لے چنانچہ میرے والد مجھے آپ ﷺ کی بارگاہ میں لے گئے تاکہ حضور ﷺ کو مجھے دیئے گئے صدقے پر گواہ کر لیں آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نے اپنے تمام بیٹوں کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے؟ میرے والد محترم نے عرض کی: نہیں آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو یہ سن کر وہ واپس بہت آئے اور وہ صدقہ واپس لے لیا۔ (مسلم، ص 878، حدیث: 1623)