اللہ پاک نے اس دنیا کو بنایا اور حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعے نسل انسانی کو بڑھایا۔ پہلے میاں بیوی ہوتے ہیں پھر اللہ پاک انہیں اولاد کی نعمت سے نوازتا ہے تو پھر یہی ماں باپ بن جاتے ہیں۔ اولاد کی تربیت اکثر ماں باپ کرتے ہیں وہ اولاد بگڑنے اور سنورنے کا بہت بڑا سبب ہوتے ہیں۔ آج کل دیکھا جاتا ہے اکثر مسلمان اپنی اولاد کو صرف و صرف دنیاوی تعلیم دلواتے ہیں اور اس کے لئے خوب کوشش کرتے ہیں اور انہیں مہنگے مہنگے اسکولوں میں پڑھاتے ہیں۔ اس کے برعکس ان کا اپنی اولاد کی دینی تعلیم و تربیت کے معاملے میں غفلت کا عالم ہوتا ہے کہ اکثریت کو دیکھ کر بھی قرآن کریم درست پڑھنا نہیں آتا۔

نیک اولاد اللہ کا عظیم انعام ہے۔ یہی وہ نیک اولاد ہوتی ہے جو دنیا میں والدین کے لئے راحت جان اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان بنتی ہے۔ یہی وہ اولاد ہوتی ہے جو والدین کے گزرنے کے بعد ان کی بخشش کا سامان بنتی ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین کاموں کے کہ ان کا سلسلہ جاری رہتا ہے: (1) صدقہ جاریہ (2) وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ (3) نیک اولاد جو اس کے حق میں دعائے خیر کرے۔ (مسلم، ص 886، حدیث:1631)

ایک اور مقام پر حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جنت میں آدمی کا درجہ بڑھا دیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے حق میں یہ کس طرح ہوا؟ تو جواب ملتا ہے اس لیے کہ تمہارا بیٹا تمہارے لیے مغفرت طلب کرتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/185، حدیث: 3660)

اولاد بگڑنے کے اسباب:

بچپن میں بچہ جو کچھ سیکھتا ہے وہی ساری عمر کرتا ہے، بچپن کی عادتیں بھی بہت مشکل سے چھوٹتی ہیں۔ اس لئے بچے گھر کی چھوٹی موٹی چیزیں چرا کر کھا جاتے ہیں یا کسی کے گھر سے چرا لاتے ہیں اگر انہیں مناسب وقت پر والدین تنبیہ نہ کریں تو اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں پھر اولاد ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ صحبت اثر رکھتی ہے اگر اپنے بچوں پر نظر نہ رکھی جائے کہ وہ کیسے لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں تو بری صحبت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے بھی اولاد بگڑ جاتی ہے۔

ماں باپ کی جب ایک سے زائد اولادیں ہوتی ہیں تو اگر انہیں کوئی چیز دینے اور پیار و محبت اور شفقت کرنے میں برابری نہ کی جائی (ایسا بالخصوص بیٹی کے ساتھ کیا جاتا ہے) تو اولاد اس طرح ماں باپ سے دور ہو جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیں اولاد میں سے ہر ایک کے ساتھ برابری کا سلوک کرنے کی تاکیدفرمائی ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: بے شک اللہ پاک پسند کرتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان برابری کا سلوک کرو حتی کہ بوسہ لینے میں بھی (برابری کرو)۔ (کنز العمال، 16/185، حدیث: 45342)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص تاجدار رسالت ﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں اس کا بچہ آگیا۔ اس شخص نے اپنے بیٹے کو بوسہ دیا اور پھر اپنی ران پر بٹھا لیا۔ اسی دوران اس کی بچی بھی آگئی جسے اس نے اپنے سامنے بٹھا لیا (یعنی نہ اس کا بوسہ لیا اور نہ گود میں بٹھایا) تو سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا: تم نے ان دونوں کے درمیان برابری کیوں نہ کی؟ (تربیت اولاد، ص 169)

اگر والدین کا مقصد حیات، حصول دولت، آرام طلبی، وقت گزاری اور عیش کرنا بن جائے تو وہ اپنی اولاد کی کیا تربیت کریں گے اور جب ایسی تربیت اولاد کے اثرات سامنے آتے ہیں تو یہی والدین اپنی اولاد بگڑنے کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں۔

ایسے والدین کو غور کرنا چاہیے کہ اولاد کو اس حال تک پہنچانے میں ان کا کتنا ہاتھ ہے۔ عموماً ایسا بھی دیکھا جاتا ہے کہ بگڑی ہوئی اولاد کے والدین اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر کے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ تربیت صرف ماں یا محض باپ کی نہیں بلکہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ والدین کو نیک تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین