فی زمانہ یہ ایک پریشان کن مسئلہ بن گیا ہے کہ آج کل کے بچے سدھار کی طرف کم بلکہ بگاڑ کی طرف زیادہ مائل ہے۔یہ بچپن یا لڑکپن کے زمانے کا بگاڑ سن بلوغ تک پہنچنے کے بعد چنگاری سے شعلہ بن جاتا ہے اس سلسلے میں بچوں کےبگاڑ کے اسباب بہت زیادہ پیدا ہورہے ہیں۔

سب سے بڑا بگاڑ: والدین کا اپنے بچوں میں ایک کوترجیح دینا اور دوسرے کے ساتھ بےتوجہی برتنا بھی بچوں کے بگڑنے کا ایک بڑا سسب ہے۔ اس سے ایک بچے کے اندر گھٹن،جلن،حسد،نفرت،مایوسی اور رقابت وبغاوت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور دوسرے میں غرور وتکبر برتری وغیرہ کےاسباب پیدا ہو جاتے ہیں۔

یہ بات نہایت قابل غور اور یاد رکھنے کے لائق ہے۔ جو احادیث سے بھی اور سائنسی تحقیقات سے بھی ثابت ہے کہ بچہ تقریباً پانچ سال کی عمر تک اپنے اطراف و جوانب جو کچھ دیکھتا اور سنتا ہے وہ ہمیشہ کے لیے اس کے ذہن و قلب پر نقش ہو جاتا ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ چند ماہ کا بھی نہیں ہوپاتا کہ ٹی وی پر ناچ گانے اور فحش حرکات بڑے مزے سے دیکھتا ہے اور پانچ سال تک تو نہ جانے اپنے گھر اور ماحول کی کتنی برائیاں اپنے اندر جذب کر چکا ہوتا ہے۔

سوچے وہ بچہ کیا بن کر نکلے گا؟ بچوں کو اگر بچپن ہی میں غلط ماحول ملے جہاں حرام و حلال کی کوئی تمیز نہ ہو اور نہ ہی وہ کسی کے حقوق جانتے ہونگے۔اور نہ ہی فرائص سے آگاہ ہونگے۔ گھر والوں کے آپس کے اختلاف، جھگڑے، ہر ایک کو اپنے مفاد کی فکر، دوسروں کو ذلیل کرنا، جھوٹ بولنا، فحش فلمیں خود بھی دیکھنا اور بچوں کو دکھانا۔فیشن و بےپردگی جن کو محبوب و مرغوب ہو، باترجمہ و تشریح قرآن و حدیث کا مطالعہ اور دینی احکام جاننے اور ان پر عمل کی کوششوں اور دینی و تعمیری کاموں میں حصہ لینے کی بجائے رومانی و فحش ناولوں کا جن کے گھروں میں چرچا ہو، دنیاوی رنگینیوں میں مست ہوں کہ ذرہ برابر بھی خوف خدا ان کے دلوں میں نہ ہو اور نہ عذاب آخرت سے بچنے کے لیے کوئی فکر ہو اور جن کی زندگیوں کا کوئی مقصد ہی نہ ہو۔ ایسے ماحول سے کیوں کر آس لگائی جائے کہ وہاں کے بچے نیک صالح اور با اخلاق وبا کردار بن کر پروان چڑھیں گے۔ اور پھر آس لگائی جارہی ہے کہ بچے نہ بگڑیں۔

محبت وشفقت سے محرومی بھی بچوں کو بگاڑ دیتی ہے والدین خصوصاً والد کو اس بات کا بھی بہت خیال رکھنا چاہیے کہ بچوں کی پرورش حرام کمائی سے نہ کرے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جو گوشت(جسم)حرام سے پرورش یافتہ ہے اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ (معجم اوسط، 5/34، حدیث: 6495)

ظاہر ہے جہنم میں جانے والا جسم کیسے نیک اور صالح بن سکتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب والدین ہی اپنے بچوں کو ایک نظر سے نہ دیکھیں گے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کریں گے تو ان کے دلوں میں نفرت ہی پیدا ہوگی اور جب بچوں کے دلوں میں نفرت پیدا ہوگی تو کیسے نہیں بچے بگڑیں گے۔

بچوں کے سامنے طنز آمیز باتیں کرنا کہ یہ تو ناکارہ ونالائق ہے۔ اسکو تو کچھ کرنا ہی نہیں آتا وغیرہ وغیرہ۔ بچوں کو زیادہ مارنا جس کی وجہ سے بچے ڈھیٹ ہو جاتے ہیں۔ ان پر کوئی بات اثر نہیں کرتی۔ اور پھر موبائل فون کا استعمال جس کی وجہ سے بچے زیادہ بگڑ رہے ہیں۔

وہ لاپرواہ والدین جو اپنی اولاد کی تربیت پر آج کل اپنے وقت کو صرف نہیں کر رہے ان کی اولاد بھی کل ان کو کوئی اہمیت نہیں دے گی اور ان کے بڑھاپے کے وقت ان کی اولاد ان کو وقت نہ دے گی۔

بے تربیت اولاد کے نقصان کی طرف سورہ زمر کی آیت نمبر 15 میں کہا گیا: قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ اَهْلِیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ(۱۵) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ پوری ہار انہیں جو اپنی جان اور اپنے گھر والے قیامت کے دن ہار بیٹھے ہاں ہاں یہی کُھلی ہار ہے۔

روایات میں ہے کہ خدا ایسے ماں باپ پر لعنت کرے جو بچے کے عاق ہونے کا سبب بنیں۔

اللہ تعالیٰ ہر ایک کی اولاد کو نیک و صالح اور فرمانبردار بنائے۔ آمین