1) اولاد بگڑنے کے بہت سے اسباب ہیں ان میں سے ایک اہم سبب تربیت کا نہ ہونا ہے۔ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔اس آیت سے معلوم ہواکہ جہاں مسلمان پر اپنی اصلاح کرنا ضروری ہے وہیں اہل خانہ کی اسلامی تعلیم و تربیت کرنابھی اس پر لازم ہے،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور گھر میں جو افراد اس کے ماتحت ہیں ان سب کو اسلامی احکامات کی تعلیم دے یادلوائے یونہیں اسلامی تعلیمات کے سائے میں ان کی تربیت کرے تاکہ یہ بھی جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں۔

آج کل کچھ والدین اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہو چکے ہیں کہ اپنے اولاد کی تربیت کے لیے ٹائم نہیں نکالتے اپنی اولاد کو ٹائم نہیں دیتے جس کی وجہ سے اولاد بگڑ جاتی ہے۔

اس کا حل: لہذا والدین کو چاہیے کہ اپنے اولاد کی صحیح اسلامی تربیت کے لیے وقت نکالیں بچوں کو توجہ دیں۔

2) اسی طرح دوسرا اور اہم سبب موبائل ہے موبائل کے ذریعے بچوں میں بگڑنے کا جو ریشو ہے وہ بہت زیادہ ہے والدین اس بات کا رونا تو روتے ہیں کہ ہمارے بچے بگڑ گئے یہ کیا ہو گیا؟ ہمارے ہاتھ سے نکل گئے! اگر یہ والدین ذرا سوچیں! کہ بچے کو موبائل لا کر کس نے دیا تھا؟وہ واقعات یاد کریں کہ بچپن میں جب بچہ روتا تھا تو چپ کروانے کی خاطر بچے کو موبائل ہاتھ میں کس نے پکڑایا تھا؟ بچہ جب تنگ کرتا تو بجائے اس کی پریشانی سمجھنے کے چھٹکارے کے لیے اسے موبائل کس نے دیا تھا؟ بچے کو کھانا کھلانے کے لیے موبائل اس کے ہاتھوں کس نے لا کر دیا تھا؟ پھر بچہ جب اس موبائل کا عادی ہو جائے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی عادت مزید پختہ ہوجائے اولاد اس کا استعمال کر کر کے بگڑ جائے پھر پچھتاوے کے سوا ماں باپ کے ہاتھ کچھ نہیں رہتا اب والدین سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں کر سکتے کہ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت!

اس کا حل: لہذا والدین کو چاہیے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں آج تھوڑی سی اپنی آسانی کے لیے کہیں ایسا نہ ہو کہ آگے کی پوری زندگی آپ بچے کی برباد کرنے میں حصہ دار بن جائیں۔

3)اولاد بگڑنے کا تیسرا سبب ٹی وی ہے۔یہاں میری مراد ٹی وی پر آنے والے وہ کارٹون ہیں جن میں کبھی تو اسلام کے خلاف چیزیں دکھائی جا رہی ہوتی ہیں،کبھی لڑائی کے نام پر بچوں کی ذہنیت کو برباد کیا جا رہا ہوتا ہے، کبھی بے حیائی اور بے شرمی کو فروغ دیا جا رہا ہوتا ہے، جس میں بجائے آداب کے بدتمیزی کا رول پلے کیا جا رہا ہوتا ہے۔ والدین ذرا سوچیں کہ بچے ایسے کارٹون دیکھ کر بگڑیں گے نہیں تو پھر اور کیا ہوگا؟

اس کا حل: والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو کڈز مدنی چینل دکھائیں غلام رسول کنیز فاطمہ جیسے اسلامک کارٹون دکھائیں جس کے ذریعے ان کے بچوں کی اسلامی تربیت ہو سکے اور آگے ان کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے۔

4) اولاد بگڑنے کا ایک سبب ان کی ہر ضد کو پورا کرنا ہے۔ بعض ماں باپ اپنی اولاد کی محبت میں ان کی ہر ضدوں کو پورا کر رہے ہوتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ ان کی اولاد کے لیے کتنا نقصان دہ ہے۔ آج سے اگر ان کی ضدوں کو کنٹرول نہیں کیا تو بڑے ہو کر یہ ضدیں بے لگام ہو جائیں گی اور پھر اس وقت ماں باپ اپنی اولاد کی ضدوں کو نہ مانیں تو اولاد پھر بڑے بڑے قدم اٹھا لیتی ہیں پھر اس کے بعد یہی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ پسند کی شادی نہ ہو سکنے پر نوجوان نے خود کشی کرلی وغیرہ۔

اس کا حل: لہذا والدین کو چاہیے کہ اپنے اولاد کی بہتری کے لیے بجائے ان کی ہر ضد کو پورا کرنے کے حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے ہر قدم اٹھاتے ہوئے پہلے یہ سوچ لیں کہ آیا یہ آگے جا کر بچے کو فائدہ دے گا یا نقصان؟

5)اولاد بگڑنے کا ایک سبب سوشل میڈیا کا استعمال۔ والدین اگر بچپن میں اولاد کو سوشل میڈیا کے استعمال کی کھلی اجازت دے دیں اس پر گرفت نہ کریں تو بڑے ہو کر وہ بچہ پھر سوشل میڈیا کا ہر طرح کا استعمال کرتا ہے خواہ وہ برا استعمال ہو یا اچھا پھر ماں باپ سر پکڑ کر رو رہے ہوتے ہیں کہ یہ کیا ہو گیا؟ پھر اسی سوشل میڈیا کے ذریعے آپس میں لڑکوں لڑکیوں کے ناجائز تعلقات ہوتے ہیں پھر آگے جا کر حالات بگڑ جاتے ہیں ہر انجام یہ ہوتا ہے کہ لڑکیاں اپنے گھروں سے بھاگ جاتی ہیں اور والدین کے پاس پچھتاوے کی کچھ باقی نہیں رہتا۔

اس کا حل: والدین کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان بچوں کو سوشل میڈیا سے دور رکھیں اس معاملے میں کڑی نظر رکھیں۔

6) اولاد بگڑنےکی ایک اہم وجہ تعلیم کے لیے غلط اداروں کا انتخاب۔ اگر آپ نے اپنے بچے کی تعلیم کے لیے ایسے ادارے کا انتخاب کیا ہو جہاں اسلامی تعلیمات کا دور دور تک پتا نہ ہو، وہ تعلیم گاہ مخلوط ہو جہاں لڑکے اور لڑکیاں ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہوں، ٹیچریں جینز پہنتی ہوں، جہاں آئے دن میوزیکل فنکشن ہوتے ہیں۔تو بچہ بگڑے گا نہیں تو اور کیا ہوگا؟ ماں باپ سوچیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ ان کا ادب کرے، نیک بنے، اس کے باوجود والدین ایسی جگہ انہیں تعلیم کے لیے چھوڑ دیں جہاں بچہ سنورنے کی بجائے بگڑ جائے؟

اس کا حل: والدین کو چاہیے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے اچھے اداروں کا انتخاب کریں الحمدللہ دعوت اسلامی کے تحت انٹر نیشنل اسلامک اسکولنگ سسٹم دارالمدینہ بھی ہے جہاں پر بچوں کو دنیوی تعلیم دی اسلام و شریعت کے مطابق دی جاتی ہے،ساتھ ساتھ ان کی اخلاق و آداب، دینی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

اسکے علاوہ اولاد بگڑنے کے اور بھی اسباب ہیں۔ لیکن اہم بات کی طرف توجہ دلاتی چلوں کہ ان بیان کردہ اسباب کے ساتھ ان کا حل تو بیان کردیا گیا لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ عمل کے لیے سراپا ترغیب بننا پڑتا ہے۔ اگر والدین خود گھنٹوں موبائل میں لگے رہیں سوشل میڈیا کا استعمال کرتے رہیں اور بچے کو منع کریں کہ بیٹا موبائل استعمال نہیں کرتے اس سے نقصان ہوگا تو بچہ کیسے بات مانے گا؟

لہذا والدین بھی اپنا کردار ایسا رکھیں۔بچے جیسا اپنے ماں باپ کو دیکھتے ہیں ویسا ہی کرتے ہیں۔ اگر بچہ اپنی ماں کو نماز پڑھتے دیکھے گا تو بچہ بھی نقل کرتے ہوئے نماز پڑھے گا لیکن یہی بچہ اگر اپنی ماں کو ناچتے گاتے ہوئے دیکھے گا تو بچے کو بھی ناچنے اور گانے کی عادت ہی پڑے گی۔

اللہ پاک والدین کو اپنی اولاد کی صحیح معنوں میں تربیت کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔