اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت طفیل الرحمان ہاشمی، جامعۃ المدینۃ نارتھ کراچی
اولاد اللہ تبارک کی ایک عظیم نعمت ہے اولاد ہی کے
ذریعے نام و نسل کی بقاء ہے۔ ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ پاک اس کو نیک و
صالح اولاد عطا فرمائے جو دنیا میں
بھی اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون بنے اور آخرت میں بھی نجات کا ذریعہ یونہیں
دوسری جانب دیکھا جاتا ہے کہ بگڑی ہوئی اولاد والدین کیلئے دنیا و آخرت میں سخت
آزمائش بن جاتی ہے۔ موجودہ دور کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں افسوس ! آج کل کے
دور میں اکثر والدین اس بات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کی اولاد بگڑ گئی ہے
بات نہیں مانتی، بدتمیز ہے، بری عادات کا شکار ہو گئی ہے، وغیرہ وغیرہ مگر یہ نہیں
سوچتے کہ اس کے اسباب کیا ہیں؟ کسی بھی چیز کی روک تھام کیلئے اس کے اسباب پر غور
و فکر کرنا بے حد ضروری ہے یہاں اولاد بگڑنے کے چند ضروری اسباب پیش نظر ہیں:
1۔ تربیت والدین: اولاد کو نیک
یا بد بنانے میں والدین کی تربیت کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے عموماً دیکھا گیا ہے کہ
بگڑی ہوئی اولاد کے والدین اس کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کر کے خود کو بری
الذمہ سمجھتے ہیں مگر یاد رہے کہ تربیت صرف ماں یا محض باپ کی نہیں بلکہ دونوں کی
ذمہ داری ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا
النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (پ 28، التحریم: 6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی جانوں اور
اپنے گھر والوں کو اس آ گ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ۔
اولاد کی تربیت کیسے کی جائے؟ اس کے بہترین راہنما
اصول قرآن پاک نے بیان کئے ہیں اور ماڈرن سائیکالوجی سے بھی ان اصولوں کی تائید
ہوتی ہے۔ مثلاً: ایمان والوں کو نیک اعمال کی ترغیب دینے کیلئے اللہ پاک نے جنت کے
عالی شان نعمتوں کا وعدہ کیا ہے اور برے اعمال پر جہنم کی سخت سزاؤں کی وعید سنائی
ہے اس اسلوب کو ترغیب و ترہیب کا نام دیا جاتا ہے اگر اس اسلوب کو صحیح معنوں میں
اپناتے ہوئے والدین اپنی اولاد کی ہر اچھی عادت و کام پر اس کی حوصلہ افزائی کرے
تو کچھ ہی عرصے میں اس کی یہ اچھائی والی عادت پختہ ہو جائے گی اور ناپسندیدہ اور
برے کام پر اگر سرزنش کی جائے تو تھوڑے ہی عرصے میں اس کی بری عادت ختم ہو جائے گی
یوں ان شاء اللہ ان کی اولاد ہر لحاظ سے بہتر ہو سکتی ہے۔ یاد رکھیئے! بے جا سختی
اور ڈانٹ ڈپٹ ہو یا پیار اور محبت ہو دونوں ہی اولاد کو بگاڑ دیتے ہیں۔
2۔ از خود والدین کا کردار: اولاد
کے بہترین کردار کی تعمیر و تشکیل کیلئے خود والدین کا بہترین کردار ہونا بھی بے
حد ضروری ہے۔ والدین کے قول و فعل میں پایا جانے والا تضاد بھی بچے کے ننھے ذہن
کیلئے باعث تشویش ہوگا کہ ایک کام یہ خود تو کرتے ہیں مثلاً جھوٹ بولتے ہیں، آپس
میں جھگڑتے ہیں مگر مجھے منع کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بڑوں کی کوئی نصیحت
اسکے دل میں گھر نہ کر سکے گی اور یہ کبھی اچھائی کی طرف گامزن نہیں ہو سکے گا۔
3۔ اسلامی اقدار اور علم دین سے دوری: بگڑتی
ہوئی اولاد کا ایک اہم سبب اسلامی تعلیمات پر عمل نہ کرنا اور علم دین سے دوری ہے۔آپ
کی اولاد، آپ کے جگر کا ٹکڑا ہی سہی لیکن اس سے پہلے اللہ کا بندہ، نبی کریم ﷺ کا
امتی اور اسلامی معاشرے کا اہم فرد ہے۔ اگر والدین اپنی، اولاد کو اللہ کی بندگی،
سرکار مدینہ ﷺ کی غلامی، اسلامی معاشرے میں اس کی ذمہ داری نہ سکھا سکیں تو اسے
اپنا فرماں بردار بنانے کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیجیئے کیونکہ یہ دین اسلام کی
تعلیمات ہی ہیں کہ جس پر عمل پیرا ہو کر بندہ اپنے والدین کا مطیع و فرمانبردار ہو
سکتا ہے۔ والدین کو غور کر لینا چاہیے کہ انہوں نے اپنی اولاد کو کس قدر اسلامی
تعلیمات اور علم دین سےآراستہ کیا؟ کیونکہ آج کل کے والدین ہی ہیں جنہوں اپنے بچے
کو ABC
بولنا تو سکھایا مگر قرآن پڑھنا نہ سکھایا، مغربی تہذیب کے طور طریقے تو خوب
سمجھائے مگر پیارے آقا ﷺ کی سنتیں نہ سکھائیں، جنرل نالج کی اہمیت پر اس کے سامنے
گھنٹوں کلام کیا مگر فرض دینی علوم کی رغبت نہ دلائی، اس کے دل میں مال و دولت کی
محبت تو ڈالی مگر عشق رسول ﷺ کی شمع فروزاں نہ کی، اس کو دنیاوی ناکامیوں کا خوف
تو دلایا مگر امتحان قبر و حشر میں ناکامی کی وحشت نہ دلائی، اسے ہیلو ہائے کہنا
تو سکھایا مگر سلام کرنے کا طریقہ نہ بتایا۔ یہ سب کچھ بچے کی طبیعت میں شیطانیت و
نفسانیت کو اتنا قدآور کر دیتے ہیں کہ اس سے پاکیزہ کردار کی توقع بھی نہیں کی جا
سکتی۔ پھر آخر کار یہی والدین اولاد بگڑنے کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔
4۔ گھریلو ماحول اور بری صحبت: ان
تمام اسباب کے ساتھ ساتھ گھریلو ماحول اور صحبت (یعنی دوست احباب) کا بھی بچوں کی
زندگی میں گہرا اثر پڑتا ہے گھریلو ماحول میں خرابی اور بری صحبت بھی بچے کے بگڑنے
کا ایک اہم سبب بنتی ہے اگر گھر والے نیک سیرت، شریف، خوش اخلاق ہوں اور گھر کا
ماحول پاکیزہ ہو تو بچہ بھی حسن اخلاق و پاکیزہ کردار کا مالک بنے گا مگر اس کے
ساتھ اس کی اچھی صحبت کا ہونا بھی ضروری ہے انسان کی فطرت ہے کہ وہ جس کے ساتھ
اٹھتا بیٹھتا ہے ان کی عادات کو اپناتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ صحبت اپنا اثر رکھتی
ہے لہذا والدین کو چاہئے کہ اپنی اولاد کو بگڑنے سے بچائے اور نیک بنانے کیلئے
اپنے گھر کے ماحول کو پاکیزہ بنائیں اور اس بات کا احتساب کرتے رہیں کہ ان کا بچہ
کس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کر رہا ہے۔
5۔ سوشل میڈیا اور موبائل فون: آج کے
دور میں سب سے اہم سبب جو آنے والی نسلوں کی بربادی کو فروغ دینے میں مصروف ہے وہ
موبائل فون اور سوشل میڈیا کا استعمال ہے مشاہدہ ہے کہ آج کے دور میں بچہ ہو یا
بڑا، بوڑھا ہو یا جوان، مذہبی و غیر مذہبی الغرض ہر فرد ہی اس وبا کی لپیٹ میں ہے
جہاں بچوں کے ہاتھوں میں کھلونے دیئے جاتے تھے وہاں اب موبائل فون اور ٹیبلیٹ جیسی
اشیاء پکڑائی جاتی ہیں۔ یہ بچوں کی ذہنی سطح کو برباد کر دیتا ہے، ان کو تعلیم سے
غافل کرتا ہے اور غیر اخلاقی حرکات میں ملوث کرنے کا ذریعہ بنتا ہے والدین اپنی
اولاد کو اس سے دور رکھنے میں کامیاب ہوجائے تو ان کی
اولاد بہت سی خرابیوں سے بچ سکتی ہے۔
تمام والدین کو چاہیے کہ ان اسباب پر غور و فکر
کرتے ہوئے اپنی اولاد کی پرورش کریں۔