اولاد
کےبگڑنے کے اسباب از ام عبدالرحیم، جامعۃ المدینۃ سرجانی ٹاؤن کراچی
1۔ صحبت کا اثر والدین مشاھدہ کریں کہ ان کا
بچہ کس قسم کے بچوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے۔اگر اس کے قریب جمع ہونے والوں میں بری
عادت پائی جاتی ہیں یا وہ گمراہ عقائد رکھتے ہیں تو بچوں کو نرمی سے ایسے لوگوں سے
ملاقات کرنے سے روکیں، کیوں کہ صحبت اثر رکھتی ہے۔ صحبت صالح ترا صالح کند صحبت
طالح ترا طالح کند (اچھے آدمی کی مجلس تجھے اچھا اور برے آ دمی کی صحبت تجھے برا
بنا دےگی)
2۔ بے جا سختی اور مار پیٹ وقت بے وقت بچوں کو
ڈانٹتے رہنے سے بچوں کی خود اعتمادی بری طرح متاثر ہوتی ہے اور زیادہ سختی کرنے سے
احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔کچھ والدین کی عادت ہوتی ہے کہ معمولی سی بات پر
بچے کو جھڑک دیتے ہیں اور اچھی خاصی پٹائی بھی کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے بچوں میں
ضد پیدا ہوتی ہے اور وہ باغی ہوجاتے ہیں پھر کسی کی بھی نہیں سنتے۔ فرمان امیر
اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ: برتن میں سوراخ کرنےکے بعد جتنا بھر لو خالی رہے گا
یعنی مار کر ہم بچے کو سمجھا نہیں رہے بلکہ اسے خود سے دور کر رہے ہیں۔ بچے کی
غلطی پر اسے مکار،جھوٹا، چور وغیرہ کے القاب سے نوازنے والے والدین سخت غلطی پر
ہیں بچہ سوچتا ہے جب مجھے لقب مل گیا تو میں کامل طور پر بن کر دکھا دوں۔
ہےفلاح
و کامرانی نرمی و آسانی میں ہر
بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں
3۔ بچوں میں یکساں تعلق نہ رکھنا۔ بلا وجہ شرعی کسی
بچہ بالخصوص بیٹی کو نظر انداز کر کے بیٹے کو اس پر ترجیح دینا بچوں کے نازک دل پر
بہت سخت گزرتا ہے جس کی وجہ سے بچوں کے قلوب پر بغض و حسد کی تہہ جمنا شروع ہو
جاتی ہے جس کی وجہ سے انکی شخصیت بہت متاثر ہوتی ہے اور ان میں خود اعتمادی کی کمی
آنا شروع ہو جاتی ہے۔پیارے آقا ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے:بے شک اللہ تبارک و تعالی
یہ پسند کرتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان برابری کا سلوک کرو حتی کہ بوسہ لینے
میں بھی۔ (کنز العمال، 16/185، حدیث: 45342)
4۔ فلم بینی اور سوشل میڈیا کے استعمالات۔ فلمیں
ڈرامے گانے باجے اور سوشل میڈیا کا استعمال آج کل کے بچوں اور نوجوانوں کا محبوب
مشغلہ بن چکا ہے جو آنکھ دیکھتی ہے دماغ اس کا اثر قبول کرتا ہے والدین بچوں کی ضد
کو ڈھال بنا کر ٹی وی اور اسمارٹ فون گھر لے آتے ہیں اور بچوں کے ہاتھ میں پکڑا
دیتے ہیں کہ بچے تنگ نہ کریں اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچوں کو پھر ایسی لت لگتی
ہے کہ سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے اور والدین سر پکڑ کر رہ جاتے ہیں۔
5۔ علم دین سے دوری۔ اپنی اولاد کوکامل مسلمان
بنانے کے لیے زیور علم دین سے آراستہ کرنابے حد ضروری ہے۔مگر افسوس! آج دینی تعلیم
کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے اپنے بچوی کو دنیاوی علوم و فنون تو سکھائے جاتے ہیں
مگر قرآن کریم اور سنن و فرائض کا علم سکھانے کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ اگر بچہ
ذہین و فطین ہو تو والدین اسے ڈاکٹر،انجینئر، پروفیسر بنانے کی جدو جہد میں لگ
جاتے ہیں اسکے لیے مخلوط تعلیمی زماداروں سے بھی گریز نہیں کرتے۔ لیکن اگر گھر کا
کوئی بچی ضدی اور کند ذہن ہو تو اسے مدرسہ اور جامعہ کی طرف بھیج دیا جاتا ہے۔جب
بچہ مخلوط تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرےگا، علم دین سے دوری اور بدعقیدی لوگوں
کی صحبت میں پروان چڑھےگا تو پھر اسے حلال و حرام،والدین و استاذ کا ادب اور گھر
والوں سی نرمی و محبت کی کوئی پہچان نہیں ہوگی۔
اللہ کریم ہماری اولادوں کی نیک و صالح حافظ قرآن و
عالم دین بنائے۔ آمین