اولاد
بگڑنے کے اسباب از بنت رمضان احمد، فیضان عائشہ صدیقہ نندپور سیالکوٹ
شادی کرنا، بچے پیدا کرنا، اور انہیں پالنا کوئی
بڑا کام نہیں ہے یہ تو غیر مسلم بھی کر رہے ہیں جانور اور پرندے بھی کر رہے ہیں۔ مسلمان
ماں باپ کی حقیقی ذمہ داری اپنی اولاد کو دین کی تربیت دینا، اسلام والا ماحول
فراہم کرنا ہے۔ تاکہ اپنے بعد ایمان والی نسلیں چھوڑ جائیں۔ بروز قیامت ایک بڑا
سوال آپکی اولاد کے متعلق بھی پوچھا جائے گا!
یاد رکھئے! اگر سستی سے کام لیتے ہوئے اولاد کی
اچھی تربیت نہ کی توبروز قیامت اللہ کی بارگاہ میں اس کا جواب دینا ہوگا، حضور
اکرم ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے
ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ بادشاہ نگران ہے، اس سے اس کی رعایا کے
بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہل وعیال کا نگران ہے اس سے اس کے اہل وعیال
کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولادکی نگران ہے،اس سے ان
کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (بخاری، 2/159، حدیث: 2554)
آئیے! اولادکی تربیت کے حوالے سے چند مدنی پھول
سنتے ہیں، جن کی روشنی میں ہم اپنے بچوں کی صحیح مدنی تربیت کرسکتے ہیں۔
بےجا لاڈ پیار: بچوں کے بگڑنے
کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بچپن ہی سےباپ ان کی ہرخواہش کو پوری کرتا چلاجاتا
ہے،نتیجتاً بچے ضدی اور اپنی بات منوانے کے عادی بن جاتے ہیں، اس کا نقصان یہ
ہوتاہے کہ بعض اوقات کسی مجبوری کے سبب،باپ ان کی کوئی خواہش پوری نہ کرسکے تو بچے
رونا دھونا شروع کردیتے ہیں اورپھر باپ کوچاہتے،نہ چاہتے ہوئے،ان کی بات ماننی ہی پڑتی
ہے، جب بچے کا یہ ذہن بن جاتاہے کہ،جو روتاہےاس کا کام ہوتاہے،تو پھرآئے دن رو پیٹ
کر نت نئی فرمائشیں پوری کروانا ان کا معمول بن جاتاہےاوراس طرح یہ سلسلہ تھمنے کے
بجائے مزید بڑھتاہی چلاجاتا ہے۔لہٰذا اس کاحل یہی ہے کہ بچوں کی بے جاضدکے آگے
خودکوبے بس سمجھ کران کی ہربات اور مطالبات کو پورا کرنے سے گریز کیجئے، ورنہ یہ
لاڈ پیار ان کے بگاڑکاسبب بن سکتاہے۔
سب کے سامنے مت جھڑکیے: بچوں
کی تربیت کرنے میں ایک احتیاط یہ بھی کیجئے کہ ان کی غلطی پرسمجھاتے وقت سب کے
سامنے بلندآواز سےسمجھانے، ڈانٹنےیاجھڑکنے سے بچیے کیونکہ اس انداز سے قوی امکان
ہےکہ ان کی دل آزاری بھی ہو اوربات بھی بے اثر ہوجائے اور اس طرح سمجھانے سے بچہ
بھی ڈھیٹ بن سکتاہے،لہٰذا موقع پاکرتنہائی میں سمجھائیے،جیسا کہ حضرت ابو درداء
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جس نے اپنے بھائی کو سب کے سامنے نصیحت کی، اس نے اس کو
ذلیل کر دیا اور جس نے تنہائی میں نصیحت کی اس نے اس کو مزیّن (آراستہ) کر دیا۔
(شعب الايمان،6/112، حديث:7441)
اولاد پر کڑی نظر رکھئے! اسی
طرح باپ کی ایک ذمّہ داری یہ بھی ہے کہ اپنی اولادپرکڑی نظر رکھے کہ اس کا
اٹھنابیٹھناکن لوگوں کے ساتھ ہے،لیکن فی زمانہ لوگ اس پر توجہ نہیں دیتے اور بعض
کو یہ بھی کہتے سنا ہے کہ ہمارے گھر کا ماحول سلجھا ہواہے،ہم نے اپنے بچے کی اچھی
تربیت کی ہے،ہمیں یقین ہے وہ کسی غلط راستے پر نہیں جاسکتا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کےگھر
کا ماحول اچھا ہومگرآپ کا بچہ جس اسکول یا کالج میں جاتاہے،یا گلی محلے کے دوستوں
کے ساتھ اٹھتا بیٹھتاہے،ان میں ہر طرح کے اچھے برے لوگ ہوتے ہیں، اس بات کی کیا
گارنٹی ہے کہ اسے وہاں بھی گھرجیسا ہی ماحول میسرہوگا۔لیکن باپ اسی خوش فہمی میں
مبتلا رہتاہے کہ میرابچہ بہت شریف ہے اوربچہ برے دوستوں کی صحبت میں پھنس کرجرائم کی
دنیا میں غرق ہوجاتاہے اور باپ کواس وقت ہوش آتاہے جب اس کا ہونہار بیٹا منشیات یا
فحاشی کے اڈّوں سے گرفتار ہوکر جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلاجاتاہے۔لہٰذا باپ کی ذمہ
داری صرف یہی نہیں کہ پیسہ بنانے کی مشین بن کرخوب دولت اکٹھی کرے اور اپنی اولاد
کو اچھے سےاچھا کھلائے پلائے اور دنیا کی ہر آسائش وسہولت انہیں مہیا کرنے کی کوشش
کرے بلکہ ان کی اچھی پرورش کے ساتھ ساتھ انہیں دینی تعلیم سکھانا،قرآن پڑھانا،فرض
علوم سکھانا،نبی ﷺ کی محبت سکھانا،اخلاق اچھے کرنے کی کوشش کرنا، نیکیوں کی طرف
راغب کرنا اور بری صحبت سے بچانابھی باپ پر لازم ہے،بروز قیامت اس کے بارے میں بھی
اس سے پوچھاجائے گا۔
اللہ مجھے دیکھ رہا ہے: حضرت
سہل بن عبداللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میری عمر 3 سال تھی اور میں رات
کو اٹھ کر اپنے ماموں حضرت محمد بن محمدبن سوّاررحمۃ اللہ علیہ کو تنہائی میں نمازپڑھتے
دیکھتا تھا۔ ایک دن میرے ماموں نے مجھ سے پوچھا: کیا تو اس اللہ کویاد نہیں کرتا
جس نے تجھے پیدا کیا؟ میں نے پوچھا:میں اسے کس طرح یاد کروں؟ انہوں نے فرمایا:جب
تم بستر پر لیٹنے لگو تو 3 بار زبان کو حرکت دئیے بغیر محض دل میں یہ کلمات کہو: اللہ
معی،اللہ ناظرٌ الیّ،اللہ شاھدی یعنی اللہ میرے ساتھ ہے، اللہ مجھے
دیکھ رہا ہے اللہ میرا گواہ ہے۔
آپ فرماتے ہیں: میں نے چند راتیں یہ کلمات پڑھے پھر
انہیں بتایا تو انہوں نے فرمایا: ہر رات 7 مرتبہ پڑھو۔ میں نے انہیں پڑھا،پھر
بتایا تو فرمایا: ہر رات 11 مرتبہ یہ کلمات پڑھو۔ میں نے اسی طرح پڑھا، تومیں نے
اس کی لذّت اپنے دل میں محسوس کی۔ جب ایک سال گزرگیا تو میرے ماموں نے مجھ سے
فرمایا:میں نے جو کچھ تمہیں سکھایا ہے اسے یاد رکھو اورقبر میں جانے تک ہمیشہ
پڑھتے رہنا، تمہیں دنیا وآخرت میں نفع دے گا۔ میں نے کئی سال تک ایسا کیا تو اپنے
اندر اس کی لذّت کومحسوس کیا۔ پھر ایک دن میرے ماموں نے فرمایا: اے سہل ! اللہ جس
شخص کے ساتھ ہو، اسے دیکھتا ہواوراس کاگواہ ہو، وہ اس کی نافرمانی کیسے کرسکتا ہے؟
لہٰذااپنے آپ کو گناہ سےبچاؤ۔ (رسالۃ قشیریۃ، ص 39)
دیکھا آپ نے حضرت محمد بن محمدبن سوّاررحمۃ اللہ علیہ
نے اپنے بھانجے کی کس پیارے انداز سے مدنی تربیت فرمائی کہ بغیرڈانٹے،جھڑکے مدنی
پھول عطا فرمایا کہ کیا تو اس اللہ کویاد نہیں کرتا جس نے تجھے پیدا کیا؟ پھر
بھانجے بھی کیسے باعمل تھے کہ اپنے ماموں جان سے ملنے والے مدنی پھول کو دل وجان
سے قبول کرتے ہوئے، اس پرعمل کرنا شروع کردیااوراس کی برکت سے کیسے کیسے انوارو
تجلّیات سے نوازے گئے۔جی ہاں!یہ خوش نصیب بچہ آگے چل کرمقام ولایت پر فائز ہوا،جس
کو دنیا اب حضرت سہل بن عبد اللہ تستری
رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے یاد کرتی ہے اورجن کا فیضان اب بھی جاری و ساری ہے۔