کسی بھی عبادت کے لطف وسرورکاحصول اس وقت
ممکن ہے جب اسے دل جمعی ،خوش اسلوبی اور حضورِ قلب یعنی خشوع سے ادا کیا جائے۔نماز
بذات خود ایک عمدہ عبادت ہے لیکن اعلیٰ درجے کی نماز وہ ہے جو خشوع وخضوع کے ساتھ
ادا کی جائے کیونکہ رب کائنات نے اپنے پیارے کلام میں ایسی نماز پڑھنے والوں کی
تعریف فرمائی ہے چنانچہ ارشاد فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ فِیۡ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾
ترجمہ کنزالایمان:بیشک مراد کو پہنچے
ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔[1]
خشوع
کی تعریف:
خشوع کے معنی ہیں :" دل
کا فعل اور ظاہری اعضا(یعنی ہاتھ پاؤں )کا عمل۔"[2]
نماز میں ظاہِری و باطِنی خشوع کسے کہتے ہیں ؟
نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا
ہے اور باطنی بھی، ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی
جائے مثلاً نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ
دیکھے، آسمان کی
طرف نظر نہ اٹھائے، کوئی عبث و بیکار کام نہ کرے، کوئی کپڑا شانوں (یعنی کندھوں )
پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں (ہاں اگر ایک کَنارا دوسرے کندھے پر ڈا ل دیا
اور دوسرا لٹک رہا ہے تو حرج نہیں )، انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔ باطنی خشوع یہ
ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیش ِنظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں دل
لگا ہو۔ [3]
نماز
میں خشوع وخضوع کا حکم شرعی:
علامہ
بدرالدین عینی رَحْمۃُ اللہِ
علیہ فرماتے ہیں : نماز میں خشوع مستحب ہے۔ [4]
یکسوئی سے نماز پڑھنے والا:
حضرت سیِّدُنا عُقْبَہ بن عامِر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے اللہ پاک کے پیارے حبیب صَلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھا کہ آپ کھڑے ہو کر لوگوں سے یہ ارشاد
فرمارہے تھے:’’جو مسلمان اچھی طرح وُضو کرے پھرظاہر و باطن کی یکسوئی کے ساتھ دو
رکعتیں ادا کرے تو اُس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔‘‘ [5]
غووفکروالی دورکعت نماز:
حضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ’’غور وفکر کے
ساتھ دو رَکعت نماز پڑھنا غافل دل کے ساتھ پوری رات قیام (یعنی عبادت) کرنے
سے بہتر ہے۔‘‘[6]
جتنا خُشوع اُتنا ثواب:
حضرت سیِّدُنا عماربن یاسر رضی
اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :میں نے اللّٰہ پاک کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سناکہ
’’آدَمی نماز سے فارغ ہو کر لوٹتا ہے لیکن اُس کے لیے (نماز کا) صرف دسواں
، نواں ، آٹھواں ، ساتواں ، چھٹا، پانچواں ، چوتھا، تیسرا یا نصف (یعنی آدھا
) حصَّہ ثواب لکھا جاتا ہے۔‘‘ [7]علامہ عبد الرء وف مناوی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :حدیث ِ پاک کی مراد یہ ہے کہ خشوع اورغوروفکر
وغیرہ نماز کو کامل (یعنی مکمل )بنانے والی چیزوں کے اعتبار سے نماز
کا ثواب ملتا ہے جیسا کہ باجماعت نماز میں ہوتا ہے کہ کسی کو پچیس درَجہ
ثواب ملتا ہے اور کسی کو ستائیس دَرَجہ۔ [8]
خُشوع سے نَماز پڑھنا گناہوں کا کفّارہ:
امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ
سیِّدُناعثمان ابنِ عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے اللہ پاک کے پیارے نبی صَلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا کہ جس مسلمان پر فرض نماز کا
وقت آئے اوروہ اچھی طرح وُضو کرکے خشوع کے ساتھ نماز پڑھے اور دُرُست
طریقے سے رُکوع کرے تو وہ نماز اُس کے پچھلے گناہوں کا کفَّارَہ ہوجاتی ہے
جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا اِرتکاب نہ کرے اور یہ( یعنی گناہوں کی مُعافی کا
سلسلہ) ہمیشہ ہی ہوتاہے (کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہے)۔[9]
اللہ پاک ہمیں بھی خشوع وخضوع والی نماز کی برکات نصیب
فرمائےاورہمارا شمارا بھی مخلصین وخاشعین میں فرمادے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
ہوں میری ٹوٹی پھوٹی نمازیں خدا قبول