ہر شے کی ایک ظاہری صورت ہوتی ہے اور ایک باطنی حقیقت۔ نماز بھی ایک ظاہری صورت رکھتی ہے اور ایک باطنی حقیقت۔ نماز کی اس باطنی حقیقت کا نام قرآن و سنت کی زبان میں خشوع و خضوع ہے۔

نماز میں خشوع و خضوع سے مراد وہ کیفیت ہے کہ دل خوف اور شوقِ الٰہی میں تڑپ رہا ہو اور اس میں اللہ کے سوا کچھ باقی نہ رہے، اَعضاء و جوارِح پرسکون ہوں، پوری نماز میں جسم کعبہ کی طرف اور دل ربِ کعبہ کی طرف متوجہ ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَمَن يُضْلِلْ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ

تَرجَمۂ کنز الایمان:’’اللہ ہی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے، جو ایک کتاب ہے جس کی باتیں (نظم اور معانی میں) ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں (جس کی آیتیں) بار بار دہرائی گئی ہیں، جس سے اُن لوگوں کے جسموں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر اُن کی جلدیں اور دل نرم ہو جاتے ہیں (اور رِقّت کے ساتھ) اللہ کے ذکر کی طرف (محو ہو جاتے ہیں)۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے اس کے ذریعے رہنمائی فرماتا ہے۔ اور اللہ جسے گمراہ کر دیتا ہے تو اُس کے لئے کوئی ہادی نہیں ہوتا‘‘(الزمر، 39 : 23)

مومن کا شعار صرف نمازی ہونا ہی نہیں بلکہ نماز میں خشوع اِختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ خشوع نماز کا مغز ہے اور اگر نماز میں خشوع نہ ہو تو اس کی مثال یوں ہوگی جیسے کسی کی آنکھیں تو ہوں لیکن بصارت نہ ہو، کان تو ہوں مگر سماعت نہ ہو۔ لہٰذا نماز کی روح یہ ہے کہ اِبتدا سے آخر تک خشوع کا غلبہ ہو اور حضورِ قلب قائم رہے کیونکہ دل کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رکھنا اور اللہ تعالیٰ کی تعظیم و ہیبت کی کیفیات کو اپنے اوپر طاری رکھنا ہی نماز کا اصل مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے :

إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي

’’بیشک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری عبادت کیا کرو اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کروo‘‘(طٰهٰ، 20 : 14)

’’حضرت مطرف اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں :

رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُصَلِّي وَفِي صَدْرِهِ أَزِيْزٌ کَأَزِيْزِ الرَّحَی مِنَ الْبُکَاءِ1(. أبو داود، السنن، کتاب الصلاة، باب البکاء في الصلاة، 1 : 238، رقم : 904)

2(. نسائي، السنن، کتاب السهو، باب البکاء في الصلاة، 3 : 13، رقم : 1214)

’’میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ اقدس سے اس طرح آواز آرہی تھی جیسے چکی کے چلنے کی آواز ہوتی ہے۔‘‘

نماز میں خشوع و خضوع کی اہمیت ویسی ہی ہے جیسے کھانے میں نمک  کی کہ کھانے میں نمک نہ ہو تو بھی کھانا پک جائے گا لیکن نمک اس کے مزہ میں اضافہ کردیتا ہے یا اچھے لباس کی مثل کہ بندہ گندے کپڑے پہنے تو اس کا جسم اور ستر تو چھپ جاتا ہے لیکن اچھے کپڑا نہ صرف ستر اور جسم کو چھپاتا ہے بلکہ اس کے حسن میں اصافہ کرتا ہے اسی طرح بغیر خشوع و خضوع کے نماز تو ہوجائے گی لیکن جو خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھتے ہیں اس کی لذت تو وہی خوش نصیب جانتے ہیں جو اس نعمت سے مشرف ہیں۔

ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ یہاں تک کہ جو برسوں سے نماز پڑھتا ہے اس میں بھی اس کی کمی محسوس ہوتی ہے، اس کی وجہ اس سے لا علمی ہوتی ہے تو میں اس کی تعریف فوائد نقصانات اور فضائل بیان کرنے کی سعی (کوشش)کرتا ہوں۔

اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ! اس کو پیدا کرنے کا ذہن بنے گا اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہمیں نماز میں خشوع و خصوع کی نعمت مل جائے گی۔

خشوع کی تعریف:

خشوع کی تعر یف:

خشوع کے معنی ہیں: دل کا فعل اور ظاہری اعضا ( یعنی ہاتھ پاؤں ) کا عمل۔

دل کا فعل یعنی اللہ کی عظمت پیش نظر ہو دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی اور نماز میں دل لگا ہوا ہو۔ظاہری اعضا کا عمل یعنی سکون سے کھڑا رہے ادھر ادھر نہ دیکھے، اپنے جسم اور کپڑوں کے ساتھ نہ کھیلے اور کوئی عبث (فضول ) و بے کارکام نہ کرے۔

حکم: نماز میں خشوع مستحب ہے۔

علامہ عبدالرحمٰن عیسی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں، نماز میں خشوع مستحب ہے۔

علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں، نماز میں خشوع مستحب ہے،

اللہ تعالیٰ کا پارہ ۱۸، سورہ المومنون آیت نمبر ۱ تا ۲ میں فرماتا ہے:

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)

تَرجَمۂ کنز الایمان: بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔

تفسیر الجنان ، جلد ۶،ص ۴۹۴، پر ہے اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت (یعنی خوشخبر) دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنےمقصد میں کامیاب ہوگئے اور اور ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہو کر ہر نا پسندیدہ چیزوں سے نجات پا جائیں گے۔ مزید صفحہ ۴۹۶ پر ہے: ایمان والے خشوع خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اس وقت ان کے دلوں میں اللہ کریم کا خوف ہوتاہے اور ان کے اعضا ساکن (یعنی ٹہرتے ہوئے دیکھا) ہوتے ہیں۔

نماز میں ظاہری و باطنی خشوع کسے کہتے ہیں؟

نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی، ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے مثلا ً نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے، آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ دیکھے، انگلیاں نہ چٹکائے اور اس قسم کی حرکات سےباز رے، باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیش نظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہوا ہو،

حدیث مبارکہ

اس ضمن میں حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے:

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں میں نے اللہ پاک کے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا کہ جس مسلمان پر فرض نماز کا وقت آئے اور وہ اچھی طرح وضوع کرکے خشوع کے ساتھ نماز پڑھے اور درست طریقے سے رکوع کرے تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کاکفارہ ہوجاتی ہے جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے اور یہ ( یعنی گناہوں کی معافی کا سلسلہ) ہمیشہ ہی ہوتا ہے ( کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہے)

اب ہم اپنے بزرگانِ دین کے متعلق واقعات ملاحظہ کرتے ہیں اور اپنا محاسبہ کرتے ہیں کہ ہم کتنے پانی میں ہیں اور ہماری نماز کا کیا عالم ہے اور ہمارے بزرگانِ دین کی نماز کا کیا عالم تھا جب کہ ہم اور وہ ایمان والوں میں سے ہی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہماری اور ان کی نماز میں بہت فرق ہے اس پر ہمیں ضرور ضرور سوچنا چاہیے اور اپنی کمزوری دور کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

حکایتیں:

۱۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز میں ایسے ہوتے گویا ( گڑی ہوئی) میخ(کھونٹی) میں۔

۲۔بعض صحابہ کرام علیہم الرضوان رکوع میں اتنے پرسکون ہوتے کہ ا ن پر چڑیاں بیٹھ جاتیں، گویا وہ جمادات ( یعنی بے جان چیزوں) میں سے ہے۔

۳۔تابعی بزرگ حضرت مسلم بن یسار رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس قدر توجہ کے ساتھ نماز پڑھتے کہ اپنے آس پاس کی کچھ بھی خبر نہ ہوتی۔

خشوع کے ساتھ نماز پڑھنے کے فوائد:

خشوع کے ساتھ نماز پڑھنے کے چند فوائد آپ کی خدمت میں لکھتا ہوں۔

۱۔اس سے غم دور ہوتا ہے۔

۲۔ روزی میں برکت کا ذریعہ ہے۔

۳۔ عمر کی زیادتی کا سبب ہے۔

خشوع کے سا ھ نماز نہ پڑھنے کے نقصانات:

حدیث کا جز ہے کہ جو شخص نماز بے وقت ادا کرے او راس کے لئےاچھی طرح وضو نہ کرے اور اس کے خشوع ، رکوع اور سجود پورے نہ کرے تو وہ نماز کالی اندھیری ہو کر یہ کہتی نکلتی ہے: اللہ پاک تجھے ضائع کرے جس طرح تو نے مجھے ضائع کیا۔

یہاں تک کہ اللہ پاک جہاں چاہتا ہے نماز اس جگہ پہنچ جاتی ہے پھر وہ بوسیدہ ( یعنی پھٹے پرانے) کپڑے کی طرح لپیٹ کر اس نمازی کے منہ پر ماری جاتی ہے۔

نماز میں خشوع اور خضوع پیداکرنے والے اسباب:

دعا ، علم ِنافع، نیکیوں کی کثرت اور گناہوں سے کنارہ کشی یہ سب خشوع و خضوع پیدا کرنے والے اسباب ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں خشوع و خضوع کی اہمیت سمجھنے اور اس کو پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


خشوع خضوع کى اہمىت 

Tue, 2 Jun , 2020
4 years ago

آئىے! ہم جانتے ہىں کہ خشوع خضوع کى اہمىت کىا ہے اس سے پہلے ہم ىہ دىکھىں گے کہ خشوع خصوع کہتے کس کو ہىں؟

خشوع: ىعنى بدن مىں عاجزى اور خضوع ىعنى دل مىں گڑگڑانے کى کىفىت ظاہر کرنا۔ نماز مىں خشوع خضوع ظاہر ى بھى ہوتا ہے اور باطنى بھى۔

ظاہر ی خشوع ىہ ہے کہ نماز کے آداب کى تکمىل رعاىت کى جائے مثلاً نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسى طرف نہ دىکھے، آسمان کى طرف نظر نہ اٹھائے، کوئى عبث و بىکار کام نہ کرے، کوئى کپڑا شانوں ( ىعنى کندھوں پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں، انگلىاں نہ چٹخائے اور اس قسم کى حرکات سے باز رہے ۔

باطنى خشوع ىہ ہے کہ اللہ پاک کى عظمت پىش نظر ہو، دنىا سے توجہ ہٹى ہوئى ہو اور نماز مىں دل لگا ہوا۔(صراط الجنان ج ۴، ص ۴۹۶)

علامہ بدر الدىن عىنى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہىں: نماز مىں خشوع مستحب ہے۔

مىرے آقا اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہىں کہ نماز کا کمال ، نماز کا نور، نماز کى خوبى فہم و تدبر و حضور قلبِ (ىعنى خشوع) پر ہے۔(فتاوىٰ رضوىہ ج ۶ ص ۲۰۵)

اللہ کرىم پارہ ۱۸ سورہ المومنون کى آىت نمبر 1اور2 مىں ارشاد فرماتا ہے:

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)

تَرجَمۂ کنز الایمان: بے شک مراد کو پہنچے اىمان والے جو اپنى نماز مىں گڑگڑاتے ہىں۔

تفسىر صراط الجنان جلد ۶ صفحہ ۴۹۴پر ہے: اس آىت مىں اىمان والوں کو بشارت دى گئى ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد مىں کامىاب ہوگئے اور ہمىشہ کے لىے جنت مىں داخل ہو کر ہر ناپسندىدہ چىز سے نجات پاجائىں گے۔

مزید صفحہ ۴۹۶ پر ہے کہ اىمان والے خشوع و خصوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہىں اس وقت ان کے دلوں مىں اللہ کرىم کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضا ساکِن ہوتے ہىں۔

اللہ پاک اىسى نماز کى طرف نظر نہىں فرماتا جس مىں بندہ اپنے جسم کے ساتھ کے ساتھ دل کو حاضر نہ کرے( احىا ءالعلوم، مترجم، ج ۱ص ۸۷۰)

حضرت سىدنا عقبہ بن عاصم رضی اللہ تعالٰی عنہ بىان کرتے ہىں، مىں اللہ پاک کے پىارے حبىب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دىکھا کہ آپ کھڑے ہو کر لوگوں سے ىہ ارشاد فرمارہے ہىں :

جو مسلمان اچھى طرح وضو کرے پھر ظاہر و باطن کى ىکسوئى کے ساتھ دو رکعتىں ادا کرے تو اس کے لىے جنت واجب ہوجاتى ہے۔(مسلم ص ۱۱۸، حدىث ۵۵۳)

تابعى بزرگ حضرت سىدنا مسلم بن کبار رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس قدر توجہ کے ساتھ نماز پڑھتے کہ اپنے آس پاس کى کچھ خبر نہ ہوتى، اىک بار نماز مىں مشغول تھے کہ قرىب آگ بھڑک اٹھى لىکن آپ کو احساس تک نہ ہوا یہاں تک کہ آگ بجھا دی گئی۔

(اللہ والوں کی باتیں،ج۳ ص۴۴۷)

حضرت سىدنا تنوحى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہجب نماز پڑھتے تو اس قدر روتے کہ رخسار (ىعنى گال ) سے داڑھى پر مسلسل آنسو گرتے رہتے۔(احىا ء العلوم، مترجم، ج۱، ص ۴۷۰)

صحابىہ اُم المومنىن حضرت سىدنا عائشہ صدىقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتى ہىں:سرکارِ مدىنہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم سے اور ہم آپ سے گفتگو کررہے ہوتے لىکن جب نماز کا وقت ہوتا تو ( ہم اىسے ہوجاتے) گوىا آپ ہمىں نہىں پہچانتے اور ہم آپ کو نہىں پہچانتے۔(احىاء العلوم، مترجم، ج ۱، ص ۲۰۵)

حضرت سىدنا حاتم اصم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے ان کى نماز کے بارے مىں پوچھا گىا تو فرماىا: جب نماز کا وقت ہوجاتا ہے تو مىں پورا وضو کرتا ہوں، پھر نماز کى جگہ آکر بىٹھ جاتا ہوں ىہاں تک کہ مىرے تمام اعضا پرسکون ہوجاتے ہىں، پھر نماز کے لىے کھڑا ہوتا ہوں اور کعبہ معظمہ کوآبروؤں کے سامنے، پل صراط کو قدموں کے نىچے، جنت کو سىدھے ہاتھ کى طرف اور جہنم کو الٹے ہاتھ کى طرف، ملک الموت کو اپنے پىچھے خىال کرتا ہوں اور اس نماز کو اپنى آکرى نماز تصور کرتا ہوں پھر امىد و خوب کى ملى جُلى کىفىت کے ساتھ حقىقتاً تکبىر تحرىمہ کہتا ہوں، قرآن کرىم کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا ہوں رکوع تواضُع (ىعنى عاجزى) کے ساتھ اور سجدہ خشوع کے ساتھ کرتا ہوں، باىاں پاؤں بچھا کر اس پر بىٹھتا ہوں داىاں پاؤں کھڑا کرتا ہوں، خوب اخلاص سے کام لىنے کے باوجود ىہى خوف رکھتا ہوں کہ نہ جانے مىرى نماز قبول ہوگى ىا نہىں۔(احىا العلوم ج ۱، ص ۲۰۶)

ہوں مىرى ٹوٹى پھوٹى ہوئى نمازىں خدا قبول

اُن دو کا صدقہ جن کو کہاشہ نے مىرے پھول

 


خشوع کے معنی ہیں (دل کا فعل اور ظاہری اعضاء(یعنی ہاتھ پاؤں) کا عمل

( تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 259)

دل کا فعل یعنی اللہ پاک کی عظمت پیش نظر ہوں دنیا سے توجہ ہٹائی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہوں اور ظاہری اعضاء کا عمل یعنی سکون سے کھڑا رہے ادھرادھرنہ دیکھے، جسم اور کپڑوں کے ساتھ نہ کھیلے، کوئی عبث اور بیکار کام نہ کرے

(ماخوذ از تفسیر (کبیر جلد 8 صفحہ نمبر 259 مدارک صفحہ 2 صفحہ 751 صاوی جلد 4 صفحہ نمبر 1356)

علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں نماز میں خشوع مستحب ہے

(عمدۃ القاری جلد 4 صفحہ 351 تحت الحدیث 741)

میرے آقا اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں نماز کا کمال ،نماز کا نور، نماز کی خوبی فہم و تدبر اور حضور قلب یعنی خشوع پر ہے۔( فتاوی رضویہ جلد 6 صفحہ نمبر 205 )

مطلب یہ کہ اعلی درجے کی نماز وہ ہے جو خشوع کے ساتھ ادا کی جائے

اللہ کریم پارہ 18 سورۃ المومنون کی آیت نمبر ایک اور دو میں ارشادفرماتاہے

قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)

تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے، جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں

صراط الجنان فی تفسیر القرآن ،جلد 6 صفحہ نمبر 494 پر ہے اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت یعنی خوشخبری دی گئی ہے بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہوکر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے

(تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ نمبر 258 روح البیان جلد 6 صفحہ 66 ملتقطا)

مزید صفحہ نمبر 496 پر ہے ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اس وقت ان کے دلوں میں اللہ کریم کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضاء ساکن (یعنی ٹھہرے ہوئے پر سکون) ہوتے ہیں۔

صحابیہ ام المومنین حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں سرکار مدینہ ص صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم سے اور ہم آپ سے گفتگو کر رہے ہوتے لیکن جب نماز کا وقت ہوتا تو( ہم ایسے ہوجاتے) گویا آپ ہمیں نہیں پہچانتے اور ہم آپ کو نہیں پہچانتے

(احیاء العلوم جلد 1 صفحہ نمبر 205)

امیر المومنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نماز میں ایسے ہوتے گویا (گڑی ہوئی) میخ (کھونٹی) ہیں.

بعض صحابہ کرام علیہم الرضوان رکوع میں اتنے پرسکون ہوتے کہ ان پر چڑیا بیٹھ جاتی گویا وہ جمادات یعنی بے جان چیزوں میں سے ہے

(احیاء العلوم جلد 1 صفحہ نمبر 228 229)

بعض صحابہ کرام علیہم الرضوان فرماتے ہیں روز قیامت لوگ نماز والی ہیت یعنی کیفیت پر اٹھائے جائیں گے یعنی نماز میں جس کو جتنا اطمینان و سکون حاصل ہوتا ہے اسی کے مطابق ان کا حشر( یعنی اٹھایا جانا) ہوگا ۔(احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 222)

حضرت سیدنا سعید تنوخی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب نماز پڑھتے تو اس قدر روتے کے رخسار پر مسلسل آنسو گرتے رہتے۔(احیاء العلوم اردو جلد 1 صفحہ 470)

امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے اللہ پاک کے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا کہ جس مسلمان پر فرض نماز کا وقت آئے اور اچھی طرح وضو کر کے خشوع کے ساتھ نماز پڑھے اور درست طریقے سے رکوع کرے تو نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے اور یہ یعنی گناہوں کی معافی کا سلسلہ ہمیشہ ہی ہوتا ہے کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہے(مسلم صفحہ 116 حدیث نمبر 543)

حضرت سیدنا عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالی فرماتے ہیں بچپن میں دیکھی ہوئی ایک عبادت گزار خاتون مجھے اچھی طرح یاد ہے بحالت نماز بچھو نے انہیں چالیس ڈنگ مارے مگر ان کی حالت میں ذرا بھی فرق نہ آیا جب نماز سے فارغ ہوئی تو میں نے کہا اماں! اس کو آپ نے اٹھایا کیوں نہیں جواب دیا صاحب زادے ابھی تم بچے ہو یہ کیسے مناسب تھا۔ میں تو اپنے رب کے کام میں مشغول تھی اپنا کام کیسے کرتی؟(کشف المحجوب صفحہ332)

ایک تابعی بزرگ نے اپنے کھجوروں کے کے باغ میں نمازاداکی، کھجور کے درخت پھلوں کی کثرت کی وجہ سے جھکے ہوئے تھے ان پر نظر پڑی تو ان کو بھلے لگے اور یاد نہ رہا کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔

یہ واقعہ امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں بیان کیا اور عرض کی کہ اب وہ باغ صدقہ ہے اسے اللہ پاک کی راہ میں خرچ کر دیجیے چنانچہ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے پچاس ہزار میں بیچ دیا۔(احیاء العلوم اردو جلد 1 صفہ 510)

حضرت سیدنا ابو بکر بن عبداللہ مزنی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تمہاری نماز تمہیں نفع پہنچائے تو نماز شروع کرنے سے قبل یہ کہو شاید میں اس نماز کے بعد دوبارہ نماز نہیں پڑھ سکوں گا ۔(قصرالامل مع موسوعہ لامام ابن ابی دنیا جلد 3 صفحہ 328 رقم 104)

فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اپنی نماز میں موت کو یاد کرو کیوں کہ جب کوئی شخص اپنی نماز میں موت کو یاد کرے گا تو وہ ضرور عمدہ انداز میں نماز پڑھے گا اور اس شخص کی طرح نماز پڑھو جسے امید نہ ہو کہ وہ دوسری نماز ادا کرسکے گا۔

(کنزالایمان جلد 8 صفحہ 212 حدیث ایس 20075)

حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ تعالی علیہ جب بھی نماز ادا کرتے تو فرماتے مجھے یہ دھڑکا لگا رہتا ہے یہی میری نماز میرے منہ پر نہ مار دی جائے یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ میری نماز قبول نہ ہو۔(تذکرہ الاولیاء جلد 1 صفحہ نمبر 96)

پیارے اسلامی بھائیو نماز اللہ رب العزت کی نہایت عظیم نعمت ہے ہے شیطان پہلے تو بندے کو نماز سے روکتا ہے اگر بندہ پھر بھی نماز پڑھنے لگتا ہے تو مختلف دنیاوی چیزیں یاد دلاکر نماز کی روح یعنی جو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے خشوع جو و خضوع کے ساتھ نماز کیسے ادا کرتے تھے ہمیں بھی خوش و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اسے پانے کے لیے گڑا کر دعائیں مانگنی چاہیے

ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم دعا مانگتے تھے ۔اللھم انی اعوذبک من قلب لا یخشع ۔ترجمہ: اے اللہ میں اس دل سے تیری پناہ لیتا ہوں جو خشوع اختیار نہ کرے

اللہم انی اعوذ بک من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع ومن نفس لا تشبع ،و من دعوت لا یستجاب لھا۔

ترجمہ :اے اللہ میں تیری پناہ لیتا ہوں اس علم سے جو نفع نہ دے، اس دل سے جو خشوع اختیار نہ کرے, اس نفس سے جو سیر نہ ہو٫ اس دعا سے جو قبول نہ ہو

علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ دعائے مصطفی کے تحت فرماتے ہیں بارگاہ الہی میں اس سے جو نفع نہ دے اور اس دل سے جو خشوع اختیار نہ کریں ایک ساتھ عرض کرنے میں یہ اشارہ ہے کہ علم نافع (یعنی نفع دینے والا علم )سے دل میں خشوع خضوع پیدا ہوتا ہے

علم نافع یعنی نفع دینے والا علم وہ ہوتا ہے جو دل میں اثر کر جائے اور اس میں اللہ رب العزت کی معرفت عظمت بہت خوف تعظیم اور محبت ڈال دے اور جب یہ چیزیں دل میں ٹھہر جاتی ہے تو دل میں خوشی پیدا ہوتا ہے اور دل کی پیروی میں تمام اعضاء خشوع اختیار کرتے ہیں۔

(مجموع و رسائل ابن رجب جلد 1 صفحہ 16)

پیارے اسلامی بھائیو اگر آپ خشوع و خضوع سے نماز پڑھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے گناہوں سے پرہیز کیجئے گناہ خشوع کی راہ میں بہت رکاوٹ ہے گناہ پر قائم رہتے ہوئے خشوع حاصل نہیں ہوتا اگر دل میں نرمی وخشوع لانا چاہتے ہو تو نیکیوں کی کثرت کیجیے اور ایک عظیم الشان نیکی تلاوت قرآن بھی ہے تلاوت کے سبب دل نرم ہوتا ہے نیز لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنا بھی دل کی نرمی کا باعث ہے کہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں دل کی سختی کی شکایت خط کی تو آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہو جائے تو مسکینوں کو کھانا کھلاو اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیروں۔(شعب الایمان جلد 7 صفحہ 400 72 حدیث 11034)