ہر شے کی ایک ظاہری صورت ہوتی ہے اور ایک باطنی
حقیقت۔ نماز بھی ایک ظاہری صورت رکھتی ہے اور ایک باطنی حقیقت۔ نماز کی اس باطنی
حقیقت کا نام قرآن و سنت کی زبان میں خشوع و خضوع ہے۔
نماز میں خشوع و خضوع سے مراد وہ کیفیت ہے کہ دل
خوف اور شوقِ الٰہی میں تڑپ رہا ہو اور اس میں اللہ کے سوا کچھ باقی نہ رہے، اَعضاء و جوارِح پرسکون ہوں،
پوری نماز میں جسم کعبہ کی طرف اور دل ربِ کعبہ کی طرف متوجہ ہو۔ ارشادِ باری تعالیٰ
ہے :
اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ
الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ
الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى
ذِكْرِ اللَّهِ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَمَن يُضْلِلْ
اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ
تَرجَمۂ کنز الایمان:’’اللہ ہی نے
بہترین کلام نازل فرمایا ہے، جو ایک کتاب ہے جس کی باتیں (نظم اور معانی میں) ایک
دوسرے سے ملتی جلتی ہیں (جس کی آیتیں) بار بار دہرائی گئی ہیں، جس سے اُن لوگوں کے
جسموں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر اُن کی جلدیں اور دل
نرم ہو جاتے ہیں (اور رِقّت کے ساتھ) اللہ کے
ذکر کی طرف (محو ہو جاتے ہیں)۔ یہ اللہ کی
ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے اس کے ذریعے رہنمائی فرماتا ہے۔ اور اللہ جسے گمراہ کر دیتا ہے تو اُس کے لئے کوئی ہادی
نہیں ہوتا‘‘(الزمر، 39 : 23)
مومن کا شعار صرف نمازی ہونا ہی نہیں بلکہ نماز
میں خشوع اِختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ خشوع نماز کا مغز ہے اور اگر نماز میں خشوع
نہ ہو تو اس کی مثال یوں ہوگی جیسے کسی کی آنکھیں تو ہوں لیکن بصارت نہ ہو، کان تو
ہوں مگر سماعت نہ ہو۔ لہٰذا نماز کی روح یہ ہے کہ اِبتدا سے آخر تک خشوع کا غلبہ
ہو اور حضورِ قلب قائم رہے کیونکہ دل کو اللہ تعالیٰ
کی طرف متوجہ رکھنا اور اللہ تعالیٰ کی تعظیم و
ہیبت کی کیفیات کو اپنے اوپر طاری رکھنا ہی نماز کا اصل مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے :
إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ
لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي
’’بیشک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری عبادت کیا کرو
اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کروo‘‘(طٰهٰ، 20
: 14)
’’حضرت مطرف اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں :
رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی
الله عليه وآله وسلم يُصَلِّي وَفِي صَدْرِهِ أَزِيْزٌ کَأَزِيْزِ الرَّحَی مِنَ
الْبُکَاءِ1(. أبو داود، السنن، کتاب
الصلاة، باب البکاء في الصلاة، 1 : 238، رقم : 904)
2(. نسائي، السنن، کتاب السهو، باب البکاء في الصلاة، 3 :
13، رقم : 1214)