اللہ پاک نے ہمیں اپنی عبادت کیلیے پیدا فرمایا ہے۔ عبادتیں بہت طرح کی ہیں۔ اعضائے بدن سے کی جانے والی عبادت، زبان سے کی جانے والی، اور دل سے کی جانے والی عبادت۔ نماز وہ پیاری عبادت ہے کہ اس میں یہ تینوں عبادات کی صورتیں پائی جاتی ہیں۔ رکوع، سجود، قیام، اور قعود اعضاء بدن سے ہوتے ہیں۔ ذکر و درود، تسبیح و تکبیر، اور تلاوت زبان سے ادا ہوتے ہیں۔ اور نماز کی نیت، اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضری کا تصور، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا تصور سلام عرض کرتے ہوئے، اور خشوع و خضوع (یعنی عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے )، دل سے ادا ہوتا ہے۔

نماز میں خشوع و خضوع ان تمام میں سب پر فوقیت رکھتا ہے کیونکہ اس میں اکثر چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ میرے آقا اعلی حضرت رحمة الله عليه فرماتے ہیں : نماز کا کمال نماز کا نور، نماز کی خوبی فہم و تدبر و حضور قلب(یعنی خشوع و خضوع) پر ہے۔ امیر اہلسنت اس فرمان کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : مطلب یہ کہ اعلی درجے کی نماز وہ ہے جو خشوع کے ساتھ ادا کی جائے۔(فیضان نماز، ص 282)

ایک بات یہ بھی ہے کہ مومن وہ ہے جو اپنی نماز میں خشوع کو اپنائے۔ جیساکہ اللہ کریم سورة المؤمنون کی آیت نمبر 1 اور 2 میں ارشاد فرماتا ہے :

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)

تَرجَمۂ کنز الایمان: بیشک مراد کو پہنچے ایمان والےجو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں ۔

ہمازے بزرگان دین رحمة الله عليهم نماز میں خشوع و خضوع سے واقف تھے۔ ان کی نماز میں حالتیں وہ ہوتی تھیں کہ مثال نہیں ملتی۔ ان کے چند واقعات میرے پیر طریقت مولانا الیاس قادری صاحب کی کتاب فیضان نماز سے پیش کرتا ہوں۔

(1) حضرت عائشہ صدیقہ رضي الله عنها فرماتی ہیں : سرکار نامدار صلى الله عليه وسلم ہم سے اور ہم آپ سے گفتگو کر رہے ہوتے لیکن جب نماز کا وقت ہوتا تو (آپ ایسے ہوجاتے)گویا آپ ہمیں نہیں پہچانتے اور ہم آپ کو نہیں پہچانتے۔ (فیضان نماز ص 283)

(2) تابعی بزرگ حضرت سیدنا مسلم بن یسار رحمة الله عليه اس قدر توجہ کے ساتھ نماز پڑھتے کہ اپنے آس پاس کی بھی خبر نہ ہوتی، ایک بار نماز میں مشغول تھے کہ قریب آگ بھڑک اٹھی لیکن آپ کو احساس تک نہ ہوا حتی کہ آگ بجھادی گئی۔ (ص 282)

(3) حضرت سیدنا عبد اللہ بن مبارک رحمة الله عليه فرماتے ہیں : بچپن میں دیکھی ہوئی ایک عبادت گزار خاتون مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ انہیں بچھو نے چالیس ڈنک مارے مگر ان کی حالت میں ذرا بھی فرق نہ آیا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئیں تو میں نے کہا : اماں! اس بچھو کو آپ نے ہٹایا کیوں نہیں؟ جواب دیا : صاحبزادے! ابھی تم بچے ہو، یہ کیسے مناسب تھا! میں تو اپنے رب کے کام میں مشغول تھی، اپنا کام کیسے کرتی؟ (ص 294)

اللہ تعالی کی ان سب پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو اور نماز میں خشوع و خضوع اپنانے کی سعادت حاصل ہو۔ آمین

خشوع وخضوع

Tue, 2 Jun , 2020
3 years ago

خشوع کے معنى ہىں دل کا فعل اور ظاہرى اعضا (ىعنى ہاتھ پاؤں کا عمل)

(تفسىر کبىر ج ۸ ص ۲۵۹)

دل کا فعل ىعنى اللہ پاک کى عظمت بىش نظر ہو، دنىا سے توجہ ہٹى ہوئى ہو،اور نماز مىں دل لگا ہو، اور ظاہرى اعضا کا عمل یعنی سکون سے کھڑا رہے اور ادھرادھر نہ دىکھے، اپنے جسم اور کپڑوں کے ساتھ نہ کھىلے اور کوئى عبث و بے کار کام نہ کرے۔

(ماخوذ از تفسىر کبىر ۸، ص ۲۵۹، مناسک ص ۷۵۱ صاوى ، ج ۲ ص ۱۲۵۶)

امىر المومنىن حضرت سىدنا عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ بىان کرتے ہىں جس نے اللہ پاک کے نبى صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ىہ فرماتے سنا کہ جس مسلمان پر فرض نماز کا وقت آئے اورہ وہ اچھى طرح وضو کرکے خشوع کے ساتھ نماز پڑھے اور درست طرىقے سے رکوع کرے تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوجاتى ہے جب تک کہ وہ کسى گناہ کا ارتکاب نہ کرے اورىہ ( ىعنى گناہوں کى معافى کا سلسلہ ہمىشہ ہے کسى زمانے کے ساتھ خاص نہىں ہے۔

(مسلم ص ۱۱۶، حدىث ۵۴۳)

تابعى بزرگ حضرت سىدنا بن ىسار رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس قدر توجہ کے ساتھ نماز پڑھے کہ انہىں آس پاس کى کچھ خبر بھى نہ ہوتى اىک بار نماز مىں مشغول تھے کہ قرىب آگ بھڑک اٹھى لىکن آپ کو احساس تک نہ ہوا حتى کہ آگ بجھادى گى۔(اللہ والوں کى باتىں ج ۲ )

بعض صحابہ کرام علیہم الرضوانفرماتے ہىں بروز قىامت لوگ نماز والى ہیت (یعنی کیفیت) پر اٹھائےجائىں گے ىعنى نماز مىں جس کو اطمىنان و سکون حاصل ہوتا ہے اسى کے مطابق ان کا حشر ( ىعنى اٹھاىا جانا) ہوگا۔ (اللہ والوں کی باتیں،ج۱) 

آئیے ہم جانتے ہیں کہ خشوع وخضوع  کی نماز میں کیا اہمیت ہے؟اس سے پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ خشوع و خضوع کہتے کس کو ہیں؟

خشوع:

یعنی بدن میں عاجزی اور دل میں گڑ گڑانے کی کیفیت پیدا کرنا۔ نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی۔ ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی رعایت کی جائے مثلا نظر جائے نماز سے باہر اور آنکھ کے کنارے سے باہر نہ جائے، کسی طرف نہ دیکھے، آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے، کوئی بیکار کام نہ کرے، کوئی کپڑا کندھوں پر اس طرح نہ لٹکائے کے اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں، انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔ باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیش نظر ہو دنیا سے توجہ ہٹائی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہوں۔ (تفسیر صراط الجنان،ج 4 صفحہ 496)

علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نماز میں خشوع مستحب ہے۔ میرے آقا اعلی حضرت لکھتے ہیں: نماز کا کمال، نماز کا نور، نماز کی خوبی، فہم و تدبر و حضور قلب یعنی خشوع پر ہے۔ (فتاویٰ رضویہ, ج 4 صفحہ 205)

اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے : قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔(مؤمنون، 1،2)

تفسیر صراط الجنان جلد 6 صفحہ 494 پر ہے اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے۔ مزید صفحہ 496 پر ہے ایمان والے خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اس وقت ان کے دلوں میں اللہ کریم کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضا ساکن ہوتے ہیں

اللہ پاک ایسی نماز کی طرف نظر نہیں فرماتا جس میں بندہ اپنے جسم کے ساتھ دل کو حاضر نہ کریں (احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 475)

سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کے کھڑے ہو کر لوگوں سے ارشاد فرما رہے تھے:جو مسلمان اچھی طرح وضو کریں اور ظاہر و باطن کی یکسوئی کے ساتھ دو رکعتیں ادا کرے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے. (مسلم صفحہ 118 حدیث 553)

اپنے ہی بزرگ حضرت سید نہ مسلم بن یسار رحمۃ اللہ علیہ اس قدر توجہ کے ساتھ ہم اس پڑھتے کہ اپنے آس پاس کی کچھ خبر نہ ہوتی،ایک بار نماز میں مضبوط ہے کہ قریب آگ بھڑک اٹھی لیکن آپ کو احساس تک نہ ہوا کہ آگ بجھادی گئی. (اللہ والوں کی باتیں جلد 2 صفحہ 447)

حضرت سیدنا تنوخی رحمۃ اللہ علیہ جب نماز پڑھتےتو اس قدر روتے کہ رخسار یعنی ذال سے داڑھی پر مسلسل آنسو بھرتے رہتے۔ (احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 470)

ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں :سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اور ہم آپ سے گفتگو کررہے ہوتے لیکن جب نماز کا وقت ہوتا تو ہم ایسے ہو جاتے ہو یا آپ ہمیں نہیں پہچانتے اور ہم آپ کو نہیں پہچانتے. (احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 205)

حضرت سیدنا حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ سے ان کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا جب نماز کا وقت آ جاتا ہے ت میں پورا وضو کرتا ہوں پھر نماز کی جگہ آ کر بیٹھ جاتا ہوں یہاں تک کہ میرے تمام اعضاء پر سکون ہو جاتے ہیں پھر نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور کعبہ معظمہ کوابرؤوں کے سامنے پلصراط کو قدموں کے نیچے جنت کو سیدھے ہاتھ کی طرف اور جہنم کو الٹے ہاتھ کی طرف ملک الموت کو اپنے پیچھے خیال کرتا ہوں اور نماز کو اپنی آخری نماز کا تصور کرتا ہوں پھر امید اور خوف کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ حقیقتاً تکبیر تحریمہ کہتا ہوں قرآن کریم ٹھر ٹہر کر پڑھتا ہوں، رکوع تواضع یعنی عاجزی کے ساتھاور سجدہ خشوع کے ساتھ کرتا ہوں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھتا ہوں دایاں پاؤں کھڑا کرتا ہوں خوب اخلاص سے کام لینے کے باوجود یہی خوف رکھتا ہوں کہ نہ جانے میری نماز قبول ہوگی یا نہیں. (احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 206)

ہوں میری ٹوٹی پھوٹی نمازیں خدا قبول

ان دو کا صدقہ جن کو کہا شہ نے میرے پھول


خشوع کے معنی دل کا فعل اور ظاہری اعضا کا عمل یعنی اللہ پاک کی عظمت پیش نظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہو اور سکون سے کھڑا رہے، اِدھر اُدھر نہ دیکھے اپنے جسم اور کپڑوں کے ساتھ نہ کھیلے اور کوئی عبث و بے کار کام نہ کرے(ّتفسیر کیرج۸،، ص ۲۵۹)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نماز کا کمال ، نماز کا نور، نماز کی خوبی فہم و تدبر و حضور قلب (خشوع) پر ہے۔ (فتاوی رضویہ،4/205)

مطلب اعلیٰ درجے کی نماز وہ ہے جو خشوع کے ساتھ ادا کی جائے اس کی اہمیت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں جانتے ہیں۔اہل خشوع ہی مراد کو پہنچے اللہ پاک فرماتا ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔(مؤمنون، 1،2)

گناہوں کا کفارہ: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس مسلمان پر فرض نماز کا وقت آئے اور وہ اچھی طرح وضو کر کے خشوع کے ساتھ نماز پڑھے اور درست طریقے سے رکوع کرے تو نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے جب تک کہ وہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے اور یہ ہمیشہ کی (نماز میں) ہوتا ہے (مسلم صفحہ 14 جلد۔۔۔)

جنت واجب ہوجاتی ہے: سیدنا عقبہ بن رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کھڑے ہوئے اور یہ ارشاد فرما رہے تھے جو مسلمان اچھی طرح وضو کرے پھر ظاہر و باطن کی یکسوئی کے ساتھ دو رکعت ادا کرے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے (مسلم صفحہ 118 حدیث 553)

اللہ پاک ایسی نماز کی طرف نظر نہیں فرماتا : اللہ پاک ایسی نماز کی طرف نظر نہیں فرماتا جس میں بندہ اپنے جسم کے ساتھ دل کو حاضر نہ کریں (احیاء العلوم، جلد 1 صفحہ 475)

پوری رات عبادت سے بہتر: عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں اور فکر کے ساتھ دو رکعت نفل ادا کرنا غافل بدن کے ساتھ پوری رات قیام کرنے سے بہتر ہے (الزھد لابن مبارک باب الاعتبار التفکر، حدیث 288 صفحہ 98)

ایک بھی نماز نہیں پڑھی: مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے برسر منبر فرمایا بے شک حالت اسلام میں انسان کے رخساروں پر سفیدی آجاتی ہے , داڑھی سفید ہو جاتی ہے لیکن اس کے رضائے الہی کے لیے ایک بھی پوری نماز نہیں پڑھی ہوتی عرض کی گئی یہ کیسا ہے فرمایا وہ خوش و خضوع سے اللہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا (احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 532)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیشہ خوش و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


فرضی حکایت:

میں اپنی گفتگو کا آغاز ایک فرضی حکایت سے کرتی ہوں کہ اگر آپ کسی سے ہم کلام ہونا چاہتے ہیں تو آپ اپنی گفتگو میں میٹھاس پیدا کرتے ہیں اور اگر یہ جستجو رکھتے ہیں کہ سامنے والا بھی آپ سے اچھےسے ہم کلام ہو تو آپ اپنی گفتگو اور اچھے سے کرنے لگتے ہیں تاکہ سامنے والا ہماری طرف مخاطب ہو ، اسی طرح رب تبارک و تعالیٰ سے اگر آپ چاہتے ہیں کہ ر ب تبارک و تعالیٰ آپ کی طرف مخاطب ہو اور آپ سے کلام کرے تو اس کے لیے رب تبارک و تعالیٰ نے ہمارے لیے نماز کو فرض کرکے تحفے کی صورت میں بھیجا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ رب تبارک و تعالیٰ سے ہم کلام ہوں تو رب تبارک و تعالیٰ کو اپنے سامنے تصور باندھ کر نماز پڑھیں اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف زیادہ متوجہ ہو تو اس کے لیے آپ اپنی نماز میں خشوع خضوع پیدا کریں۔

خشوع کے متعلق فرامین باری تعالیٰ:

۱۔ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ(۱۴)

تَرجَمۂ کنز الایمان: اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔ (پ۱۶، طہٰ ۱۴)

۲۔یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْن۔تَرجَمۂ کنز الایمان:نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ جب تک اتنا ہوش نہ ہو جو کہو اسے سمجھو۔(پ ۵، النسا ۴۳)

احادیث مبارکہ :

حدیث مبارکہ کی روشنی میں خشوع و خضوع کے متعلق کچھ عرض کرتی ہوں:

اللہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ ایسی نماز کی طرف نظر نہیں فرماتا جس میں بندہ اپنے جسم کے ساتھ دل کو حاضر نہ کرے۔

نماز میں خشوع و خضوع کس طرح لائی جائے:

منقول ہے کہ حضرت سیدنا حاتم اصم علیہ الرَّحمہسے کسی نے ان کی نماز کی کیفیت کے بارے میں پوچھا تو فرمایا:

جب نماز کا وقت قریب آتا تو میں کامل وضو کرتے ہوں پھر جس جگہ نماز پڑھنے کا ارادہ ہوتا ہے وہاں آکر بیٹھ جاتا ہوں بیان تک کہ میرے تمام اعضا جمع ہوجاتے ہیں، پھر یہ تصور باندھ کر نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں کہ کعبۃ اللہ میرے سامنے، پل صراط پاؤں تلے، جنت میرے دائیں جانب ، جہنم بائیں طرف اور ملک الموت علیہ السَّلام میرے پیچھے ہیں اور گمان کرتا ہوں کہ یہ میری آخری نماز ہے پھر امید و خوف کی درمیانی حالت میں ہوتا ہوں پھر حقیقتاً تکبیر تحریمیہ کہتا ، ٹھہر ٹھر کر فراغت کرتا عاجزی کےساتھ رکوع اور خشوع کے ساتھ سجدہ کرتا ہوں پھر دائیں پہلو پرقعدہ کرتااور بایاں پاؤں بچھا کراس پر بیٹھ جاتا ہوں اور دائیں پاؤں کو انگوٹھے پر کھڑا کرتاہوں پھر اخلاص سے کا م لیتا ہوں اس کے بعد میں نہیں جانتا کہ میری نماز قبول ہوتی ہے یا نہیں۔

اللہ عزوجل ہمیں نماز میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔

اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن نماز ہے نماز دین کا ستون ہے اور مؤمن کی معراج ہے نماز کی معراج سجدہ ہے جبکہ نماز کی روح خشوع و خضوع ہے اس لئے نماز میں خشوع وخضوع کی بہت اہمیت ہے قرآن و حدیث میں اس کی تصریح کی گئی ہے اللہ کریم کا ارشاد ہے:

وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ(۱۴) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔ (پارہ16 ,طہ:14)

حدیث مبارکہ:

حضور نبی اکرم کا فرمان عالیشان ہے اللہ کریم اس نماز کو قبول نہیں فرماتا جس میں بندہ اپنے جسم کے ساتھ اپنے دل کو حاضر نہ کرے (حوالہ لباب الاحیاء ترجمہ بنام احیاء العلوم کا خلاصہ صفحہ نمبر 60)

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی یاد کے لیے نماز کو قائم کیا جائے اور نماز کو ظاہری و باطنی توجہ کے ساتھ ادا کیا جائے ورنہ نماز قبول نہیں ہوتی. خشوع و کا تعلق باطن سے ہے اور خضوع کا تعلق ظاہر سے ہے بس اللہ کے حضور باادب ہو جاؤ اور اپنے ظاہر و باطن کے ساتھ عاجزی اختیار کرو کیونکہ نماز کا کمال و نماز کا نور حضور قلب (خشوع) پر ہے۔ (فتویٰ رضویہ جلد 6 ص 205)

حکایت :

بعض صحابہ کرام علیہم الرضوان رکوع میں اتنے پرسکون ہوتے کہ ان پر چڑیاں بیٹھ جاتیں گویا کہ وہ بے جان چیزوں میں سے ہے ۔ (احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 228, 229)

صحابہ کرام کا نماز میں خشوع وخضوع اس کیفیت کا ہوتا تھا کہ بے جان محسوس ہوتے اسی طرح بعض تابعین کا نماز میں خشوع وخضوع کا یہ عالم ہوتا کہ ایک بار نماز پڑھتے ہوئے ایک بزرگ کو سو بار سانپ نے ڈنگ مارا لیکن آپ نے نماز نہیں توڑی اور ایک بزرگ نماز پڑھ رہے تھے کہ قریب ہی آگ لگ گئی مگر آپ اپنی نماز میں مشغول رہے.

خشوع و خضوع کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے امام ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے ایک بار تمام تر توجہ جمع کرکے خشوع و خضوع اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے آپ کو حاضر تصور کر (کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے) ہزار حج سے بہتر ہے. (رسالہ قشیریہ, ص 321)

مندرجہ بالا تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ نماز میں خشوع خضوع کی بہت اہمیت ہے اس کے علاوہ اللہ کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ نہیں کیاجاسکتا اور نماز جیسی عظیم عبادت کی قبولیت کا ذریعہ خشوع و خضوع ہے.

ہوں میری ٹوٹی پھوٹی نماز خدا قبول

ان دو کا صدقہ جن کو کہا شاہ نے میرے پھول


نماز مىں خشوع و خضوع

Tue, 2 Jun , 2020
3 years ago

فرمانِ مصطفى صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم:

جو مجھ پر اىک دن مىں پچاس بار درود پاک پڑھے قىامت کے دن مىں اس سے مصافحہ کروں گا۔ ( ابن بشکوال)

صلواعلى الحبیب صلى اللہ علىٰ محمد

خشوع کى تعرىف:

خشوع کے معنى ہىں دل کا فعل اور ظاہرى اعضا(ىعنى ہاتھ و پاؤں) کا عمل۔

دل کا فعل ، ىعنى اللہ پاک کى عظمت پىش نظر ہو، دنىا سے توجہ ہٹى ہوئى ہو اور نماز مىں دل لگا ہو۔

ظاہرى اعضا کا عمل، ىعنى سکون سے کھڑا رہے، ادھر ادھر نہ دىکھے اپنے جسم اور کپڑوں کے ساتھ نہ کھىلے اور کوئى عىب و بے کار کام نہ کرے۔ ( فىضانِ نماز ۲۸۲)

قرآن کى روشنى مىں :

اللہ کرىم پارہ ۱۸، سورہ المومنون کى آىت نمبر ۱ اور ۲ مىں ارشاد فرماتا ہے:

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)

تَرجَمۂ کنز الایمان: بے شک مراد کو پہنچے اىمان والے جو اپنى نماز مىں گڑ گڑاتے ہىں۔

تفسىر صراط الجنان جلد ۶،صفحہ ۴۹۴ پر ہے: اس آىت مىں اىمان والوں کو بشارت (ىعنى خوش خبرى دى گئى ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد مىں کامىاب ہوگئے اور ہمىشہ کے لىے جنت مىں داخل ہو کر ہر ناپسندىدہ چىز سے نجات پا جائىں گے۔

مزىد فرماتے ہىں کہ اىمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہىں اس وقت ان کے دلوں مىں اللہ کرىم کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضا ساکن ہوتے ہىں۔

مختصر حکاىات:

ام المومنىن حضرت عائشہ صدىقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتى ہىں کہ حضور پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم سے اورہم آپ سے گفتگو کررہے ہوتے لىکن جب نماز کا وقت ہوتا تو ( ہم اىسے ہوجاتے)گوىا کہ آپ ہمىں نہىں پہچانتے اور ہم آپ کو نہىں پہچانتے۔

امىر المومنىن حضرت سىدنا صدىق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز مىں اىسے ہوتے گوىا ( گڑى ہوئى ) مىخ(کھونٹى) ہىں۔

بعض صحابہ کرام علیہ الرضوان رکوع مىں اتنے پرسکون ہوتے کہ ان پر چڑىاں بىٹھ جاتىں گوىا کہ وہ جمادات ( بے جان چىزوں) مىں سے ہىں۔(احىا العلوم جلد۱)

حدىث مبارکہ:

بخارى شرىف کى اىک حدىث مىں ىہ بھى ہے۔حضرت سىدنا جبر ىل امىن علیہ السَّلام نے بارگاہ رسالت مىں عرض کى کہ احسان کىا ہے؟رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرماىا: احسان ىہ ہے کہ اللہ پاک کى عبادت اىسے کرو گوىا کہ تم اىسے دىکھ رہے ہو اگر ىہ نہ ہوسکے تو ىہ ىقىن رکھو کہ وہ تمہىں دىکھ رہا ہے ۔(بخارى ج ۱، ص ۳۱، حدىث ۵۰)

خشوع پىدا کرنے والى چىزىں :

ہمىں خشوع و خضوع حاصل کرنے کے لىے خوب کوشش کرنى اور اسے پانے کےلىے خوب گڑگڑا کر دعائىں مانگنى چاہئیں۔

ہمارے پىارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم دعا مانگاکرتے:اللھم انى اعوذ بک من قلب لا یخشع،اے اللہ مىں اس دل سے تىرى پناہ چاہتا ہوں جو خشوع اختىار نہ کرے۔

ا۔ علم نافع سے دل مىں خشوع بىدار ہوتا ہے ۲۔ بھوک پىاس ہو تو و مٹالىجئے ۳۔نماز مىں جو کچھ پڑھتے ہىں اس کے معنى پر نظر رکھئے۔

خشوع سے دور کرنے والى چىزىں:

۱۔ دل کى سختى ۲۔نماز مىن ادھر ادھر دىکھنا ۳۔ نماز مىں سستى کرنا ۴۔ قراٰت اچھے طرىقے سے نہ کرنا۔

ىارب مصطفى عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمىں پانچ وقت کى نماز خشوع و خضوع سے پڑھنے کى توفىق عطا فرما۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

خشوع کے معنى دل کا فعل اور ظاہرى اعضا کا عمل۔

دل کا فعل ىعنى اللہ پاک کى عظمت پىش نظر ہو دنىا سے توجہ ہٹى ہو اور نماز مىں دل لگا ہو اور ظاہرى اعضا کا عمل ىعنى سکون سے کھڑا رہے ادھر ادھر نہ دىکھے اپنے جسم اور کپڑوں سے ساتھ نہ کھىلے اور کوئى عبث و بے کار کام نہ کرے۔( تفسىر کبىر ج ۸ص۲۰۹)

اللہ پاک اىسى نماز کى طرف نظر نہىں فرماتا جس مىں بندہ اپنے جسم کے ساتھ دل کو حاضر نہ کرے۔ (احىا العلوم ج ۱ ص ۱۸۰)

حکاىت:

اکثر صحابہ کرام علیہمُ الرِّضوان فرماتے ہىں کہ بروز قىامت لوگ نماز والى کىفىت پر اٹھائے جائىں گے ىعنى نماز مىں جس کو جتنا اطمىنان و سکون حاصل ہوتا ہے اسى کے مطابق ان کا حشر ہوگا۔(فىضان نماز ج۱)

حضرت سىدنا امام ابو حامد محمد بن محمد غزالى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہفرماتے ہىں کہ جب نمازى نما ز کے دوران التحیات مىں السلام علیک ایہا النبى کہے تصور مىں ذاتِ پاک مصطفى صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تشرىف فرماسمجھتے ہوئے عرض کرے السلام علیک ایھا النبى ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ىعنى اے نبى آپ پر سلام اور اللہ پاک کى رحمتىں ہوں اور اس کى برکتىں ۔

آقا کے تصور نے جىنے کا مزہ بخشا

مىں کىسے کہوں جىنا دشوار نظر آہے

نماز مىں خشوع و خضوع پىدا کرنے والے اسباب :

ترمذى ج ۵، ص ۲۹۳ حدىث نمبر ۳۴۹۳،

اے اللہ مىں اس دل سے تىرى پناہ لىتا ہوں جو خشوع اختىار نہ کرے۔

نماز مىں خشوع و خضوع لانے کے ۱۱ مدنى پھول:

۱۔جو بھى شے خلل یعنی رکاوٹ ہو ممکنہ صورت مىں اسے دور کردىجئے۔

۲۔جو نماز ادا کررہے ہوں اسے اپنى زندگى کى آخرى نماز تصور کىجئے۔

۳۔ىہ ذہن بنائىں رکھىں کہ اللہ مجھے دىکھ رہا ہے۔

۴۔ دوران نماز تلاوت مىں تجوىد کے ضرورى قواعد پر عمل کىجئے۔

۵۔ نماز مىں جو کچھ پڑھتے ہىں اس کے معانى پر نظر کىجئے۔

۶۔ نماز کے فرائض واجبات سنن و مستحبات اچھى طرح بجالائىے۔

۷۔ سورۃ الفاتحہ کے بعد پڑھى جانے والى سورتىں بد ل بدل کر پڑھئے۔

۸۔ نقش و نگار والے مصلے پر نماز پڑھنے سے بچىے۔

۹۔ شور و غل سے بچنے کى ترکىب کىجئے۔

۱۰۔ سامنے والى دىوار پر نقش و نگار ہو اور دھىان بٹتا ہو تو جگہ بدل دىجئے۔

۱۱۔ قىام مىں سجدے کى جگہ نظر رکھىں اور ىہ تصور دل مىں جمائے رکھىں کہ ہم مٹى سے بنے ہىں اور مٹى مىں ہى جانا ہے رکوع مىں قدموں پر نظر رکھىں اور ىہ تصور دل مىں جمائىں کہ ہمارى روح قدموں سے نکلنا شروع ہوگئى ہے۔ اور قعدے مىں گود مىں نظر رکھىں اور یہ تصور دل مىں جمائىں کہ ہم نے دنىا سے خالى گود جانا ہے اس سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نماز مىں خشوع پىدا ہوگا۔

پارہ ۱۸ سورہ المومنىن کى آىت نمبر:۱ ااور ۲ مىں ارشاد ہوتا ہے :

تَرجَمۂ کنز الایمان: بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنى نماز مىں گڑ گڑاتے ہىں۔

اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہىں نماز کا کما ل نماز کا نور نماز کى خوبى فہم و تدبر حضور قلب( ىعنى خشوع) پر ہے۔

فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ اس طرح خشوع سے نماز ادا فرماتے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہىں کہ مىں نے امىر المومنىن حضرت سىدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پىچھے نماز پڑھى مىں نے تىن صفوں کے پىچھے سے آپ کے رونے کى آواز سنى۔

(حلیۃ الاولىا ج ۱، ص ۸۸)

امام اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مسجد مىں نماز پڑھ رہے تھے اىک سانپ چھت سے گرا لوگ ادھر ادھر بھاگ گئے لىکن آپ بدستور نماز مىں مشغول رہے اور آپ کو کچھ پتا نہىں چلا۔

(تفسىر کبىر ج۱، ص ۱۳)

فھم و شعور کے ساتھ ادا کی جانے والی نماز اک ایسی عبادت ہے کہ جس کا حکم دینے والا ربِّ کریم عزّوجل اور ادا فرمانے والے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔نماز میں موجود قیام ،قراءت،رکوع و سجوداور قعدہ وغیرہ تمام چیزیں نماز کا جسم ہیں جبکہ نماز کی روح خشوع و خضوع ہے۔جب خداوندِ قدوس نے اپنے کلامِ پاک میں ایک جگہ ایمان والوں کے اوصاف کو بیان کرنا شروع کیا تو سب سے پہلا وصف "نماز میں خشوع و خضوع "بیان فرمایا۔ چنانچہ رب تعالیٰ نےارشاد فرمایا: الَّذِیۡنَ ہُمْ فِیۡ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نمازمیں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ ۱۸،المؤمنون:03 (

یعنی کہ ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں،اس وقت ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں۔)مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲ ص۷۵۱(

نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی،ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے مثلاً:دورانِ نماز نظرادہر ادہر نہ جائے حتیٰ کہ آنکھوں کے کنارے بھی کچھ نہ دیکھیں،کوئی عبث و بیکار کام بھی نہ ہونے پائے، کوئی کپڑا شانوں پر بھی اس طرح نہ لٹکایا ہوکہ اس کے دونوں کنارے لٹکے ہوئے ہوں ،انگلیاں نہ چٹخائےاور اس کے علاوہ دیگر حرکات سے بھی باز رہےجبکہ باطنی خشوع یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت پیش ِنظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اورنماز میں دل لگا ہواہو۔(خلاصہ صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲، ۴/۱۳۵۶ (

اوراگر سیرتِ صحابہ و بزرگانِ دین کامطالعہ کیا جائے توبےشمارایسے واقعات ملتے ہیں کہ جو اس آیت میں مذکور وصف کے اعلیٰ نمونے ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں’’جب صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ نماز پڑھتے تو وہ اپنی نماز کی طرف متوجہ رہتے، اپنی نظریں سجدہ کرنے کی جگہ پر رکھتے تھے اور انہیں یہ یقین ہوتا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ انہیں دیکھ رہا ہے اور وہ دائیں بائیں توجہ نہیں کرتے تھے۔) در منثور، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲، ۶/۸۴ (

بہرحال ’’صحیح نماز‘‘ خشوع و خضوع اور اِنکساری کا ہی نام ہے اور یہی قبولیت ِنماز کی علامت ہے کیونکہ جیسے جوازِ نمازکی شرائط ہیں اِسی طرح قبولیت نماز کی بھی شرائط ہیں،جواز کی شرائط"فرائض" کا ادا کرنا اور قبولیت نماز کی شرائط میں خشوع اورتقویٰ سرِ فہرست ہیں۔جیساکہ حضور علیہ الصلوۃ السلام نے ارشادفرمایا: جس نے کامل خشوع سے دورکعت نماز ادا کی، وہ گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے جیسے پیدائش کے دن پاک تھا۔)المعجم الاوسط۴/۳۷۹، الحدیث ۶۳۰۶(

اللہ کریم ہمیں بھی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نماز مىں خشوع و خضوع کا آنا اىک عظىم نعمت ہے جو ہر کسى کو مىسر ہو نہىں پاتى، جو بندہ نماز کو خشوع و خضوع کے ساتھ بجالائے اسے سکون دل اور اطمىنان قلب نصىب ہوتا ہے۔ اور وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا قرب پالىنے مىں کامىاب ہوجاتا ہے، ىہ عظىم چىز ہمىں کس طرح ملے آئىے! قرآن و حدىث کى روشنى مىں دىکھتے ہىں۔

اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)

تَرجَمۂ کنز الایمان:بے شک مراد کو پہنچے اىمان والے جو اپنى نماز ىں گڑ گڑاتے ہىں۔

تفسىر صراط الجنان جلد ۶ صفحہ ۴۹۴ پر ہے،اس آىت مىں اىمان والوں کو بشارت (خوشخبرى) دى گئى کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد مىں کامىاب ہوگئے اور ہمىشہ کے لىے جنت مىں داخل ہو کر ہر ناپسندىدہ چىز سے نجات پاجائىں گے، مزىد صفحہ نمبر 496 پر ہے کہ اىمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہىں اس وقت ان کے دلوں مىں اللہ کرىم کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضا ساکن یعنی ٹھرے ہوئے پرسکون ہوجاتے ہىں

خشوع کى تعرىف :

خشوع کے معنى ہىں دل کا فعل اور ظاہر اعضا(یعنی ہاتھ پاؤں) کا عمل،

دل کا فعل ىعنى اللہ پاک کى عظمت پىش نظر ہو دنىا سے توجہ ہٹى ہوئى ہو اور نماز مىں دل لگا لو اور ظاہر ى اعضا کا عمل یعنی سکون سے کھڑا ہو ادھر ادھر نہ دىکھے اپنے جسم ىا کپڑے سے نہ کھىلے اور کوئى بے کار کام نہ کرے ۔

نماز مىں خشوع و خضوع کى اہمىت :

نماز مىں خشوع کا ہونا کس قدر ضرورى ہے، نىز جو شخص نماز کو اىک عادت کى طرح پڑھے اس کے ارکان صحىح طرىقے سے پورا نہ کرے اس کے لىے حدىث شرىف مىں کىا آىا ہے ملاحظہ کرتے ہىں،چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے رواىت ہے کہ نبى کرىم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالى شان ہے، جو نمازىں اپنے وقت مىں ادا کر ے اور نماز کے لىے اچھى طرح وضو کرے اور اس کے قىام و خشوع و رکوع و سجود پورے کرے توا س کى نماز سفىد اور روشن ہو کر ىہ کہتى ہوئى نکلتى ہے: اللہ پاک تىرى حفاظت فرمائےجس طرح تو نے مىرى حفاظت کى، اور جو شخص نماز بے وقت ادا کرے اور اس کے لىے کامل (اچھى طرح) وضو نہ کرے اور اس کے خشوع و رکوع اور سجدے پورے نہ کرے تو وہ نماز سىاہ تارىک ( کالى اندھیرى)ہو کر ىہ کہتى ہوئى نکلتى ہے:اللہ پاک تجھے ضائع کرے جس طرح تو نے مجھے ضائع کىا، ىہاں تک کہ اللہ پاک جہاں چاہتا ہے وہ نماز اس جگہ پہنچ جاتى ہے، پھر وہ بوسىدہ (پھٹے پرانے کپڑے) کى طر ح لپىٹ کر اس نماز ى کے منہ پر مار دى جاتى ہے۔(معجم الاوسط ۲، ص ۲۲۲، حدىث ۲۰۹۵)

دنىا سے جانے والے کى طرح نماز پڑھے: فرمانِ مصطفى صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب تم مىں سے کوئى نماز پڑھے تو رخصت ہونے والے شخص کى طرح ىہ گمان رکھ کر نماز پڑھے کہ اب کبھى نماز نہىں پڑھ سکے گا۔

نماز کے وقت اپنے ہر شے کو الواد کہہ دے :حضرت امام محمد بن محمد بن محمد غزالى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس حدىث پاک کے تحت فرماتے ہىں کہ اس شخص کى طرح نماز پڑھ جو اپنے نفس کو رخصت کرتا ہو، اپنى خواہشات سے کوچ کرتا ہو اور اپنى زندگى کو الوداع کہتا ہو، اپنے مولا کى طرف جارہا ہو۔

(احىا العلوم ج،۱ ص۲۰۵)

حضرت سىدنا بکر بن عبداللہ مزنى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہفرماتے ہىں جو اگر تم ىہ چاہتے ہو کہ تمہارى نماز نفع پہنچائے تو نماز شروع کرنے سے قبل ىہ کہو ، شاىد مىں اس نماز کے بعد دوبارہ نماز نہىں پڑھ سکوں گا(قصر الامل مع موسوى الامام ابن ابى دنىا ج ۳، ص ۳۲۸، رقم ۱۰۴)

ىہ مىرى زندگى کى آخرى نماز ہے :

نماز کے وقت موت کوىاد کىا جائے اور ىہ ذہن بناىا جائے کہ ىہ مىرى زندگى کى آخرى نماز ہے ،

فرمانِ مصطفى صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اپنى نماز مىں موت کو ىاد کرو، کىونکہ جب کوئى شخص اپنى نماز مىں موت کو ىاد کرے گا تو وہ ضرور عمدہ انداز مىں نماز پڑھے گا اوراس شخص کى طرح نماز پڑھے جسے امىد نہ ہو کہ وہ دوسرى نماز ادا کرسکے۔

(کنزالعمال ج ۷، ص ۲۱۲، حدىث ۲۰۰۷۵۶)

پىارے اسلامى بھائىو! ىقىنا ہر نمازی کى کوئى نہ کوئى نماز تو آخرى نماز ہوگى ہى، لہذا ہر نماز مىں موت آجائے تو نہاىت سعادت کى بات ہے اسى ضمن مىں اىک بزرگ کا واقعہ ملاحظہ کرتے ہىں۔

حضرت حاتم اصم کى نماز :

حضرت سىدنا حاتم اصم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے ان کى نماز کے بارے مىں پوچھا گىا تو فرماىا:

جب نماز کا وقت ہوجاتا ہے تو مىں پورا وضو کرتا ہوں پھر نماز کى جگہ آکر بىٹھا جاتا ہوں ، ىہاں تک کہ مىرے تمام اعضا ( بدن کے سب حصے) پرسکون ہوجاتے ہىں، پھر نماز کے لىے کھڑا ہوتا ہوں اور کعبہ معظمہ کو ابروؤں کے سامنے پل صراط کو قدموں کے نىچے جنت کو سىدھے ہاتھ کى طرف اور جہنم کو الٹے ہاتھ کى طرف ملک الموت علیہ السَّلام کو اپنے پىچھے خىال کرتا ہوں اور اس نماز کو اپنى آخرى نماز سمجھتا ہوں پھر امىد و خوف کى ملى جلى کىفىت کے ساتھ حقىقتا تکبىر تحرىمہ کہتا ہوں قرآ ن کرىم ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا ہوں، رکوع تواضع (عاجزى ) کے ساتھ اور سجدہ خشوع کے ساتھ کرتا ہوں۔

باىاں پاؤں بچھا کر اس پر بىٹھتا ہوں ، داىاں پاؤں کھڑا کرتا ہوں ، خوب اخلاص سے کا م لىنے کے باوجود ىہى خوف رکھتا ہوں کہ نہ جانے مىرى نماز قبول ہوگى ىا نہىں۔(احىا العلوم ج ۱، ص۲۰۴)

مىٹھے اسلامى بھائىو! مذکورہ فرامىن سے ہمىں معلوم ہوتا ہے کہ خشوع و خضوع کا ہونا نہاىت ضرورى ہے نماز کو صرف اىک عادت سا سمجھ کر پڑھنا اس کا حق نہىں، بلکہ اس کو صحىح طرىقے سے اس خشوع کے ساتھ اس کے تمام ارکان رکوع و سجوع و غىرہ ادا کرنا اس کا حق ہے۔

اللہ کرىم ہمىں ان برگانِ دىن کے صدقے ہمىں بھى نماز مىں خشوع و خضوع کى عظىم نعمت عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲))پ:۱۸، المومنون:۲،۱)

تَرجَمۂ کنز الایمان: بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑ گڑاتے ہیں۔

تعریف:

خشوع و خضوع کیا ہے؟ بارگاہِ الٰہی میں حاضری کے وقت دل کا لگ جانا یا بارگاہ الٰہی میں دلوں کو جھکا دینا۔

احادیث:

حضرت سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ تعالٰی عنہسے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اے اللہ! میں اس دل سے پناہ مانگتا ہوں کہ جس میں خشوع نہ ہو۔(صحیح مسلم شریف)

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہسے مر وی ہے کہ پیارے آقا علیہ السَّلام نے فرمایا : بڑا چور وہ ہے جو نماز کی چوری کرتا ہے صحابہ کرام علیہ الرضوان نے عرض کی نماز میں چوری کس طرح کرتا ہے فرمایا وہ نمازکے رکوع سجود تمام نہیں کرتا۔( مشکوة، رواہ احمد ص۸۳)

خشوع کے بغیر نماز بے کار ہے !بے خشوع نماز نمازی کے منہ پر مار دی جاتی ہے اس کے بغیر نماز مکمل نہیں ہوتی اور اس پر آسمانوں کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور گندے کپڑے میں لپیٹ کر نمازی کے منہ پر ماردی جاتی ہے۔

بزرگوں کا عمل :

بعض بزرگوں کے متعلق منقول ہے کہ انہوں نے اللہ پاک سے حیا کرتے ور اس سے ڈرتے ہوئے چالیس سال تک آسمان کی طرف سر نہیں اٹھایا۔

فضائل : خشوع والوں کی فضیلت قرآن میں بیان کی گئی ہے،

خشوع کے ساتھ دو رکعت ادا کرنا بغیر خشوع کے ساری رات کے قیام سے افضل ہے

خشوع روزی میں برکت کا مضبوط ذریعہ ہے۔

خشوع سے نماز اد اکرنے والا رب کے قریب ہوتا ہے۔

اقسام: خشوع کی تین اقسام ہیں۔

۱۔تمام اعضا کا حالت سکون میں رکھنا، قیام میں نظر سجدہ کے مقام پر، رکوع میں پاؤں پر، سجدہ میں نظر سجدہ میں ناک پر اور تشہد کے وقت گود میں رکھنا خشوع شریعت کہلاتا ہے۔

۲۔ نماز میں اللہ کے سوا کائنات کی ہر چیز سے رشت ہ توڑ لینا دوزخ اور جنت سے بھی ذہن صاف کررلینا خشوع و خضوع کہلاتا ہے۔

۳۔ خشوع کی تیسری قسم یہ ہے کہ اس طرح عبادت کرنا کہ کسی چیزکی خبر نہ ہو۔

خشوع پیدا کرنے کے طریقے:

بزرگوں کے خشوع کے واقعات کو پڑھا جائے اس کے لیے احیاء العلوم کا مطالعہ مفید رہے گا۔

جنت اور جہنم کا تصور بھی خشوع پیدا کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔

اعمال میں خشوع پیدا کرنے کے لیےضروری ہے کہ اپنی آنکھوں کی حفاظت کی جائے۔

خشوع کے حصول کے لئے دعا کی جئے۔

بسا اوقا ت دل میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں جن سے دل می خشوع پیدا نہیں ہوتا، لہذا ان کے اسباب پر غور کیجئے۔

مدنی انعامات کا اپنے آپ کو عامل بنائیے اور روزانہ غور و فکر کیجئے۔

اللہ پاک اپنے مقبولین کے صدقے ہمیں بھی خشوع خضوع عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔(مؤمنون، 1،2)

علما نے فرماىا ہے کہ خشوع دو معنوں مىں مستعمل ہے، بعض علما نے اسے افعال قلب مىں شمار کىا ہے، جىسے ڈر، خوف ، انبساط وغىرہ اور بعض نے اسے اعضائے ظاہرى کے افعال مىں شمار کىا ہے جىسے اطمىنان سے کھڑا ہونا، بے توجىہى اور بے پروائى سے بچنا وغىرہ، (صفحہ نمبر۹۸)

نماز صحىح:

صحىح نماز خشوع و خضوع اور انکسارى کا نام ہے اور ىہى قبولىت نماز کى علامت ہے کىونکہ جىسے جواز نماز کى شرائط ہىں اسى طرح قبولىت نماز کى بھى شرائط ہىں، جواز کى شرائط فرائض کا ادا کرنا اور قبولىت نماز کى شرائط مىں خشوع اور تقوىٰ سرفہرست ہىں۔(صفحہ نمبر ۱۴۳)

فرمانِ نبوى ہے:جس نے کامل خشوع سے دو رکعت نماز ادا کى وہ گناہوں سے اىسا پاک ہوجاتا ہے جىسے پىدائش کے دن پاک تھا (صفحہ ۱۴۴)

حضرت ابن عباس رضى اللہ تعالىٰ عنہ کا قول ہے، خضوع و خشوع کى دو رکعتىں سىاہ دل والے کى سارى رات کى عبادت سے بہتر ہىں،(صفحہ نمبر ۱۰۱)

بعض صحابہ کرام رضى اللہ تعالىٰ عنہم کا قول ہے، انسان نماز مىں جس قدر سکون و اطمىنان اورلذت و سرور حاصل کرتا ہے اسى قدر قىامت کے دن وہ پرسکون ہوگا۔(صفحہ نمبر۱۴۳)

خشوع و خضوع سے نماز ادا کرنے والوں کى صفات:

اللہ تعالىٰ نے نماز مىں خشوع و خصوع رکھنے والوں کى تعرىف متعدد آىات مىں کى ہىں۔

فرمانِ الہى ہے۔ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)۔ ترجمہ کنزالاىمان ۔ اپنى نماز مىں گڑ گڑاتے ہىں۔(پ ۱۸، المومنون ۲)

عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)تَرجَمۂ کنز الایمان: اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔(المؤمنون ، ۹)

عَلٰى صَلَاتِهِمْ دَآىٕمُوْنَﭪ(۲۳) ترجمہ کنزالاىمان : اپنى نماز کے پابند ہوں ۔(پ ۲۹، المعارج ۲۲)

حکاىت :

حضرت خلف بن اىوب رحمۃ اللہ علیہ نماز مىں تھے کہ انہىں کسى جانور نے کاٹ لىا اور خون بہنے لگا مگر انہىں محسوس نہ ہوا ىہاں تک کہ ابن سعىد باہر آئے اور انہوں نے آپ کو بتاىا اور خون آلود کپڑا دھوىا، پوچھا گىا آپ کو جانور نے کاٹ لىا اور خون بھى بہا مگر آ پ کو محسوس نہ ہوا، آپ نے جواب دىا۔ اسے کىسے محسوس ہوگا جو اللہ ذوالجلال کے سامنے کھڑا ہو، اس کے پىچھے ملک الموت ہو، بائیں طرف جہنم اور قدموں کے نىچے پل صراط ہو ۔

حضرت عمرو بن ذر رحمۃ اللہ علیہ جلىل القدر عابد اور زاہد تھے ان کے ہاتھ مىں اىک اىسا زخم پڑ گىا کہ اطبّا نے کہا اس ہاتھ کو کاٹنا پڑے گاآپ نے کہا کاٹ دو، اطبّا نے کہا، آپ کو رسىوں سےجکڑے بغىر اىسا کرنا ممکن نہىں۔ آپ نے کہا، اىسا نہ کرو بلکہ جب مىں نماز شروع کروں، تب کاٹ لىنا چنانچہ جب آپ نے نماز شروع کى تو آپ کا ہاتھ کاٹ لىا گىا، مگر آپ کو محسوس بھى نہ ہوا۔ ( کتاب مکاشفۃ القلوب)