فھم و شعور کے ساتھ ادا کی جانے والی نماز اک ایسی عبادت ہے کہ
جس کا حکم دینے والا ربِّ کریم عزّوجل اور ادا فرمانے والے پیارے
حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔نماز میں موجود قیام ،قراءت،رکوع و سجوداور قعدہ وغیرہ تمام چیزیں نماز کا جسم
ہیں جبکہ نماز کی روح خشوع و خضوع ہے۔جب خداوندِ قدوس نے اپنے کلامِ پاک
میں ایک جگہ ایمان والوں کے اوصاف کو بیان کرنا شروع کیا تو
سب سے پہلا وصف "نماز میں خشوع و خضوع "بیان فرمایا۔ چنانچہ رب تعالیٰ
نےارشاد فرمایا: الَّذِیۡنَ ہُمْ فِیۡ صَلَاتِہِمْ خٰشِعُوۡنَ
ۙ﴿۲﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نمازمیں خشوع و خضوع کرنے والے
ہیں۔ (پ ۱۸،المؤمنون:03 (
یعنی کہ ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ
نماز ادا کرتے ہیں،اس وقت ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں۔)مدارک،
المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲ ص۷۵۱(
نماز
میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی،ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی
مکمل رعایت کی جائے مثلاً:دورانِ نماز نظرادہر ادہر نہ جائے حتیٰ کہ آنکھوں کے
کنارے بھی کچھ نہ دیکھیں،کوئی عبث و بیکار کام بھی نہ ہونے پائے، کوئی کپڑا شانوں پر بھی اس طرح نہ لٹکایا ہوکہ اس کے دونوں کنارے
لٹکے ہوئے ہوں ،انگلیاں نہ چٹخائےاور اس کے علاوہ دیگر حرکات سے بھی باز رہےجبکہ
باطنی خشوع یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی
عظمت پیش ِنظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اورنماز میں دل لگا ہواہو۔(خلاصہ صاوی،
المؤمنون، تحت الآیۃ: ۲، ۴/۱۳۵۶ (
اوراگر سیرتِ صحابہ و بزرگانِ دین کامطالعہ
کیا جائے توبےشمارایسے واقعات ملتے ہیں کہ جو اس آیت میں مذکور وصف کے اعلیٰ
نمونے ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن عمررَضِیَ اللّٰہُ
عَنْہُمَا فرماتے ہیں’’جب صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ نماز پڑھتے تو وہ اپنی نماز کی
طرف متوجہ رہتے، اپنی نظریں سجدہ کرنے کی جگہ پر رکھتے تھے اور انہیں یہ یقین ہوتا
تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ انہیں دیکھ رہا ہے اور وہ دائیں
بائیں توجہ نہیں کرتے تھے۔) در منثور، المؤمنون،
تحت الآیۃ: ۲، ۶/۸۴ (
بہرحال ’’صحیح نماز‘‘ خشوع و خضوع اور
اِنکساری کا ہی نام ہے اور یہی قبولیت ِنماز کی علامت ہے کیونکہ جیسے جوازِ نمازکی
شرائط ہیں اِسی طرح قبولیت نماز کی بھی شرائط ہیں،جواز کی شرائط"فرائض" کا
ادا کرنا اور قبولیت نماز کی شرائط میں خشوع اورتقویٰ سرِ فہرست ہیں۔جیساکہ حضور علیہ
الصلوۃ السلام نے ارشادفرمایا: جس نے کامل خشوع سے دورکعت نماز ادا کی، وہ گناہوں
سے ایسا پاک ہوجاتا ہے جیسے پیدائش کے دن پاک تھا۔)المعجم
الاوسط۴/۳۷۹، الحدیث ۶۳۰۶(