فرضی حکایت:
میں اپنی گفتگو کا آغاز ایک فرضی حکایت سے کرتی
ہوں کہ اگر آپ کسی سے ہم کلام ہونا چاہتے ہیں تو آپ اپنی گفتگو میں میٹھاس پیدا
کرتے ہیں اور اگر یہ جستجو رکھتے ہیں کہ سامنے والا بھی آپ سے اچھےسے ہم کلام ہو
تو آپ اپنی گفتگو اور اچھے سے کرنے لگتے ہیں تاکہ سامنے والا ہماری طرف مخاطب ہو ،
اسی طرح رب تبارک و تعالیٰ سے اگر آپ چاہتے ہیں کہ ر ب تبارک و تعالیٰ آپ کی طرف مخاطب ہو اور آپ سے کلام کرے تو اس
کے لیے رب تبارک و تعالیٰ نے ہمارے لیے نماز کو فرض کرکے تحفے کی صورت میں بھیجا
ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ رب تبارک و تعالیٰ سے ہم کلام ہوں تو رب تبارک و
تعالیٰ کو اپنے سامنے تصور باندھ کر نماز پڑھیں اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کی
طرف زیادہ متوجہ ہو تو اس کے لیے آپ اپنی
نماز میں خشوع خضوع پیدا کریں۔
خشوع کے متعلق فرامین باری تعالیٰ:
۱۔ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ(۱۴)
تَرجَمۂ کنز الایمان: اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔ (پ۱۶، طہٰ ۱۴)
۲۔یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْن۔تَرجَمۂ کنز الایمان:نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ جب تک اتنا
ہوش نہ ہو جو کہو اسے سمجھو۔(پ ۵، النسا ۴۳)
احادیث مبارکہ :
حدیث مبارکہ کی روشنی میں خشوع و خضوع کے متعلق کچھ
عرض کرتی ہوں:
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے
محبوب صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ ایسی
نماز کی طرف نظر نہیں فرماتا جس میں بندہ اپنے جسم کے ساتھ دل کو حاضر نہ کرے۔
نماز میں خشوع و خضوع کس طرح لائی جائے:
منقول ہے کہ حضرت سیدنا حاتم اصم علیہ الرَّحمہسے کسی نے ان کی نماز کی کیفیت کے بارے میں
پوچھا تو فرمایا:
جب نماز
کا وقت قریب آتا تو میں کامل وضو کرتے ہوں پھر جس جگہ نماز پڑھنے کا ارادہ ہوتا ہے وہاں آکر بیٹھ جاتا ہوں بیان تک کہ
میرے تمام اعضا جمع ہوجاتے ہیں، پھر یہ
تصور باندھ کر نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں کہ کعبۃ اللہ میرے سامنے، پل صراط
پاؤں تلے، جنت میرے دائیں جانب ، جہنم بائیں
طرف اور ملک الموت علیہ السَّلام میرے پیچھے ہیں اور گمان کرتا ہوں کہ یہ میری
آخری نماز ہے پھر امید و خوف کی درمیانی حالت میں ہوتا ہوں پھر حقیقتاً تکبیر
تحریمیہ کہتا ، ٹھہر ٹھر کر فراغت کرتا عاجزی کےساتھ رکوع اور خشوع کے ساتھ سجدہ کرتا ہوں پھر دائیں پہلو
پرقعدہ کرتااور بایاں پاؤں بچھا کراس پر بیٹھ جاتا ہوں اور دائیں پاؤں کو انگوٹھے
پر کھڑا کرتاہوں پھر اخلاص سے کا م لیتا ہوں اس کے بعد میں نہیں جانتا کہ میری نماز قبول ہوتی ہے یا نہیں۔