نماز مىں خشوع و خضوع کا آنا اىک عظىم نعمت ہے جو ہر کسى کو مىسر ہو نہىں پاتى، جو بندہ نماز کو خشوع و خضوع کے ساتھ بجالائے اسے سکون دل اور اطمىنان قلب نصىب ہوتا ہے۔ اور وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کا قرب پالىنے مىں کامىاب ہوجاتا ہے، ىہ عظىم چىز ہمىں کس طرح ملے آئىے! قرآن و حدىث کى روشنى مىں دىکھتے ہىں۔

اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)

تَرجَمۂ کنز الایمان:بے شک مراد کو پہنچے اىمان والے جو اپنى نماز ىں گڑ گڑاتے ہىں۔

تفسىر صراط الجنان جلد ۶ صفحہ ۴۹۴ پر ہے،اس آىت مىں اىمان والوں کو بشارت (خوشخبرى) دى گئى کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد مىں کامىاب ہوگئے اور ہمىشہ کے لىے جنت مىں داخل ہو کر ہر ناپسندىدہ چىز سے نجات پاجائىں گے، مزىد صفحہ نمبر 496 پر ہے کہ اىمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہىں اس وقت ان کے دلوں مىں اللہ کرىم کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضا ساکن یعنی ٹھرے ہوئے پرسکون ہوجاتے ہىں

خشوع کى تعرىف :

خشوع کے معنى ہىں دل کا فعل اور ظاہر اعضا(یعنی ہاتھ پاؤں) کا عمل،

دل کا فعل ىعنى اللہ پاک کى عظمت پىش نظر ہو دنىا سے توجہ ہٹى ہوئى ہو اور نماز مىں دل لگا لو اور ظاہر ى اعضا کا عمل یعنی سکون سے کھڑا ہو ادھر ادھر نہ دىکھے اپنے جسم ىا کپڑے سے نہ کھىلے اور کوئى بے کار کام نہ کرے ۔

نماز مىں خشوع و خضوع کى اہمىت :

نماز مىں خشوع کا ہونا کس قدر ضرورى ہے، نىز جو شخص نماز کو اىک عادت کى طرح پڑھے اس کے ارکان صحىح طرىقے سے پورا نہ کرے اس کے لىے حدىث شرىف مىں کىا آىا ہے ملاحظہ کرتے ہىں،چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے رواىت ہے کہ نبى کرىم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالى شان ہے، جو نمازىں اپنے وقت مىں ادا کر ے اور نماز کے لىے اچھى طرح وضو کرے اور اس کے قىام و خشوع و رکوع و سجود پورے کرے توا س کى نماز سفىد اور روشن ہو کر ىہ کہتى ہوئى نکلتى ہے: اللہ پاک تىرى حفاظت فرمائےجس طرح تو نے مىرى حفاظت کى، اور جو شخص نماز بے وقت ادا کرے اور اس کے لىے کامل (اچھى طرح) وضو نہ کرے اور اس کے خشوع و رکوع اور سجدے پورے نہ کرے تو وہ نماز سىاہ تارىک ( کالى اندھیرى)ہو کر ىہ کہتى ہوئى نکلتى ہے:اللہ پاک تجھے ضائع کرے جس طرح تو نے مجھے ضائع کىا، ىہاں تک کہ اللہ پاک جہاں چاہتا ہے وہ نماز اس جگہ پہنچ جاتى ہے، پھر وہ بوسىدہ (پھٹے پرانے کپڑے) کى طر ح لپىٹ کر اس نماز ى کے منہ پر مار دى جاتى ہے۔(معجم الاوسط ۲، ص ۲۲۲، حدىث ۲۰۹۵)

دنىا سے جانے والے کى طرح نماز پڑھے: فرمانِ مصطفى صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب تم مىں سے کوئى نماز پڑھے تو رخصت ہونے والے شخص کى طرح ىہ گمان رکھ کر نماز پڑھے کہ اب کبھى نماز نہىں پڑھ سکے گا۔

نماز کے وقت اپنے ہر شے کو الواد کہہ دے :حضرت امام محمد بن محمد بن محمد غزالى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس حدىث پاک کے تحت فرماتے ہىں کہ اس شخص کى طرح نماز پڑھ جو اپنے نفس کو رخصت کرتا ہو، اپنى خواہشات سے کوچ کرتا ہو اور اپنى زندگى کو الوداع کہتا ہو، اپنے مولا کى طرف جارہا ہو۔

(احىا العلوم ج،۱ ص۲۰۵)

حضرت سىدنا بکر بن عبداللہ مزنى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہفرماتے ہىں جو اگر تم ىہ چاہتے ہو کہ تمہارى نماز نفع پہنچائے تو نماز شروع کرنے سے قبل ىہ کہو ، شاىد مىں اس نماز کے بعد دوبارہ نماز نہىں پڑھ سکوں گا(قصر الامل مع موسوى الامام ابن ابى دنىا ج ۳، ص ۳۲۸، رقم ۱۰۴)

ىہ مىرى زندگى کى آخرى نماز ہے :

نماز کے وقت موت کوىاد کىا جائے اور ىہ ذہن بناىا جائے کہ ىہ مىرى زندگى کى آخرى نماز ہے ،

فرمانِ مصطفى صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اپنى نماز مىں موت کو ىاد کرو، کىونکہ جب کوئى شخص اپنى نماز مىں موت کو ىاد کرے گا تو وہ ضرور عمدہ انداز مىں نماز پڑھے گا اوراس شخص کى طرح نماز پڑھے جسے امىد نہ ہو کہ وہ دوسرى نماز ادا کرسکے۔

(کنزالعمال ج ۷، ص ۲۱۲، حدىث ۲۰۰۷۵۶)

پىارے اسلامى بھائىو! ىقىنا ہر نمازی کى کوئى نہ کوئى نماز تو آخرى نماز ہوگى ہى، لہذا ہر نماز مىں موت آجائے تو نہاىت سعادت کى بات ہے اسى ضمن مىں اىک بزرگ کا واقعہ ملاحظہ کرتے ہىں۔

حضرت حاتم اصم کى نماز :

حضرت سىدنا حاتم اصم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے ان کى نماز کے بارے مىں پوچھا گىا تو فرماىا:

جب نماز کا وقت ہوجاتا ہے تو مىں پورا وضو کرتا ہوں پھر نماز کى جگہ آکر بىٹھا جاتا ہوں ، ىہاں تک کہ مىرے تمام اعضا ( بدن کے سب حصے) پرسکون ہوجاتے ہىں، پھر نماز کے لىے کھڑا ہوتا ہوں اور کعبہ معظمہ کو ابروؤں کے سامنے پل صراط کو قدموں کے نىچے جنت کو سىدھے ہاتھ کى طرف اور جہنم کو الٹے ہاتھ کى طرف ملک الموت علیہ السَّلام کو اپنے پىچھے خىال کرتا ہوں اور اس نماز کو اپنى آخرى نماز سمجھتا ہوں پھر امىد و خوف کى ملى جلى کىفىت کے ساتھ حقىقتا تکبىر تحرىمہ کہتا ہوں قرآ ن کرىم ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا ہوں، رکوع تواضع (عاجزى ) کے ساتھ اور سجدہ خشوع کے ساتھ کرتا ہوں۔

باىاں پاؤں بچھا کر اس پر بىٹھتا ہوں ، داىاں پاؤں کھڑا کرتا ہوں ، خوب اخلاص سے کا م لىنے کے باوجود ىہى خوف رکھتا ہوں کہ نہ جانے مىرى نماز قبول ہوگى ىا نہىں۔(احىا العلوم ج ۱، ص۲۰۴)

مىٹھے اسلامى بھائىو! مذکورہ فرامىن سے ہمىں معلوم ہوتا ہے کہ خشوع و خضوع کا ہونا نہاىت ضرورى ہے نماز کو صرف اىک عادت سا سمجھ کر پڑھنا اس کا حق نہىں، بلکہ اس کو صحىح طرىقے سے اس خشوع کے ساتھ اس کے تمام ارکان رکوع و سجوع و غىرہ ادا کرنا اس کا حق ہے۔

اللہ کرىم ہمىں ان برگانِ دىن کے صدقے ہمىں بھى نماز مىں خشوع و خضوع کى عظىم نعمت عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم