اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن نماز ہے نماز
دین کا ستون ہے اور مؤمن کی معراج ہے نماز کی معراج سجدہ ہے جبکہ نماز کی روح خشوع
و خضوع ہے اس لئے نماز میں خشوع وخضوع کی بہت اہمیت ہے قرآن و حدیث میں اس کی تصریح
کی گئی ہے اللہ کریم کا ارشاد ہے:
وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ(۱۴) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔ (پارہ16 ,طہ:14)
حدیث مبارکہ:
حضور نبی
اکرم کا فرمان عالیشان ہے اللہ کریم اس نماز کو قبول نہیں فرماتا جس میں بندہ اپنے جسم
کے ساتھ اپنے دل کو حاضر نہ کرے (حوالہ لباب الاحیاء ترجمہ بنام احیاء العلوم کا
خلاصہ صفحہ نمبر 60)
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی یاد کے لیے نماز کو قائم کیا جائے اور نماز کو ظاہری
و باطنی توجہ کے ساتھ ادا کیا جائے ورنہ نماز قبول نہیں ہوتی. خشوع و کا تعلق باطن
سے ہے اور خضوع کا تعلق ظاہر سے ہے بس اللہ کے حضور باادب ہو جاؤ اور اپنے ظاہر و باطن کے
ساتھ عاجزی اختیار کرو کیونکہ نماز کا کمال و نماز کا نور حضور قلب (خشوع) پر ہے۔
(فتویٰ رضویہ جلد 6 ص 205)
حکایت :
بعض صحابہ کرام علیہم الرضوان رکوع میں اتنے پرسکون ہوتے کہ ان پر چڑیاں بیٹھ جاتیں گویا کہ وہ بے جان چیزوں میں سے ہے ۔
(احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 228, 229)
صحابہ کرام کا نماز میں خشوع وخضوع اس کیفیت کا
ہوتا تھا کہ بے جان محسوس ہوتے اسی طرح
بعض تابعین کا نماز میں خشوع وخضوع کا یہ عالم ہوتا کہ ایک بار نماز پڑھتے ہوئے ایک
بزرگ کو سو بار سانپ نے ڈنگ مارا لیکن آپ نے نماز نہیں توڑی اور ایک بزرگ نماز پڑھ
رہے تھے کہ قریب ہی آگ لگ گئی مگر آپ اپنی نماز میں مشغول رہے.
خشوع و خضوع کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے امام
ابوالقاسم قشیری
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :حضرت
حسن بصری رحمۃ
اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے ایک بار
تمام تر توجہ جمع کرکے خشوع و خضوع اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے آپ کو حاضر تصور کر (کہ اللہ
مجھے دیکھ رہا ہے) ہزار حج سے بہتر ہے. (رسالہ قشیریہ, ص 321)
مندرجہ بالا تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ نماز میں
خشوع خضوع کی بہت اہمیت ہے اس کے علاوہ اللہ
کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ نہیں کیاجاسکتا اور نماز جیسی عظیم عبادت کی قبولیت کا
ذریعہ خشوع و خضوع ہے.
ہوں میری ٹوٹی پھوٹی نماز خدا
قبول
ان دو کا صدقہ جن کو کہا شاہ نے میرے
پھول