اللہ پاک نے ہمیں اپنی عبادت کیلیے پیدا فرمایا ہے۔ عبادتیں بہت
طرح کی ہیں۔ اعضائے بدن سے کی جانے والی
عبادت، زبان سے کی جانے والی، اور دل سے کی جانے والی عبادت۔ نماز وہ پیاری عبادت
ہے کہ اس میں یہ تینوں عبادات کی صورتیں پائی جاتی ہیں۔ رکوع، سجود، قیام، اور
قعود اعضاء بدن سے ہوتے ہیں۔ ذکر و درود، تسبیح و تکبیر، اور تلاوت زبان سے ادا
ہوتے ہیں۔ اور نماز کی نیت، اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضری کا تصور، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا تصور سلام عرض
کرتے ہوئے، اور خشوع و خضوع (یعنی عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے )، دل سے ادا ہوتا ہے۔
نماز میں خشوع و خضوع ان تمام میں سب پر فوقیت رکھتا ہے
کیونکہ اس میں اکثر چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں
کہ میرے آقا اعلی حضرت رحمة الله عليه فرماتے ہیں : نماز کا
کمال نماز کا نور، نماز کی خوبی فہم و
تدبر و حضور قلب(یعنی خشوع و خضوع) پر ہے۔ امیر اہلسنت اس فرمان کو نقل کرنے
کے بعد فرماتے ہیں : مطلب یہ کہ اعلی درجے
کی نماز وہ ہے جو خشوع کے ساتھ ادا کی جائے۔(فیضان نماز، ص 282)
ایک بات یہ بھی ہے کہ مومن وہ ہے جو اپنی نماز میں خشوع کو اپنائے۔ جیساکہ اللہ کریم سورة المؤمنون کی آیت نمبر 1
اور 2 میں ارشاد فرماتا ہے :
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)
تَرجَمۂ کنز الایمان: بیشک مراد کو پہنچے
ایمان والےجو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں ۔
ہمازے بزرگان دین رحمة الله
عليهم نماز میں خشوع و خضوع سے واقف تھے۔ ان کی نماز میں حالتیں
وہ ہوتی تھیں کہ مثال نہیں ملتی۔ ان کے چند واقعات میرے پیر طریقت مولانا الیاس
قادری صاحب کی کتاب فیضان نماز سے پیش کرتا ہوں۔
(1) حضرت عائشہ صدیقہ رضي
الله عنها فرماتی ہیں : سرکار نامدار صلى الله عليه وسلم ہم سے اور ہم آپ سے
گفتگو کر رہے ہوتے لیکن جب نماز کا وقت ہوتا تو (آپ ایسے ہوجاتے)گویا آپ ہمیں نہیں پہچانتے اور ہم
آپ کو نہیں پہچانتے۔ (فیضان نماز ص 283)
(2) تابعی بزرگ حضرت سیدنا مسلم بن یسار رحمة الله عليه اس قدر توجہ کے ساتھ
نماز پڑھتے کہ اپنے آس پاس کی بھی خبر نہ ہوتی، ایک بار نماز میں مشغول تھے کہ
قریب آگ بھڑک اٹھی لیکن آپ کو احساس تک نہ ہوا حتی کہ آگ بجھادی گئی۔ (ص 282)
(3) حضرت سیدنا عبد
اللہ بن مبارک رحمة الله عليه فرماتے ہیں : بچپن میں دیکھی ہوئی ایک عبادت گزار خاتون
مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔ انہیں بچھو نے چالیس ڈنک مارے مگر ان کی حالت میں ذرا بھی
فرق نہ آیا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئیں تو میں نے کہا : اماں! اس بچھو کو آپ نے
ہٹایا کیوں نہیں؟ جواب دیا : صاحبزادے! ابھی تم بچے ہو، یہ کیسے مناسب تھا! میں تو
اپنے رب کے کام میں مشغول تھی، اپنا کام کیسے کرتی؟ (ص 294)