آئیے ہم
جانتے ہیں کہ خشوع وخضوع کی نماز میں کیا
اہمیت ہے؟اس سے پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ
خشوع و خضوع کہتے کس کو ہیں؟
خشوع:
یعنی بدن میں عاجزی اور دل میں گڑ گڑانے کی کیفیت
پیدا کرنا۔ نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی۔ ظاہری خشوع یہ ہے کہ
نماز کے آداب کی رعایت کی جائے مثلا نظر جائے نماز سے باہر اور آنکھ کے کنارے سے
باہر نہ جائے، کسی طرف نہ دیکھے، آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے، کوئی بیکار کام نہ
کرے، کوئی کپڑا کندھوں پر اس طرح نہ لٹکائے کے اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں، انگلیاں
نہ چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔ باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیش نظر ہو دنیا سے توجہ
ہٹائی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہوں۔ (تفسیر صراط الجنان،ج 4 صفحہ 496)
علامہ بدر
الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
نماز میں خشوع مستحب ہے۔ میرے آقا اعلی
حضرت لکھتے ہیں: نماز کا کمال، نماز کا نور، نماز کی خوبی، فہم و تدبر و حضور قلب یعنی
خشوع پر ہے۔ (فتاویٰ رضویہ, ج 4 صفحہ 205)
اللہ
کریم
ارشاد فرماتا ہے : قَدْ
اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)تَرجَمۂ
کنز الایمان:
بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔(مؤمنون، 1،2)
تفسیر صراط
الجنان جلد 6 صفحہ 494 پر ہے اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک
وہ اللہ پاک کے فضل
سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ
چیز سے نجات پا جائیں گے۔ مزید صفحہ 496 پر ہے ایمان والے خشوع وخضوع کے ساتھ نماز
ادا کرتے ہیں اس وقت ان کے دلوں میں اللہ کریم
کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضا ساکن ہوتے ہیں
اللہ
پاک
ایسی نماز کی طرف نظر نہیں فرماتا جس میں بندہ اپنے جسم کے ساتھ دل کو حاضر نہ کریں
(احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 475)
سیدنا عقبہ بن عامر رضی
اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے اللہ پاک
کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے
دیکھا کے کھڑے ہو کر لوگوں سے ارشاد فرما رہے تھے:جو مسلمان اچھی طرح وضو کریں اور
ظاہر و باطن کی یکسوئی کے ساتھ دو رکعتیں ادا کرے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی
ہے. (مسلم صفحہ 118 حدیث 553)
اپنے ہی بزرگ
حضرت سید نہ مسلم بن یسار رحمۃ اللہ علیہ اس
قدر توجہ کے ساتھ ہم اس پڑھتے کہ اپنے آس پاس کی کچھ خبر نہ ہوتی،ایک بار نماز میں
مضبوط ہے کہ قریب آگ بھڑک اٹھی لیکن آپ کو احساس تک نہ ہوا کہ آگ بجھادی گئی. (اللہ والوں کی باتیں جلد 2 صفحہ 447)
حضرت سیدنا
تنوخی رحمۃ اللہ علیہ جب نماز
پڑھتےتو اس قدر روتے کہ رخسار یعنی ذال سے داڑھی پر مسلسل آنسو بھرتے رہتے۔ (احیاء
العلوم جلد 1 صفحہ 470)
ام
المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ
فرماتی ہیں :سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اور ہم آپ سے گفتگو
کررہے ہوتے لیکن جب نماز کا وقت ہوتا تو ہم ایسے ہو جاتے ہو یا آپ ہمیں نہیں
پہچانتے اور ہم آپ کو نہیں پہچانتے. (احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 205)
حضرت سیدنا
حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ سے ان کی
نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا جب نماز کا وقت آ جاتا ہے ت میں پورا وضو
کرتا ہوں پھر نماز کی جگہ آ کر بیٹھ جاتا ہوں یہاں تک کہ میرے تمام اعضاء پر سکون
ہو جاتے ہیں پھر نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور کعبہ معظمہ کوابرؤوں کے سامنے پلصراط
کو قدموں کے نیچے جنت کو سیدھے ہاتھ کی
طرف اور جہنم کو الٹے ہاتھ کی طرف ملک الموت کو اپنے پیچھے خیال کرتا ہوں اور نماز
کو اپنی آخری نماز کا تصور کرتا ہوں پھر امید اور خوف کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ حقیقتاً
تکبیر تحریمہ کہتا ہوں قرآن کریم ٹھر ٹہر
کر پڑھتا ہوں، رکوع تواضع یعنی عاجزی کے ساتھاور سجدہ خشوع کے ساتھ کرتا ہوں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھتا
ہوں دایاں پاؤں کھڑا کرتا ہوں خوب اخلاص
سے کام لینے کے باوجود یہی خوف رکھتا ہوں کہ نہ جانے میری نماز قبول ہوگی یا نہیں.
(احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 206)
ہوں
میری ٹوٹی پھوٹی نمازیں خدا قبول
ان
دو کا صدقہ جن کو کہا شہ نے میرے پھول