خشوع خضوع کى اہمىت 

Tue, 2 Jun , 2020
3 years ago

آئىے! ہم جانتے ہىں کہ خشوع خضوع کى اہمىت کىا ہے اس سے پہلے ہم ىہ دىکھىں گے کہ خشوع خصوع کہتے کس کو ہىں؟

خشوع: ىعنى بدن مىں عاجزى اور خضوع ىعنى دل مىں گڑگڑانے کى کىفىت ظاہر کرنا۔ نماز مىں خشوع خضوع ظاہر ى بھى ہوتا ہے اور باطنى بھى۔

ظاہر ی خشوع ىہ ہے کہ نماز کے آداب کى تکمىل رعاىت کى جائے مثلاً نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسى طرف نہ دىکھے، آسمان کى طرف نظر نہ اٹھائے، کوئى عبث و بىکار کام نہ کرے، کوئى کپڑا شانوں ( ىعنى کندھوں پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں، انگلىاں نہ چٹخائے اور اس قسم کى حرکات سے باز رہے ۔

باطنى خشوع ىہ ہے کہ اللہ پاک کى عظمت پىش نظر ہو، دنىا سے توجہ ہٹى ہوئى ہو اور نماز مىں دل لگا ہوا۔(صراط الجنان ج ۴، ص ۴۹۶)

علامہ بدر الدىن عىنى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہىں: نماز مىں خشوع مستحب ہے۔

مىرے آقا اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہىں کہ نماز کا کمال ، نماز کا نور، نماز کى خوبى فہم و تدبر و حضور قلبِ (ىعنى خشوع) پر ہے۔(فتاوىٰ رضوىہ ج ۶ ص ۲۰۵)

اللہ کرىم پارہ ۱۸ سورہ المومنون کى آىت نمبر 1اور2 مىں ارشاد فرماتا ہے:

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)

تَرجَمۂ کنز الایمان: بے شک مراد کو پہنچے اىمان والے جو اپنى نماز مىں گڑگڑاتے ہىں۔

تفسىر صراط الجنان جلد ۶ صفحہ ۴۹۴پر ہے: اس آىت مىں اىمان والوں کو بشارت دى گئى ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد مىں کامىاب ہوگئے اور ہمىشہ کے لىے جنت مىں داخل ہو کر ہر ناپسندىدہ چىز سے نجات پاجائىں گے۔

مزید صفحہ ۴۹۶ پر ہے کہ اىمان والے خشوع و خصوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہىں اس وقت ان کے دلوں مىں اللہ کرىم کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضا ساکِن ہوتے ہىں۔

اللہ پاک اىسى نماز کى طرف نظر نہىں فرماتا جس مىں بندہ اپنے جسم کے ساتھ کے ساتھ دل کو حاضر نہ کرے( احىا ءالعلوم، مترجم، ج ۱ص ۸۷۰)

حضرت سىدنا عقبہ بن عاصم رضی اللہ تعالٰی عنہ بىان کرتے ہىں، مىں اللہ پاک کے پىارے حبىب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دىکھا کہ آپ کھڑے ہو کر لوگوں سے ىہ ارشاد فرمارہے ہىں :

جو مسلمان اچھى طرح وضو کرے پھر ظاہر و باطن کى ىکسوئى کے ساتھ دو رکعتىں ادا کرے تو اس کے لىے جنت واجب ہوجاتى ہے۔(مسلم ص ۱۱۸، حدىث ۵۵۳)

تابعى بزرگ حضرت سىدنا مسلم بن کبار رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس قدر توجہ کے ساتھ نماز پڑھتے کہ اپنے آس پاس کى کچھ خبر نہ ہوتى، اىک بار نماز مىں مشغول تھے کہ قرىب آگ بھڑک اٹھى لىکن آپ کو احساس تک نہ ہوا یہاں تک کہ آگ بجھا دی گئی۔

(اللہ والوں کی باتیں،ج۳ ص۴۴۷)

حضرت سىدنا تنوحى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہجب نماز پڑھتے تو اس قدر روتے کہ رخسار (ىعنى گال ) سے داڑھى پر مسلسل آنسو گرتے رہتے۔(احىا ء العلوم، مترجم، ج۱، ص ۴۷۰)

صحابىہ اُم المومنىن حضرت سىدنا عائشہ صدىقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتى ہىں:سرکارِ مدىنہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم سے اور ہم آپ سے گفتگو کررہے ہوتے لىکن جب نماز کا وقت ہوتا تو ( ہم اىسے ہوجاتے) گوىا آپ ہمىں نہىں پہچانتے اور ہم آپ کو نہىں پہچانتے۔(احىاء العلوم، مترجم، ج ۱، ص ۲۰۵)

حضرت سىدنا حاتم اصم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے ان کى نماز کے بارے مىں پوچھا گىا تو فرماىا: جب نماز کا وقت ہوجاتا ہے تو مىں پورا وضو کرتا ہوں، پھر نماز کى جگہ آکر بىٹھ جاتا ہوں ىہاں تک کہ مىرے تمام اعضا پرسکون ہوجاتے ہىں، پھر نماز کے لىے کھڑا ہوتا ہوں اور کعبہ معظمہ کوآبروؤں کے سامنے، پل صراط کو قدموں کے نىچے، جنت کو سىدھے ہاتھ کى طرف اور جہنم کو الٹے ہاتھ کى طرف، ملک الموت کو اپنے پىچھے خىال کرتا ہوں اور اس نماز کو اپنى آکرى نماز تصور کرتا ہوں پھر امىد و خوب کى ملى جُلى کىفىت کے ساتھ حقىقتاً تکبىر تحرىمہ کہتا ہوں، قرآن کرىم کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا ہوں رکوع تواضُع (ىعنى عاجزى) کے ساتھ اور سجدہ خشوع کے ساتھ کرتا ہوں، باىاں پاؤں بچھا کر اس پر بىٹھتا ہوں داىاں پاؤں کھڑا کرتا ہوں، خوب اخلاص سے کام لىنے کے باوجود ىہى خوف رکھتا ہوں کہ نہ جانے مىرى نماز قبول ہوگى ىا نہىں۔(احىا العلوم ج ۱، ص ۲۰۶)

ہوں مىرى ٹوٹى پھوٹى ہوئى نمازىں خدا قبول

اُن دو کا صدقہ جن کو کہاشہ نے مىرے پھول