حضرت نوح علیہ السلام کا تعارف:
آپ علیہ السلام کا اسم گرامی یشکر یا عبدالغفار اور لقب نوح
ہے، نیز طوفان کے بعد چونکہ آپ علیہ السلام سے نسل انسانی چلی اس لیے آدم ثانی
کہلاتے ہیں اور آپ علیہ السلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی طرف بھیجے جانے
والے پہلے رسول ہیں آپ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بہت عظیم اوصاف سے نوازا اور
آپ علیہ السلام پر بہت سے انعامات فرمائے۔
آپ علیہ السلام کی بعثت:
حضرت ادریس علیہ السلام کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کے بعد
رفتہ رفتہ بت پرستی کی وبا عام ہو گئی کفر و ضلالت کے اندھیروں میں گھرے ان لوگوں
کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے اللہ تعالی نے حضرت نوح علیہ السلام کو رسول بنا کر
بھیجا صحیح قول کے مطابق اس وقت آپ علیہ السلام کی عمر مبارک چالیس سال تھی۔
تبلیغ کا فرمانے پر قوم کی نافرمانی:
اللہ تعالی نے حضرت نوح علیہ السلام کو تبلیغ کا حکم ارشاد
فرمایا چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: انا ارسلنا نوحا الی قومہ ان انذر
قومک من قبل ان یأتیھم عذاب الیم۔
ترجمہ
کنز الایمان: بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ ان کو ڈرا اس
سے پہلے کہ ان پر دردناک عذاب آئے۔(پ29،نوح:1)از سیرت الانبیاء
آپ علیہ السلام نے حکم الہی کی تعمیل کرتے ہوئے تبلیغ
فرمائی تو تبلیغ کے جواب میں قوم نے نافرمانی اور سرکشی کا مظاہرہ کیا، آپ علیہ
السلام کو جھوٹا قرار دیا، توحید کو ماننے اور شرک کوچھوڑنے سے انکار کر دیا،اور
اس کے علاوہ دھمکی دی کہ اگر تم اپنی وعظ و نصیحت اور دین کی دعوت سے باز نہ آئے
تو ہم تمہیں پتھر مار مار کر قتل کر دیں گے اس انکار و تکذیب اور دھمکیوں کے ساتھ
آپ علیہ السلام کی شان میں گستاخانہ جملے بھی کہنے لگے آگے قوم کے سخت ناروا سلوک
کے باوجود آپ علیہ السلام انہیں توحید پر ایمان لانے اور عبادت الہی کی دعوت دیتے
رہے اور قوم کے جہالت سفاہت سے بھر پور
جواب سن کر کمال کا مظاہرہ کرتے رہے۔
قوم کا نافرمانی پر ڈٹے رہنا:
قوم نے آپ علیہ السلام پر اعتراضات وارد کیے تو آپ علیہ
السلام نے انہیں غور و فکر کی دعوت دی اور اعتراضات کے جواب دیے اور آپ علیہ
السلام سے عذاب الہی کا مطالبہ کیا تو آپ علیہ السلام نے انہیں تنبیہ فرمائی نیز
ان لوگوں نے آپ علیہ السلام سے متکبرانہ کلام کیا اور آپ علیہ السلام کو سنگساری
کی دھمکی دی اور آپ علیہ السلام کی بات نہ مانی اور 80 افراد کے علاوہ کسی نے
ایمان قبول نہ کیا،جب معلوم ہو گیا کہ اب مزید کوئی شخص ایمان نہیں لائے گا تب آپ
علیہ السلام نے بارگاہ الہی میں مناجات کیں پھر آپ کی دعا قبول ہوئی اور کفار اپنی
نافرمانیوں کے سبب انجام کو پہنچے۔
روز قیامت قوم کا انکار:
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قیامت کے دن حضرت نوح علیہ السلام کو لایا جائے گا،ان سے کہا جائے گا: آپ نے تبلیغ
کی تھی؟وہ عرض کریں گے: ہاں یا رب! پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا: کیا تمہیں
تبلیغ کی گئی تھی؟وہ کہیں گے: ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا-فرمایا جائے گا:
اے نوح! تمہارے گواہ کون ہیں؟عرض کریں گے: محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
اور ان کی امت-حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر تمہیں لایا جائے
گا،تم گواہی دو گے کہ انہوں نے تبلیغ کی تھی- (بخاری،کتاب الاعتصام بالکتاب
والسنۃ،باب قولہ تعالی:(وکذلک جعلناکم امۃ...الخ) ، 520/4،حدیث:7349.)از سیرت
الانبیاء
محترم قارئین! قرآن مجید اور احادیث طیبہ میں پچھلی قوموں
اور ان کے حالات کا ذکر ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ احکامات الہی کی نافرمانی دنیا
اور آخرت میں ذلت و رسوائی کا باعث ہے لہذا عبرت حاصل کرنی چاہیے اور نصیحت حاصل
کرتے ہوئے نافرمانی سے بچتے رہنا چاہیے رب کریم ہمیں اپنے احکامات پر عمل پیرا
رہنے کی سعادت سے سرفراز فرمائے اور دنیا اور آخرت میں ذلت و رسوائی سے بچائے آمین
بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم