اللہ پاک نے ہر قوم کی طرف کسی نہ کسی نبی کو مبعوث فرمایا،  تاکہ قوم ہدایت پا جائے، مگر دیگر قوم کی طرح حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی نافرمانی کی، حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو خدا کا پیغام سناتے رہے، مگر ان کی بدنصیب قوم ایمان نہیں لائی، بلکہ طرح طرح سے آپ کی تحقیر و تذلیل کرتی رہی اور کسی قسم قسم کی اذیتوں اور تکلیفوں سے آپ کو ستاتی رہی، یہاں تک کہ کئی بار ان ظالموں نے آپ کو اس قدر زدوکوب کیا کہ آپ کو مردہ خیال کر کے کپڑوں میں لپیٹ کر مکان میں ڈال دیا، مگر آپ پھر مکان سے نکل کر دین کی تبلیغ فرمانے لگے، اسی طرح بارہا آپ کا گلا گھونٹتے رہے، یہاں تک کہ آپ کا دم گھٹنے لگا اور آپ بے ہوش ہو جاتے ہیں مگر ان ایذاؤں اور مصیبتوں پر بھی آپ یہی دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے میرے پروردگار! تو میری قوم کو بخش دے اور ہدایت عطا فرما، کیونکہ یہ مجھ کو نہیں جانتے۔اور قوم کا یہ حال تھا کہ ہر بوڑھا باپ اپنے بچوں کو یہ وصیّت کرکے مرتا تھا کہ نوح علیہ السلام بہت پرانے پاگل ہیں، اس لئے کوئی ان کی باتوں کو نہ سنے اور ان کی باتوں پر دھیان دے، یہاں تک کہ ایک دن یہ وحی نازل ہوئی کہ اے نوح!اب تک جو لوگ مؤمن ہو چکے ہیں، ان کے سوا اور دوسرے لوگ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے، آپ نے اس قوم کی ہلاکت کے لئے دعا فرمادی، اللہ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ایک کشتی تیار کریں، جب آپ کشتی بنانے میں مصروف تھے تو آپ کی قوم آپ کا مذاق اڑاتی تھی، کوئی کہتا کہ اے نوح!اب تم بڑھئی بن گئے، حالانکہ پہلے تم کہا کرتے تھے کہ میں خدا کا نبی ہوں، کوئی کہتا اے نوح!اس خشک زمین میں تم کشتی کیوں بنا رہے ہو؟ کیا تمہاری عقل ماری گئی ہے، غرض طرح طرح کا مذاق اور بدزبانیاں اور طعنہ بازیاں کرتے رہتے تھے، آپ ان کے جواب میں یہی فرماتے تھے کہ آج تم ہم سے مذاق کرتے ہو، لیکن گھبراؤ مت، جب خدا کا عذاب بصورتِ طوفان آ جائے گا تو ہم تمہارا مذاق اڑائیں گے، پھر جب طوفان آیا تو طوفان میں کشتی والوں کے سوا ساری قوم اور کل مخلوق غرق ہو کر ہلاک ہوگئی۔(عجائب القران، صفحہ نمبر 316۔318)اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا ایمان سلامت رکھے۔آمین