حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالی کے بہت ہی برگزیدہ نبی
گزرے ہیں، آپ کی عمر بہت لمبی تھی، آپ تقریباً ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو
دینِ حق کا پیغام پہنچاتے رہے، مگر اس کے
باوجود وہ غافل اور نافرمان قوم آپ کی نبوت پر ایمان نہ لائی، بلکہ آپ کو مختلف طریقے سے اذیتیں دے کر شیطانی کردار ادا کرتی رہی، کئی بار ایسا بھی ہوا اس ظالم قوم نے اللہ کے
اس مقدس نبی حضرت نوح علیہ السلام کو اس قدر تکلیف پہنچائی کہ آپ کو بے ہوش کر دیا
اور آپ کو مُردہ خیال کرکے کپڑے میں لپیٹ کر مکان میں ڈال دیا، مگر اس کے باوجود
آپ مسلسل ان کے حق میں دعا فرماتے، اللہ
تعالی کے غضب سے بچانے کے لئے آپ ان کے
لئے دعائے خیر کرتے، آپ فرماتے" اے میرے ربّ! تو میری قوم کو معاف فرما دے
اور ان کو ہدایت عطا فرما، جب اس قوم کی
نافرمانیاں حد سے تجاوز کر گئیں، تو اللہ
تعالی نے حضرت نوح علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی اور حکم ارشاد فرمایا:اے نوح
علیہ السلام!اب تک جو لوگ مؤمن ہو چکے ہیں، ان کے سوا دوسرے لوگ تم پر ایمان ہرگز
نہیں لائیں گے، لہذا آپ ایک کشتی تیار کر
یں، حکمِ الٰہی سُنتے ہی آپ کشتی تیار کرنے لگے، جو اسّی گزلمبی پچاس گز چوڑی تھی، سو سال تک کی مسلسل جدوجہد کے بعد لکڑی کی
تاریخی کشتی تیار ہوئی۔
جب آپ کشتی بنانے میں مصروف تھے تو آپ کی نافرمان قوم آپ کا
مذاق اُڑاتی، کوئی کہتا اے نوح! تم بڑھئی
کب سے بن گئے، کوئی یہ کہتا اے نوح!اس
زمین پر کیا تم کشتی چلاؤگے؟
کیا تمہاری عقل ماری گئی ہے؟(نعوذ باللہ)غرض طرح طرح سے آپ
کا مذاق اڑایا جاتا، آپ ان کے جواب میں صرف یہی فرماتے کہ اے نافرمانوں!آج تم میرا مذاق اڑا رہے ہو، جب خدا کا عذاب طوفان کی شکل میں آئے گا تو پھر
تمہیں حقیقت کا پتہ چلے گا۔( صاوی جلد دوئم، صفحہ 182تا183)
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کا پیشہ:
حضرت نوح علیہ السلام کے والد کا نام شیث تھا، آپ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے اس وقت مبعوث
فرمایا، جب بتوں کی عبادت اور شیطانوں کی
اطاعت شروع ہوچکی تھی، لوگ کُفر اور گمراہی میں مبتلا ہو چکے تھے تو
یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کلامِ مقدس میں بارہا مقامات
پر بُتوں کی پوجا سے روکا گیا ہے اور ان کی مذمت اور بے بسی کا جابجا ذکر کیا گیا
ہے کہ نفع اور نقصان کا تعلق ان سے نہیں اور نہ ہی یہ کسی کا نفع کرسکتے ہیں، جب ان کی ماندگی کا یہ عالم ہے کہ اپنے اُوپر
سے مکھی کو بھی نہیں اُڑا سکتے، تو تمہارا
نفع اور نقصان کیا کر سکتے ہیں، تو اس کی
ابتداء کیسے ہوئی؟
ابنِ جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند کے ساتھ محمد بن قیس
سے روایت کی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام کے درمیان کچھ نیک
لوگ تھے اور ان کے پیروکار ان کی اقتداء کرتے تھے، جب وہ نیک لوگ فوت ہو
گئے تو ان کے پیروکاروں نے کہا: کہ اگر ہم ان کی تصویریں بنائیں، تو اس سے ہماری عبادت میں زیادہ ذوق و شوق ہوگا، سو انہوں نے ان نیک لوگوں کی تصویریں بنادیں، جب وہ فوت ہوگئے اور ان کی دوسری نسل آئی تو ابلیس ملعون نے ان کے دل میں یہ خیال ڈالاکہ ان کے آباء
تصویروں کی عبادت کرتے تھے اور اسی سبب سے ان پر بارش ہوئی، سو انہوں نے ان تصویروں کی عبادت کرنا شروع کر دی۔
وَد، یغوث، یعوق،
سر غ، نسر، ود تمام نیک تھے، امام ابنِ حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے اِمام باقر رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کی
کہ وَد ایک نیک شخص تھا اور وہ اپنی قوم میں بہت محبوب تھا، جب وہ فوت ہو گیا تو اس کی قوم کے لوگ بابل کی
سر زمین میں اس کی قبر کے اردگرد بیٹھ کر روتے رہے، جب ابلیس نے ان کی آہ وبکا دیکھی تو وہ ایک
انسان کی صورت میں متمثل ہو کر آیا اور کہنے لگا:"میں نے تمہارے رونے کو
دیکھا ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے لئے بُت کی ایک تصویر بنا دوں، تم اپنی مجلس میں اس تصویر کو دیکھ کر اسے یاد
کیا کرو تو انہوں نے اس سے اتفاق کیا تو اس نے بُت کی تصویر بنا دی، جس کو وہ اپنی مجلسوں میں رکھ کر اس کا ذکر کیا کرتے، جب ابلیس نے یہ منظر دیکھا تو کہا:میں تم میں
سے ہر ایک کے گھر بُت کا ایک مجسمہ بنا کر رکھ دوں، تا کہ تم میں سے ہر شخص اپنے گھر میں بُت کا ذکر کیا کرے، اُنہوں نے اس بات کو بھی مان لیا، پھر ہر گھر میں وَد کا ایک بُت بنا کر رکھ دیا گیا، پھر ان کی اولاد بھی یہی کچھ کرنے لگی، پھر اس کے بعد ان کی جو بھی نسلیں آئیں، تو وہ بھول گئیں کہ وَد ایک انسان تھا، وہ اس کو خدا مان کر اس کی عبادت کرنے
لگیں، پھر انہوں نے اللہ تعالی کو چھوڑ کر
اس بُت کی پرستش شروع کر دی، پس اللہ پاک
کو چھوڑ کر جس بُت کی سب سے پہلے پرستش شروع کی گئی، وہ وَد نام کا بُت تھا۔(تبیان القرآن، جلد 4، صفحہ 191)
اللہ تعالی نے سورہ نوح میں ان کے نام ذکر کئے ہیں کہ
وَ
قَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمْ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا ﳔ وَّ لَا یَغُوْثَ وَ یَعُوْقَ وَ نَسْرًا ۚ۔
ترجمۂ
کنز الایمان: اور بولے ہر گز نہ چھوڑنا اپنے
خداؤں کو اور ہر گز نہ چھوڑنا وَدّ اورنہ سُوَاع اور یَغوث اور یَعوق اور نَسر کو (پ29، نوح:23)
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو تبلیغ فرمائی کہ میری
دعوت کے تین بنیادی اصول ہیں:
1۔کفر و شرک چھوڑ دو، اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت
کرو، اس سے تمہارے عقائد درست ہوں
گے، توہمات اوروسوسوں سے تمہاری عقلیں
آزاد ہوں گی اور جب نورِ توحید چمکے گا تو تمہارا سینہ وادی ایمن بن جائے گا۔
2۔تم تقویٰ کو اپنا شعار بنا لو، جب تم متقی اور پرہیزگار بن جاؤ گے تو فسق و
فجور کی بالیدگیوں سے تمہارا دامن پاک ہو
جائے گا، ظلم و ستم، لوٹ کھسوٹ، جھوٹ و غیبت، خود غرضی اور حرص کا
تمہارے معاشرے میں نام و نشان بھی باقی نہیں رہے گا، خود سوچو! اس طرح تمہارے معاشرے میں کتنی خوش آئن تبدیلی رُونما ہوگی۔
3۔تم میری اطاعت کرو، تمہارے ربّ نے مجھے مرشد و رہنما بنا کر مبعوث فرمایا ہے، میں تمہیں سیدھی راہ پر لے چلوں گا اور منزلِ
مراد تک پہنچا دوں گا، جب تم مجھے اپنا
رہنما اور پیشوا تسلیم کر لو گے تو تم میں انتشار اور طوائف الملوکی کی بجائے قومی
اتحاد پیدا ہو جائے گا، تم منظم اور متحد
ملت کی طرح قوت اور شوکت سے زندگی بسر کرو گے۔
سب سے پہلے بت پرستی کا آغاز کرنے والا عمرو بن لحیّ بن
قمعہ تھا، یہ ان لوگوں سے متاثر ہوا، اس نے تین سو چالیس سال کی طویل عمر پائی، کعبہ
کی تولیت پانچ سو سال تک اس کی اور اس کی اولاد کے پاس رہی اور اس نے بُت پرستی کو
رواج دینے میں اپنی پوری کوششیں صرف کیں، کعبۃ اللہ جس کو حضرت خلیل علیہ السلام نے اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت کے
لئے تعمیر کیا تھا، اسی بد بخت کے زمانے
میں بت خانہ بنا، عرب کے مختلف قبائل کے
ہاں جو بُت تھے، ان میں سے جن بتوں کو بڑی شہرت اور ناموری حاصل تھی، وہ پانچ بت تھے جن کے نام وَد، سواع، یغوث، یعوق اور نسر تھے۔
کشتی تیار کرنے کا حکم:
ارشاد باری تعالی ہے:وَ اصْنَعِ
الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا۔
ترجمۂ
کنز العرفان" اور ہمارے سامنے اور ہمارے حکم سے کشتی بناؤ
۔"(پ12، ہود:37)
حکم ملتے ہی حضرت نوح علیہ السلام کمر بستہ ہو گئے، لکڑی لائی جارہی ہے، اسے چیرا جا رہا ہے، تختے نکالے جا رہے ہیں، دیگر ضروری چیزیں فراہم کی جا رہی ہیں، آپ علیہ
السلام کل تک تو ایک وعظ وتذکیر کرنے میں مصروف و محو تھے، اب تیشہ اور آری ہاتھ میں لئے دنیا و مافیہا سے
بے خبر کشتی بنائی جا رہی ہے، آپ علیہ السلام کے ہم وطنوں کو مذاق اور تمسخر کرنے
کا ایک انوکھا بہانہ مل گیا، طرح طرح کی
آوازیں آنے لگیں، حضرت!کیا نبوت چھوڑ کر
بڑھئی بن گئے ہیں، صاحب!کیا یہ کشتی خشکی
میں چلے گی، یہاں تو کوئی دریا اور سمندر نہیں، غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں، آپ
تعمیلِ حکم میں مصروف رہے، اللہ کے نبی نے
کشتی تیار کر دی، اس کا طو ل وعرض کتنا تھا، اس کی بلندی کتنی تھی، کھڑکیاں اور
دروازے کتنے تھے، ان کی منزلیں کتنی
تھیں، ان تمام تفصیلات کا عبرت پذیری سے
کوئی تعلق نہیں، مختصراً وہ اتنی وسیع تھی
کہ اس میں حضرت نوح علیہ السلام کا کُنبہ، آپ علیہ السلام کے پیروکار اور جانوروں کا جوڑا جوڑا سما سکتا تھا، جب کشتی تیار ہوگئی تو عذاب کا مقررہ وقت بھی
آگیا۔
فرمانِ باری تعالی ٰہے: حَتّٰۤى
اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُۙ-قُلْنَا احْمِلْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ
زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَ مَنْ
اٰمَنَ ؕ-وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلٌ۔
جب ہمارا حکم آیا اور تنور اُبلا ہم نے فرمایا کشتی میں سوار
کرلے ہر جنس میں سے ایک جوڑا نر ومادہ اور جن پر بات پڑچکی ہے ان کے سوا اپنے گھر والوں
اور باقی مسلمانوں کو اوراس کے ساتھ مسلمان نہ تھے مگر تھوڑے (پ12، ہود:آیت40)