حضرت نوح علیہ السلام کا تعارف:

حضرت نوح علیہ السلام کا اسمِ گرامی یشکریا عبدالغفار ہے اور آپ حضرت ادریس علیہ السلام کے پڑپوتے تھے، آپ کا لقب"نوح" اس لئے ہوا کہ آپ کثرت سے گریہ وزاری کیا کرتے تھے۔چالیس یا پچاس سال کی عمر میں آپ نبوت سے سرفراز فرمائے گئے اور 950سال آپ اپنی قوم کو دعوت فرماتے رہے اور طوفان کے بعد ساٹھ برس دنیا میں رہے تو آپ کی عمر ایک ہزار پچاس سال کی ہوئی۔

مذہبی اختلاف کی ابتداء کب ہوئی؟

مذھبی اختلاف کی ابتداء سے متعلق مفسرین نے کئیں اقوال ذکر کئے ہیں، ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے تک لوگ ایک دین پرر ہے، پھر ان میں اختلاف واقع ہوا تو حضرت نوح علیہ السلام ان کی طرف مبعوث فرمائے گئے، دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے کشتی سے اُترنے کے وقت سب لوگ ایک دین پر تھے۔

جب اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا:اے میری قوم! میں تمہیں اللہ کے حکم کی مخالفت کرنے اور اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنے پر اللہ کے عذاب کا صریح ڈر سنانے والا ہوں۔

آپ نے اپنی قوم کو عبادتِ الہی کی طرف دعوت دیتے ہوئے فرمایا: اے میری قوم!ایمان قبول کر کے اللہ پاک کی عبادت کرو، کیونکہ اس کے سوا کوئی اور ایسا ہے ہی نہیں کہ جس کی عبادت کی جا سکے، وہی تمہارا معبود ہے اور جس کا میں تمہیں حکم دے رہا ہوں، اس میں اگر تم میری نصیحت قبول نہ کرو گے اور راہِ راست پر نہ آؤ گے، تو مجھے تم پر بڑے دن یعنی روزِ قیامت یا روزِ طوفان کے عذاب کا خوف ہے۔

حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بتوں کی پجا ری تھی، اللہ نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو پہلے سے ہی ڈرا دیں کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان پر دنیا و آخرت کا دردناک عذاب آئے گا، تاکہ ان کے لئے اصلاً کوئی عذر باقی نہ رہے۔

یاد ہے!کہ حضرت نوح علیہ السلام وہ سب سے پہلے رسول ہیں، جنہوں نے کفار کو تبلیغ کی اور سب سے پہلے آپ کی قوم پر ہی دنیوی عذاب آیا۔

حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے آپ کی نبوت کو جھٹلایا، حضرت نوح علیہ السلام پر نازل ہونے والی وحی جو آپ ان تک پہنچا دیتے تھے، اسے قبول نہ کیا، ایک عرصے تک عذابِ الہی سے خوف دلانے اور راہِ راست پر لانے کی کوشش کرنے کے باوجود بھی وہ لوگ اپنی بات پر ڈٹے رہے تو ان پر اللہ پاک کا عذاب نازل ہوا۔

جو مؤمنین حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار تھے، اللہ پاک نے عذاب سے محفوظ رکھا اور باقی سب کو غرق کر دیا، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے دشمنوں پر اس وقت تک دنیاوی عذاب نہیں آتے، جب تک وہ پیغمبر کی نافرمانی نہ کریں:

ترجمہ کنزالعرفان:"اور ہم کسی کو عذاب دینے والے نہیں، جب تک کوئی رسول نہ بھیج دیں۔"(سورہ بنی اسرائیل:15)

حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں چالیس مرد اور چالیس عورتیں تھیں، مگر آپ کی اولاد کے سوا کسی کی نسل نہ چلی، اسی لئے آپ کو آدمِ ثانی کہتے ہیں۔

وَدّ، سُواع وغیرہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے ان بتوں کے نام ہیں، جنہیں وہ پوجتے تھے، ان لوگوں کے بت تو بہت تھے مگر یہ پانچ(وَدّ، سُواع، یَغوث، یَعُوق اور نَسْر) ان کے نزدیک بڑی عظمت والے تھے۔

وَدّ مرد کی صورت پر تھا، سُوااع عورت کی صورت پر، یَغوث شیر کی شکل میں، یَعُوق گھوڑے کی شکل میں اور نَسْرگدھ کی شکل میں تھا۔

یہ وَدّ، سُواع وغیرہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک آدمیوں کے نام تھے، جب وہ وفات پا گئے تو شیطان نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ جن جگہوں پر وہ اللہ والے بیٹھا کرتے تھے، وہاں ان کے مجسمے بنا کر رکھ دو، ان بتوں کے نام بھی ان نیک لوگوں کے نام پر ہی رکھ دو، لوگوں نے عقیدت کے طور پر ایسا کر دیا، لیکن ان کی پوجا نہیں کرتے تھے، جب وہ لوگ دنیا سے چلے گئے اور علم بھی کم ہوگیا تو ان مجسموں کی پوجا ہونے لگ گئی۔

محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وَدّ، سُواع وغیرہ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں کے نام تھے، یہ بہت عبادت گزار تھے، جب ان کا انتقال ہوگیا تو لوگ غمزدہ ہوگئے تو شیطان نے لوگوں کو بہلا کر کہ میں ان کی تصویر بنا دیتا ہوں، انہیں دیکھ کر تمہیں سکون میسّر ہوگا اور ان کی تصویر بنا کر مسجد کے کونے میں رکھ دی، پھر ایک وقت ایسا آیا، لوگوں نے اللہ کی عبادت چھوڑ کر ان کی پوجا شروع کر دی، یہاں تک کہ اللہ نے حضرت نوح علیہ السلام کو بھیجا، جنہوں نے ان لوگوں کو اللہ کی وحدانیت اور عبادت کی دعوت دی۔

بعض مفسرین کے نزدیک حضرت نوح علیہ السلام کی قوم سے یہ بت منتقل ہوکر عرب میں پہنچے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان بتوں کو طوفان نے مٹی میں دفن کر دیا تھا تو وہ اس وقت سے مدفون ہی رہے، یہاں تک کہ شیطان نے عرب کے مشرکین کے لئے انہیں زمین سے نکال دیا۔(تفسیر صراط الجنان)