مختصر تعارف :-

اللہ عزوجل کے نبی حضرتِ نوح علیہ السلام کے دور کی ایک قوم تھی جس کا نام قوم نوح تھا اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا اور حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو بت پرستی چھوڑ دینے اور صرف اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور وحدانیت کے دلائل بیان کیے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے پر انہیں غضب اور عذاب سے ڈرایا لیکن انہوں نے نوح علیہ السلام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا اسی طرح نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو خدا کا پیغام سناتے رہے مگر چند افراد کے علاوہ ان کی بدنصیب قوم ایمان نہیں لائی۔

خاصیت :-

اس قوم کا یہ حال تھا کہ ہر بوڑھا باپ اپنے بچوں کو یہ وصیت کر کے مرتا تھا کہ نوح (علیہ السلام ) بہت پرانے پاگل ہیں معاذ اللہ اس لئے کوئی ان کی باتوں کو نہ سنے اور نہ ان کی باتوں پر دھیان دے ، یہاں تک کہ ایک دن یہ وحی نازل ہوئی کہ اے نوح ! اب تک جولوگ مؤمن ہو چکے ہیں ان کے سوا اور دوسرے لوگ بھی ہرگز ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ اس کے بعد آپ اپنی قوم کے ایمان لانے سے نا امید ہوگئے ۔ اور آپ نے اس قوم کی ہلاکت کے لئے دعافرمادی۔

نافرمانیاں:-

۱. جب آپ کشتی بنانے میں مصروف تھے تو آپ کی قوم آپ کا مذاق اڑاتی تھی۔

۲. کوئی کہتا کہ اےنوح! اب تم بڑھئی بن گئے؟ حالانکہ پہلےتم کہا کرتے تھے کہ میں خدا کا نبی ہوں ۔

۳. کوئی کہتا کہ اے نوح! اس خشک زمین میں تم کشتی کیوں بنار ہے ہو؟ کیا تمہاری عقل ماری گئی ہے؟ غرض طرح طرح کا تمسخر واستہزاء کرتے اور قسم قسم کی طعنہ بازیاں اور بدزبانیاں کرتے رہتے تھے اور آپ ان کے جواب میں یہی فرماتے تھے کہ آج تم ہم سے مذاق کرتے ہو لیکن مت گھبراؤ جب خدا کا عذاب بصورت طوفان آ جائے گا تو ہم تمہارا مذاق اڑائیں گے۔

جب طوفان آ گیا تو آپ نے کشتی میں درندوں، چرندوں اور پرندوں اور قسم قسم کے حشرات الارض کا ایک ایک جوڑا نر ومادہ سوار کر دیا اور خود آپ اور آپ کے تینوں فرزند یعنی حام، سام اور یافث اور ان تینوں کی بیویاں اور آپ کی مومنہ بیوی اور 72 مؤمنین مردوعورت کل 80 انسان کشتی میں سوار ہو گئے اور آپ کی ایک بیوی ’واعلہ‘‘ جو کافر تھی ، اور آپ کا ایک لڑکا جس کا نام’’ کنعان‘‘ تھا، یہ دونوں کشتی میں سوارنہیں ہوئے اور طوفان میں غرق ہو گئے۔)تفسیر صاوی،پ 12،ھود :36۔39 )

قرآن کریم میں اللہ عزوجل نےاس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ

وَ اُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَىٕسْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ۚۖ(۳۶)وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا وَ لَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاۚ-اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ(۳۷)وَ یَصْنَعُ الْفُلْكَ- وَ كُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا مِنْهُؕ-قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُوْنَ ؕ(۳۸)فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَۙ-مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ(۳۹) (پ12، ہود: 36-39)

ترجمۂ کنزالایمان : اور نوح کو وحی ہوئی کہ تمہاری قوم سے مسلمان نہ ہوں گے مگر جتنے ایمان لاچکےتو غم نہ کھا اس پر جو وہ کرتے ہیں اور کشتی بنا ہمارے سامنے اور ہمارے حکم سےاور ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرنا وہ ضرور ڈوبائے جائیں گے اور نوح کشتی بناتا ہے اور جب اس کی قوم کے سردار اس پر گزرتے اس پر ہنستے بولا اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ایک وقت ہم تم پر ہنسیں گےجیسا تم ہنستے ہو تو اب جان جاؤ گےکس پر آتا ہے وہ عذاب کہ اسے رسوا کرے اور اترتا ہے وہ عذاب جو ہمیشہ رہے۔

درس ھدایت: قرآن کریم کے اس واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ قوم نوح اللہ عزوجل کی نا فرمانیوں کی وجہ سے غرق ہوئی اسی لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کے خیریت و بقا کے لیے اللہ اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کی نافرمانیوں سے ہميشہ بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔( عَجَائبُ القُرآن مع غرائب القران )