حضور ﷺ کی اپنی چاروں
شہزادیوں سے محبت از بنتِ محمد اکرم،گلشن معمار کراچی
دنیاوی طور پر دیکھا جاۓ تو بیٹیوں سے والدین اور خاندان کو بظاھر کوئ منفعت حاصل
نہیں ہوتی بلکہ اسکے بر عکس ان کی شادی کے کثیر اخراجات کا بار باپ کے کاندھوں پر آ پڑتا ہے اسی لیے
بعض نادان بیٹیوں کی ولادت پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور والدہ کو کو طعنے دیے جاتے
ہیں۔دور جاہليت میں بھی بیٹی پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے اور ان کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا جب کہ بیٹی کی پیدائش پر
مختلف بشارتوں سے نوازا گیا ہے۔چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھہ سے
روایت ہیکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان عظمت نشان
ہےکہ:جسکے ہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اسے ایذا نہ دے اور نہ ہی برا جانے اور نہ بیٹے
کو بیٹی پر فوقیت دے تو اللہ اس شخص کو جنت میں داخل فرماۓ گا۔
( المستدرک للحاکم،کتاب البر ولصلتہ،حدیث ٤٢٨،ج٥،ص٢٤٨)
حضرت نبیط بن شریط
رضی اللہ عنھ سے روایت ہیکہ آپ ﷺ نے ارشاد
فرمایا:بیٹیوں کو برا مت کہو میں بھی بیٹیوں والا ہوں بے شک بیٹاں تو بہت محبت
کرنے والیاں غمگسار اور بہت زیادہ مہربان ہوتی ہیں۔
مسند الفردوس للدیلمی،حدیث٧٥٥٦،ج٢،ص٤١٥)
سرورکائنات نے نہ صرف تعلیمات ارشاد فرمایئں،عملا بھی اسکی
مثال قائم کی۔چناچہ
١۔حضرت زینب رضی
اللہ سے محبت:
حضرت زینب ،رسول اکرم ﷺ کی سب سے بڑی شہزادی ہیں جو اعلان
نبوت سے دس قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں،جنگ بدر کے حضوراکرم پر نور ﷺ نے انہں مدینہ
بلالیا۔جب یہ ہجرت کے ارادہ سے اونٹ پر سوار ہو کر مکہ سے باہر نکلیں تو کافروں نے
ان کا راستہ روک لیا۔ایک ظالم نے نیزہ مار کر ان کو اونٹ سےزمین پر گرادیا جسکی
وجہ سے ان کا حمل ساقط ہو گیا۔آپ ﷺ کو اس واقعہ سے بہت صدمہ ہوا چنا نچہ ان کے فضا
ئل میں ارشاد فر ما یا:ھی افضل بناتی اصیبت فی یعنی یہ میری بیٹیو ں میں اس اعتبار
میں فضیلت والی ہے کہ میری طرف ہجرت کرنے میں اتنی بڑی مصیبت اٹھا ئ۔
)شرح اللامتہ الزرقانی،باب فی ذکر اولاد الکرم ج٢،ص٣١٨
،ماخوذً)
حضرت زینب نے راہ خدا میں ہجرت کی اور اس دوران جو تکلیف
اٹھائ اس کا اثر بہت دیر تک رہا اور اسی تکلیف میں آپکی وفات ہوئ آپ ﷺ کو اپنی پیاری
بیٹی کی وفات سے غم پہنچا آپ ﷺ نے خود نماز جنازہ پڑھائی اور کفن کے لیے اپنا تہبند شریف دیا اور خود
اپنے مبارک ہاتھوں سے قبر میں اتارا۔
حضرت انس رضی اللہ فرماتے ہیں جب آپ ﷺ قبر سے باہر تشریف لاۓ تو چہرہ مبارک پر پر یشانی
اور غم کے آثار تھے پوچھنے پر ارشاد فرمایا:مجھے قبر کا دبانا اور موت کی شدت یاد
آئ ،لہذا میں نے بارگاہ الہی میں دعا کی کہ میری بیٹی پر آسانی ہو بے شک میری یہ بیٹی
طویل عرصہ بیمار رہی ہے۔
)علل الدار قطنی ،١٢/٢٥١،حدیث ٢٦٧٩(
ان روایت سے معلوم ہوتا ہےکے آپ ﷺ کو اپنی بیٹی سے کس قدر
محبت تھی۔
٢۔حضرت رقیہ رضی
اللہ عنہا۔
حضرت رقیہ رضی اللی عنہا ،رسولکریم کی دوسری بیٹی ہیں
آپ اعلان نبوت سے سات سال پہلے مکہ مکرمہ مین پیدا ہوئں ،آپ سے بھی حضوراکرم ﷺ بھت
محبت فرمایا کرتے تھے انہں اپنی توجہ میں رکھتے اور ان کے ہاں تحفے بھی بھیجا کرتے
تھے۔
ایک دن آپ ﷺ نےحضرت اسامہ بن زید رضی اللہ کو رکابی میں
گوشت دے کر ان کے ہاں بھیجا جب یہ واپس آۓ تو آپ ﷺ نے ان ک ساتھ حضرت رقیہ و حضرت عثمان غنی کا زکر خیر کیا۔
(معجم کبیر ،١/٤٢٢ ،حدیث ٩٥ ملحصاً)
جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ اور حضرت رقیہ نے حبشہ کی
طرف ہجرت کی اور ان کی حبشہ روانگی کے بعد کچھ دن تک خیر یت معلوم نہ ہوئ تو آپ ﷺ
فکرمند ہوۓ اور جب ان کی خیر یت کی خبر
سنی تو یوں دعا دی:اللہ پاک ان دونوں کی حفاظت فرماۓ۔
(المطالب العالیہ ،کتاب المناقب،مناقب عثمان بن عفان رضی
اللہ ١٦/٥٣ حدیث ٣٩١٦)
٣۔حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا۔
حضرت ام کلثوم ،حضرت رقیہ سے چھوٹی ہیں آپ اعلان نبوت سے
پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہویئں۔
حضور اکرم (ﷺ) کی اپنی بیٹی حضرت ام کلثوم (رضی اللہ عنہا)
سے محبت کا ایک واقعہ یہ ہے:
حضرت ام کلثوم (رضی اللہ عنہا) ایک بار بیمار ہوئیں تو حضور
اکرم (ﷺ) ان کے پاس آئے اور ان کی عیادت کی۔
حضور اکرم (ﷺ) نے ان سے پوچھا:بیٹی!تم کیسے ہو؟
حضرت ام کلثوم (رضی اللہ عنہا) نے جواب دیا:میں تھوڑی سی بیمار
ہوں، لیکن اللہ کی حمد ہے کہ میں بہتر ہو رہی ہوں۔
حضور اکرم (ﷺ) نے ان کے لیے دعا کی اور ان کے لیے مغفرت کی
درخواست کی۔
یہ واقعہ حضور اکرم (ﷺ) کی اپنی بیٹی سے محبت اور شفقت کا ایک
مثال ہے۔
(حوالہ:ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، جلد 2، صفحہ 655)
٤۔خاتون جنت حضرت فا طمہ الزہرا رضی اللہ عنہا۔
آپ ﷺ کی سب سے چھوٹی مگر سب سے پیاری اور لاڈلی شھزادی ہیں
آپ جب بھی اپنے والد محترم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ﷺ کھڑے ہوجاتے،ان کی طرف
متوجہ ہوجاتے،پھر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے،اسے بوسہ دیتے پھر ان کو اپنے
بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے۔
( ابی داود،کتاب الادب باب ما جاءفی القیام،حدیث ٥٢١٧،ج٤)
حضرت عبد اللہ ابن
عمر رضی اللہ فرماتے ہیں ،نبی اکرم ﷺ جب
سفر کا ارادہ فرماتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہ سے ملاقات فرماتے اور جب سفر سے
واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے آپ سے ملاقات فرماتے۔(شان خاتون جنت ص ١٤٧)
اللہ کے محبوب ﷺ کا ارشاد ہے:فاطمہ تمام اہل جنت یا یا مومینین
کی عورتوں کی سردار ہے مزید فرمایا فاطمہ میرے بدن کا ایک ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو
ناراض کیا اسنے مجھے ناراض کیا۔(شان خاتون جنت ،صفحہ ١٤٧)
الغرض آپ ﷺ کو اپنی تمام شہزایوں سے بے پناہ محبت تھی آپ ﷺ نے ان کی ہر طرح سے تعليم و تربیت فرمائ
جو بیٹیوں کی تعلیم وتربیت اور حسن اخلاق کے بارے میں بشارتیں دیں اسے عملاً بھی کرکے دکھایا۔
مصطفےٰ کی بیٹیوں پر ہم گفتگو کیا کریں
رحمت و فضل خدا ہیں مصطفےٰ کی بیٹیاں