حضور سید المرسلین،خاتم النبیین ﷺ کی اپنی شہزادیوں کے ساتھ مَحبت اور شفقت ایک ایسی خصوصیت ہے جو آپ کی شخصیت کا ایک اہم حصہ ہے اور آپ کی اپنی شہزادیوں سے محبت و شفقت اس بات کی نشانی ہے کہ آپ ایک شفیق والد اور انسان ہیں اور اِس کا ذکر حدیثوں میں بھی کیا گیا ہے۔آپ نہ صرف اپنے اہلِ خانہ بلکہ اپنی شہزادیوں سے بھی بے پناہ محبت ، احترام اور شفقت  فرماتے تھے۔اللہ پاک بھی ان سے کتنی محبت فرماتا ہے کہ قرآن پاک میں بھی ان کاذکر فرمادیا۔چنانچہ اللہ پاک نے قرآن کریم کے پارہ 22 سورۂ احزاب آیت نمبر 33 میں ارشاد فرمایا:وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ22،الاحزاب:33) ترجمہ کنزالایمان:اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو!کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

تفسیر صراط الجنان:یعنی تمام احکامات اور ممنوعات میں اللہ پاک اور اس کے حبیب ﷺ کی اطاعت کرو۔ لہٰذا تم میں سے کسی کی شان کے لائق یہ بات نہیں کہ جس چیز کا اللہ پاک اور اس کے حبیب ﷺ نے حکم دیا تم ا س کی مخالفت کرو۔(تفسیر صاوی، 5 / 1638)

یعنی اے میرے حبیب کے گھر والو!اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ گناہوں کی نجاست سے تم آلودہ نہ ہو۔(تفسیر نسفی، ص940ملخصاً)

امام عبد اللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ان آیات(یعنی اس آیت اور اس کے بعد والی آیت)میں رسولِ کریم ﷺ کے اہلِ بیت کو نصیحت فرمائی گئی ہے تاکہ وہ گناہوں سے بچیں اور تقویٰ و پرہیزگاری کے پابند رہیں۔یہاں گناہوں کو ناپاکی سے اور پرہیزگاری کو پاکی سے تشبیہ دی گئی کیونکہ گناہوں کا مُرتکب اُن سے ایسے ہی مُلَوَّث ہوتا ہے جیسے جسم نجاستوں سے آلودہ ہوتا ہے اور اس طرزِ کلام سے مقصود یہ ہے کہ عقل رکھنے والوں کو گناہوں سے نفرت دلائی جائے اور تقویٰ و پرہیزگاری کی ترغیب دی جائے۔(تفسیر نسفی، ص941،940)

کیا بات ہے ہمارے آقا ﷺ کے گھرانے کی کہ رب بھی انہیں محبت سے بتا رہا ہے کہ کون سے کام کریں اور کس کام سے بچیں۔بہت ساری احادیث بھی کتب میں موجود ہیں کہ جو آپ ﷺ کی اپنی شہزادیوں سے محبت کو بیان کرتی ہیں:

1)حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت:فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے،جو اِسے رنجیدہ کرتا ہے،وہ مجھے رنجیدہ کرتا ہے۔( بخاری ، 3/471،حدیث:5230)

2) فاطمۃ دنیا کی عورتوں کی سردار ہیں۔(مسلم ،ص1023،حدیث:)

3)جب حضرت فاطمۃ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، تو نبی کریم ﷺ نے اُٹھ کر انہیں اپنی جگہ پر بٹھایا اور اُن کے ساتھ محبت سے بات کی۔(ابوداود،4/454، حدیث:5217)

4)فاطمۃ میرے میرے جگر کا ٹکڑا ہے،جو اُسے تکلیف دیتا ہے وہ مجھے تکلیف دیتا ہے۔(مشکاۃ المصابیح، 2/436،حدیث:6139) (مسلم، ص1021 ، حدیث:6307)

2)حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا سے محبت:جنگِ بدر کے موقع پر حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا بیمار ہو گئیں تو آپ ﷺ نے حضرت رُقیہ رضی اللہ عنہا کے شوہر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو آپ کی تیمار داری کا حکم دیا۔بیوی کی تیمار داری کے باعث جنگِ بدر میں شرکت نہ کرنے کے باوجود بھی آپ ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کومجاہدینِ بدر میں شمار فرمایا اور مالِ غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا اور شرکاءِ بدر کے برابر اجر کی خوش خبری بھی عطا فرمائی۔( معرفۃ الصحابہ ، 5/141 ماخوذاً )

3)حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے محبت:حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی وفات کے وقت حضرت محمد ﷺ نے بڑی غمگینی اور محبت کے ساتھ فرمایا:میرے لئے تم سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو تم میں سے میری طرف سب سے زیادہ قریب ہو اور آپ کی محبوب بیٹی زینب ہے۔(مسلم ، حدیث:2449 )

4)حضرت اُمِّ کلثوم رضی اللہ عنہا سے محبت:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت اُمِّ کلثوم رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرمایا: جس نے میری بیٹی کو عزت دی اُس نے مجھے عزت دی۔( ابنِ ماجہ ،حدیث:144 )

اِن احادیث سے معلوم ہوا کہ حضورِ اکرم ﷺ نے اپنی شہزادیوں سے خصوصاً حضرت فاطمۃ رضی اللہ عنہا سے بے پناہ محبت کی اور ان کی عزت و تکریم میں کمی نہیں آنے دی۔ آپ ﷺ کی سیرت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اہلِ خانہ کے ساتھ محبت اور تعلق مضبوط رکھنا اور ان کی عزت کرنا انتہائی اہم ہے۔حضورِ اکرم ﷺ نے اپنی شہزادیوں کو نہ صرف محبت دی بلکہ ان کی عزت بھی کی۔اِس سے ہمیں یہ سبق ملا کہ بیٹیوں کو عزت دینا اسلامی تعلیمات کا حصہ اور ہمارے لئے رہنمائی کا سامان ہے ، خاص طور پر والدین کے لئے کہ بچیوں کے ساتھ شفقت و احترام سے پیش آنا چاہیے۔