ہر انسان بہت
سی اچھی اور بری عادتوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو اسے فائدہ یا نقصان پہنچاتی ہیں،
نقصان دینے والی عادتوں میں سے ایک سستی اور لاپروائی بھی ہے جس کا اظہار ہم بہت
سے کاموں کو ٹال کر کرتے ہیں کہ آج نہیں تو چلو کل کرلیں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا: جس شخص کے ہاتھ پر چکنائی لگی ہو اور وہ اسے دھوئے بغیر سو جائے پھر کوئی
چیز اسے کاٹ لے تو وہ شخص اپنے آپ کو ہی ملامت کرے۔ (مشكاة المصابيح، 2/97، حدیث: 4219)
مشہور مقولہ
ہے کہ آج کا کام کل پر نہ چھوڑو کیونکہ اگر آج کا کام وقت پر نہ کیا تو دوسرے دن
کل والا کام بھی کرنا پڑے گا جو نہ ہونے کی صورت میں سب کے سامنے شرمندگی سے دوچار
کردے گا۔
ہم بحیثیت
انسان کسی نہ کسی حد تک سستی سے کام لیتے ہیں لیکن یہ چیز ایک مسئلہ اس وقت بنتی
ہے جب آپ جانتے ہوں کہ وقت پر کام ختم نہ کرنے کا یقیناً نقصان ہی ہوگا لیکن ہم
پھر بھی تاخیر کرتے رہتے ہیں۔
ٹال مٹول اور
کاہلی کی عادت اگر پکی ہوجائے تو اس کے برے اثرات آپ کی صحت پر بھی پڑسکتے ہیں، آپ
مستقل طور پر ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں، ورزش کو ملتوی کرتے ہوئے آپ مزید غیر
صحت مند خوراک کھاتے رہتے ہیں اور حتیٰ کہ کسی بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے
باوجود ڈاکٹر کے پاس جانے میں بھی لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔
صرف
قوت ارادی پر انحصار نہ کریں: ایک برطانوی نفسیاتی ماہر کا کہنا ہے
کہ لوگ اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم پختہ ارادہ کرلیں تو سستی سے چھٹکارا حاصل
کرسکتے ہیں۔
لیکن برطانوی
ماہرکے بقول قوت ارادی کام کا جذبہ پیدا کرنے کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے
لیکن یہ بہترین طریقہ نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ ناگوار پہلوؤں کو نظر انداز
کر کے اپنا بڑا مقصد حاصل نہیں کر سکتے۔
مثلاً اگر آپ
آدھے گھنٹے سے دوڑ رہے ہیں اور اب آپ کے پٹھوں میں درد ہو رہا ہے، تو ضروری نہیں
کہ یہ درد کوئی بری بات ہو اور اس کے خلاف لڑنا ضروری ہو، کیونکہ اگر آپ واقعی فٹ
ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو سمجھنا چاہیے کہ درد بھی اس کا حصہ ہے۔
جس
کام کو ٹال رہے ہیں اس میں کچھ مثبت تلاش کریں: کیا کسی کام
کو ٹالنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ آپ کو ناکام ہو جانے کا خطرہ ہے، تحقیق بتاتی ہے کہ
اس مسئلے کی وجہ ہمیشہ سستی اور وقت کا درست استعمال نہ کرنا نہیں ہوتی بلکہ اس کی
وجہ اپنے جذبات کو درست سمت میں استعمال نہ کرنا بھی ہوسکتی ہے۔ اگر آپ کو یہ فکر
ہے کہ آپ کسی کام میں ناکام ہو جائیں گے تو آپ اس کام کو ملتوی کرنے کے بہانے
ڈھونڈتے ہیں اور ناخوشگوار جذبات سے نہیں گزرنا چاہتے۔
اس قسم کی سوچ
پر قابو پانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کے سامنے جو کام پڑا ہے، اس میں سے مثبت پہلو
تلاش کریں ہوسکتا ہے آپ اس میں کوئی نئی چیز سیکھ لیں اور آپ کو توقع سے زیادہ مزہ
آنے لگے۔
اپنی
تکلیف کو کم کریں: کسی کام کے آغاز کو جتنا آسان بنا سکتے ہیں بنائیں۔
کیا آپ نے کبھی ’چوائس آرکیٹیکچر‘ کے بارے میں سنا ہے؟ اس کی ایک عام مثال یہ ہے
کہ جب آپ خریداری کر کے دکاندار کو پیسے دے رہے ہوتے ہیں اور اس کے پاس چاکلیٹ کی
بجائے کوئی تازہ پھل پڑا ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ زیادہ صحت افزا
چیزیں کھانا شروع کر دیتے ہیں۔