کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے اس کے اچھے یا برے نتائج پر غور کرلینا انتہائی مفید ہے،اس طرح انسان بہت سارے نقصانات سے بچ جاتا ہے لیکن جب انجام کی پروا کئے بغیر آنکھیں بند کرکے جوجی میں آئے کرلیا جائے یا زندگی کے اہم معاملات پر توجہ دینے کی بجائے ان سے غفلت برتی جائے تو یہ لاپروائی ہے اس کے نتائج بہت خطرناک ہوتے ہیں۔

اپنی صحت کے بارے میں لاپروائی: مناسب غذا کھانا،اپنی صحّت کا خیال رکھنا، بیمارہونے کی صورت میں علاج کروانا، جتنی نیند ضروری ہے اتنی نیند کرنا، صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا آپ کے جسم کی ضرورتیں ہیں ان سے لاپروائی برتنا سخت نقصان دہ ہے۔بعض نوجوان لاپروائی کاایسامظاہرہ کرتے ہیں کہ اپنی طبعی ضروریات کا بھی خیال نہیں رکھتےجس کے باعث آئے دن بیمار پڑے رہتے ہیں۔ پیارے آقا ﷺ نے مسلسل نفلی روزے رکھنے اور رات کو نفلی قیام کرنے والے صحابی سے فرمایا:تم پر تمہارے جسم کا بھی حق ہے اور تم پر تمہاری آنکھ کا بھی حق ہے۔ (بخاری،1/649، حدیث:1975) یعنی ہمیشہ روزہ رکھنے سے تمہارا جسم بہت کمزور ہوجائے گا اور بالکل نہ سونے سے نگاہ کمزور پڑجانے کا خطرہ ہے۔ (مراۃ المناجیح، 3/188) معلوم ہوا کہ جسم کی حفاظت اور صحّت كا خیال بے حد ضروری ہے اس بارے میں ہرگز غفلت نہیں کرنی چاہئے۔

برے لوگوں کی صحبت میں لاپروائی: برے لوگوں کی صحبت اختیار کرنا،انہیں اپنا دوست بنانا اور ان سے محبت کرنادنیا اور آخرت میں انتہائی نقصان دہ ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: برے ہم نشین سے بچو کہ تم اسی کے ساتھ پہچانے جاؤ گے۔ (تاریخ ابن عساکر، 14/ 46) یعنی جیسے لوگوں کے پاس آدمی کی نشست وبرخاست ہوتی ہے لوگ اسے ویساہی جانتے ہیں اور لاپروائی کرتے ہوئے برے لوگوں کی صحبت اختیار کر لیتے ہیں ہمیں ایسی لاپروائی سے بچنا چاہیے۔

وقت کی لاپروائی : نماز وقت پرادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے گویا یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اپنا ہر کام مقرّرہ وقت پر کیا جائے۔ اسی لیے نمازی اپنی روزمرّہ زندگی کو نماز کے اوقات کے ساتھ مرتّب کرتا ہے۔ مثلًا ظہر کے بعد فلاں کام کرنا ہے، عصر کے بعد فلاں جگہ جانا ہے وغیرہ۔ لیکن بےنمازی کو نقصان کا ایک خدشہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ وقت کی پابندی نہ کر سکے اور زندگی کے معاملات عجیب و غریب ترتیب پر ہوں۔

سب سے پہلے قیامت کے دن بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا،اگر یہ درست ہوئی تو باقی اعمال بھی ٹھیک رہیں گے اور یہ بگڑی تو سبھی بگڑے۔ (معجم اوسط، 1/504، حدیث: 1859)

قرض ادا کرنے میں لاپروائی سے کام لینا: کچھ لوگ ایک بڑی رقم قرض لیتے ہیں اور پھر قرض خواہ کو بلا وجہ توڑ پھوڑ کر یعنی تھوڑی تھوڑی کرکے رقم لوٹاتے ہیں جبکہ بعض تو قرض کے نام پر دوسروں کے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے ہڑپ کرجاتے ہیں، ابھی تو یہ سب آسان لگ رہا ہوگا لیکن قیامت میں بہت مہنگا پڑجائے گا۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے : جو دنیا میں کسی کے تقریباً تین پیسے دین (یعنی قرض) دبا لے گا بروز قیامت اس کے بدلے سات سو باجماعت نمازیں دینی پڑ جائیں گی۔ (فتاویٰ رضویہ، 25 / 69ملخصاً )اوّلاً تو حتّی الامکان خود کو قرض لینے سے بچائیے اور اگر زندگی میں کسی موقع پر قرض لینا بھی پڑ جائے تو قرض واپس کرتے وقت ایسا انداز نہ ہو جس سے آپ کی عزت اور نیک نامی پر کوئی حرف آئے اور آپ کے دوسروں سے تعلقات خراب ہوں۔ ورنہ قرض خواہ کو اس طرح پریشان کرنے کا ایک دنیاوی نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کی نظروں میں ایسے آدمی کا اعتبار نہیں رہتا اور اگلی بار ضرورت پڑنے پرلوگ اسے قرض دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اللہ کریم مجھے اور آپ کو اپنے در کے سوا کسی کا محتاج نہ بنائے۔ آمین

بہرحال دینی امور ہوں یا دنیوی معاملات ہر نوجوان کو چاہئے کہ لاپروائی کی عادت ختم کر کے احساس ذمّہ داری پیدا کرےتاکہ دنیا وآخرت میں سرخرو ہو سکے۔