لاپروائی کا مطلب ہے غفلت برتنا، دھیان نہ دینا یا بے توجہی دکھانا۔ لا پروائی غیر ذمہ داری کے زمرے میں بھی آتی ہے۔ یہ لفظ اس وقت استعمال ہوتا ہے جب کوئی شخص کسی کام، فرض، یا تعلق میں سنجیدگی، توجہ یا ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کرےجیسے

نماز میں لاپروائی کرنا، وقت پر نہ پڑھنا یا دھیان نہ دینا۔

رشتوں میں لاپروائی کرنا کسی اپنے کا خیال نہ رکھنا، جذبات کو نظرانداز کرنا۔گھریلو ذمہ داریوں میں لاپروائی برتنا۔

کام میں لاپروائی کرنا،کام کو صحیح طریقے سے نہ کرنا یا تاخیر کرنا توجہ اور اہمیت نہ دینا یا کام کی نوعیت کے حساب سے اسکو نہ کرنا۔

کسی عہدہ یا تنظیمی ذمہ داری میں لا پروائی کرنا،وقت پہ نہ پہنچنا، کام کو وقت پہ مکمل نہ کرنا یا حساس نوعیت کی معلو مات کی حفاظت نہ کرنا یا ادارے کے اصو لوں کو نظر انداز کرنا وغیرہ،اس طرح کی لاپر وائیاؔں بڑے نقصانات کا سبب بنتی ہیں اس لیے

لاپروائی کا نتیجہ اکثر نقصان، افسوس یا تعلقات میں دراڑ، جاب سے ہاتھ دھونے اور بعض دفعہ جان کے بھی لالے پڑ جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔ وضاحت درج ذیل پہلوؤں سے کی جا سکتی ہے:

1۔ جذباتی لاپروائی: جب کوئی آپ کے جذبات کو نہ سمجھے، نہ ان کی قدر کرے، اور بےحس رہے، تو یہ جذباتی لاپروائی کہلاتی ہے۔ جیسے: کسی کا حال نہ پوچھنا، دکھ یا خوشی میں ساتھ نہ دینا، یا مسلسل نظر انداز کرنا۔

2۔ عملی لاپروائی: ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے نہ لینا۔ جیسے: بچوں کی تربیت میں لاپروائی، کام میں سستی، یا وعدہ کر کے پورا نہ کرنا۔

3۔ دینی لاپروائی: اللہ کے احکام میں سستی کرنا، نماز، روزہ، زکٰوۃ وغیرہ کو اہم نہ سمجھنا۔

4۔ جسمانی لاپروائی: اپنی صحت، صفائی یا خوراک کا خیال نہ رکھنا۔ مثلاً بیمار ہو کر بھی دوا نہ لینا۔

لاپروائی اکثر رشتے خراب کرتی ہے، کام برباد کرتی ہے، اور زندگی میں ندامت لاتی ہے۔

اسلام میں لاپروائی یا غفلت کو ایک سنگین روحانی بیماری قرار دیا گیا ہے، جو انسان کو دنیا و آخرت میں نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس حوالے سے متعدد احادیث موجود ہیں جو ہمیں ہوشیار اور بیدار رہنے کی تلقین کرتی ہیں۔

احادیث مبارکہ:

میں نے جہنم کی مثل کوئی چیز نہیں دیکھی کہ جس سے بھاگنے والا خواب غفلت میں ہو اور نہ ہی جنت کی نعمتوں و سرور کے مثل کوئی چیز دیکھی ہے جس کا چاہنے والا خواب غفلت میں ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/272، حدیث: 5346)

غافل لوگوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا (جنگ سے) بھاگنے والوں میں ثابت قدم رہنے والے کے قائم مقام ہے۔ (معجم کبیر، 10/ 16،حدیث: 9797)

مجھے تم پر فقر کا خوف نہیں، لیکن مجھے ڈر ہے کہ تم پر دنیا پھیلا دی جائے گی جیسا کہ تم سے پہلی قوموں پر پھیلائی گئی تھی، پس تم بھی اس دنیا کی خاطر پہلے لوگوں کی طرح باہم مقابلہ کرو گے، اور یہ تمہیں غفلت میں ڈال دے گی جس طرح اس نے پچھلی قوموں کو غافل کردیا۔ (بخاری، 4/225، حدیث: 6425)

دین اسلام ہمیں ذمہ داری کا درس دیتا ہے ایک مومن کو لاپروائی زیب نہیں دیتی یہ جانتے ہوئے کہ دنیا کی زندگی عارضی ہے اور موت حقیقت ہے جو کسی بھی وقت آ سکتی ہے لہذا ذمہ دار بنیں اور خود پر عائد ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے نبھائیں کیونکہ وہ شخص نہایت ہی قیمتی ہے جو ذمہ دار ہے اور معاشرے میں اسے لوگ ہی عزت ومقام پاتے ہیں۔