دنیا
و آخرت کی ناکامی کا سبب: انسان کی فطرت میں غلطی اور سستی کا
عنصر پایا جاتا ہے، مگر مسلسل غفلت اور لاپروائی ایک ایسا رویہ ہے جو اسے تباہی کی
طرف لے جاتا ہے۔ لاپروائی کا مطلب ہے کسی اہم چیز کو نظر انداز کر دینا، گویا وہ
غیر ضروری ہو۔ دین اسلام میں ایسی غفلت کو سخت ناپسند فرمایا گیا ہے۔
اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا (پ
15، الکہف: 28) ترجمہ: اور اس کا کہا نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل
کر دیا۔ یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ غفلت یعنی لاپروائی، دل کو اللہ
پاک کی یاد سے دور کر دیتی ہے اور ایسا شخص گمراہی کی راہ پر چل پڑتا ہے۔
لاپروائی اکثر
جلدبازی کے نتیجے میں جنم لیتی ہے، اور انسان صحیح وقت پر صحیح کام نہیں کرتا،
نتیجۃً پچھتاوے کا شکار ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص نگہبان
ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ (بخاری، 1/309، حدیث: 893)
یہ حدیث ہمیں
احساس ذمہ داری کا درس دیتی ہے کہ انسان کو اپنی حیثیت کے مطابق اپنے فرائض انجام
دینا ہوں گے۔ لاپروائی دراصل اسی ذمہ داری سے فرار ہے۔
دعوتِ اسلامی
کے بانی شیخ طریقت، امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: لاپروائی سے
بچو، لاپروائی انسان کو گمراہی میں ڈال دیتی ہے۔ (نیکی کی دعوت، ص 13)
اسی رسالے میں
مزید فرمایا: جو دین کے کاموں میں لاپروا ہے، وہ دنیا کے کاموں میں بھی ناکام رہتا
ہے۔ (نیکی کی دعوت، ص 14)
طلبہ، تاجر،
ملازمین یا علماء ہر طبقہ اگر اپنی ذمہ داریوں میں سستی اور لاپروائی برتے تو
نتائج صرف انفرادی نہیں، اجتماعی طور پر معاشرہ بگڑتا ہے۔ نمازوں میں لاپروائی،
والدین کے حقوق میں غفلت، تعلیم میں سستی، یہ سب اعمال برکت سے محروم کر دیتے ہیں۔
مدنی انعامات
میں بھی بار بار ہمیں سستی و لاپروائی سے بچنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اگر ہم مدنی
انعامات کے مطابق زندگی گزاریں تو ہم بہت سی لاپروائیوں اور گناہوں سے بچ سکتے
ہیں۔ عبادات ادا کرنا دین کی بنیاد ہے، اور لاپروا انسان اس نعمت سے محروم ہو جاتا
ہے۔
لاپروائی ایک
خطرناک عادت ہے۔ اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس کے انجام پر غور کیجیے! مثال کے طور
پر علم دین حاصل کرنے میں لاپروائی کا مظاہرہ کرنا جہالت ہے، وقت کی قدر نہ کرنے
کا انجام حسرت و پچھتاوا ہے اور ڈاکٹر کی ذرا سی لاپروائی کا نتیجہ مریض کی موت
ہے۔
لاپروائی صرف
ایک عادت نہیں بلکہ ایک خطرناک بیماری ہے، جو وقت کی بربادی، برکت کے خاتمے اور
دین سے دوری کا سبب بنتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے
وابستہ رہ کر اپنی اصلاح کی کوشش کریں، مدنی انعامات پر عمل کریں اور ہر کام کو
وقت پر انجام دینے والے بن جائیں۔