لغت میں
لاپروائی سے مراد غفلت، بے فکری اور بے احتیاطی ہے، دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے
ہیں کہ کسی کام کی طرف توجہ نہ دینا یا صرف نظر کرنا، اہمیت نہ دینا وغیرہ اس کے
معنی میں آ جائے گا، یہ ایک وسیع موضوع ہے جس پر طویل کلام کیا جا سکتا ہے، دور
حاضر میں نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ اس لاپروائی کے سبب بھاری نقصان اٹھایا
جاتا ہے لیکن اس کے باوجود افسوس اس امر کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی جیسے بارش
کے پانی کو محفوظ کرنے کا کوئی انتظام نہ کرنا نتیجتاً موسم برسات میں ملک میں
سیلابی صورتحال پیدا ہو جانا، ڈاکٹرز کی ذرا سی لاپروائی و غفلت مریض کی جان لے
سکتی ہے، کسی افسر یا نگران کی معمولی سی تاخیر پورا نظام درہم برہم کر سکتی ہے
اسی طرح دیگر شعبہ جات میں بھی لا پروائی کی مثالیں مل سکتی ہیں۔
لاپروائی ایک
ایسی عادت ہے جس میں انسان اپنی ذمے داریوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اس کے نتائج
اکثر منفی ہوتے ہیں جیسے کام کی خرابی، اعتماد میں کمی اور دوسروں کو نقصان
پہنچنا۔ لاپروائی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان وقت کی قدر کرے، اپنے کام کو
سنجیدگی سے لے اور مکمل توجہ کے ساتھ انجام دے۔
قرآن و حدیث
میں بھی اس کے متعلق مضامین موجود ہیں، چنانچہ ارشاد ربانی ہے: وَ لَا تُلْقُوْا
بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﳝ- (پ 2، البقرۃ: 195) ترجمہ کنز
العرفان: اور اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ یعنی اپنے اعمال میں لاپروائی
سے کام نہ لو۔
اسی طرح ایک
جگہ فرمایا: اِنَّ الْاِنْسَانَ
لَفِیْ خُسْرٍۙ(۲) اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ
تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ﳔ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۠(۳) (پ 30، العصر:
2، 3) ترجمہ کنز العرفان: بیشک آدمی ضرور خسارے میں ہے مگر جو ایمان لائے اور
انہوں نے اچھے کام کیے۔ اس آیت مبارکہ سے واضح ہوا کہ جو لوگ غفلت (لاپروائی) میں
اپنا وقت ضائع کرتے ہیں وہ نقصان میں ہیں۔
اسی مضمون پہ
مبنی حدیثِ نبوی ملاحظہ ہو، چنانچہ کریم آقا کریم ﷺ امت کو نصیحت فرماتے ہوئے
ارشاد فرماتے ہیں: پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو: (1) جوانی کو بڑھاپے سے
پہلے (2) صحت کو بیماری سے پہلے (3) مال کو فقر سے پہلے (4) فرصت کو مصروفیت سے
پہلے اور (5) زندگی کو موت سے پہلے۔ (مستدرك، 5/435، حدیث: 7916)
ایک جگہ اللہ کے
آخری نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند نہیں فرماتا جو اپنے کام
غیرسنجیدگی اور لاپروائی سے کرے۔
اس ساری بحث
سے معلوم ہوا کہ جو انسان وقت کو ضائع کرتا اور اپنے روز مرہ کاموں میں غفلت و
نادانی سے کام لیتا ہے وہ کامیاب نہیں ہو سکتا ہم دیکھتے ہیں کہ جو طلبائے کرام و
طالبات سارا سال اپنے اسباق پر توجہ نہیں دیتے انہیں امتحان کے دنوں میں سخت
پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض نتیجۃً ناکام ہو جاتے ہیں ایسے ہی اگر حضرت
انسان اپنا مقصدِ حیات فراموش کر دے اور دنیاوی عیش و عشرت میں مشغول ہو کر اللہ و
رسول کی نافرمانی کرے تو اسے بروزِ حشر سخت شرمندگی اور پریشانی اٹھانی پڑے گی اور
اگر خدا ناخواستہ اللہ پاک کی رحمت شاملِ حال نہ رہی اور آقا ﷺ نے پہچاننے سے
انکار فرما دیا تو جہنم ہی ٹھکانا ہو گی لہذا بہتری اسی میں ہے کہ قرآن و سنت کے
مطابق زندگی بسر کی جائے۔