اللہ تعالیٰ نے زمین کی زینت میں درختوں کو ایک اہم نعمت بنایا۔ ارشاد ربانی ہے: فَاَنْشَاْنَا لَكُمْ بِهٖ جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّ اَعْنَابٍۘ-لَكُمْ فِیْهَا فَوَاكِهُ كَثِیْرَةٌ وَّ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَۙ(۱۹) (پ 19، المؤمنون: 19) ترجمہ: اور ہم نے تمہارے لیے اس میں کھجور اور انگور کے باغات بنائے جن میں بہت سے پھل ہیں اور ان میں سے تم کھاتے ہو۔ یعنی درخت صرف زمین کی خوبصورتی نہیں، بلکہ ہماری بقا، رزق اور راحت کا ذریعہ ہیں۔

امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: درختوں کا سایہ مسافروں کے لیے اللہ کی نعمت ہے اور ہر نعمت پر شکر واجب ہے۔ (صید الخاطر، ص 142)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو مسلمان کوئی درخت لگائے یا کھیتی کرے، پھر اس میں سے کوئی انسان یا پرندہ یا جانور کھائے، تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوگا۔ (بخاری، 2/ 85، حدیث: 2320)

مزید فرمایا: اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور تمہارے ہاتھ میں ایک پودا ہو، اور تم اس کے لگانے پر قادر ہو، تو ضرور اسے لگا دو۔ (مسند امام احمد، 20/251، حدیث: 12902)

سبحان اللہ! یعنی درخت لگانے کی اہمیت اتنی ہے کہ قیامت کے لمحے میں بھی اسے لگانے کا حکم ہے۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: درخت کا پھل کھانے والا انسان ہو یا پرندہ، نفع دینے والی ہر چیز باعث اجر ہے۔ (مدارج النبوة، 1/290)

اکابرین اہل سنت کا انداز فکر: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہر وہ کام جو بندگان خدا کی فلاح کا ذریعہ بنے، وہ باعث قرب خدا ہے، اور ان میں ایک بہترین عمل درخت لگانا بھی ہے، جو مخلوق کو سایا، پھل اور فائدہ دیتا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 24/417)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: درختوں کا لگانا نفع عام ہے، اور نفع عام کا انتظام کرنا عبادت ہے۔ جو درخت سے فائدہ اٹھائے گا، وہ لگانے والے کے لیے نیکی کا باعث بنے گا۔ (مراۃ المناجیح، 2/410)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: پودا لگانا اور ہریالی پیدا کرنا مسلمانوں کے لیے باعث صدقہ جاریہ ہے، بشرطیکہ نیت نیک ہو اور اللہ کی رضا مقصود ہو۔ (بہار شریعت، 6/93، حصہ: 16)

شیخ عبدالغنی نابلسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: درخت لگانا مخلوق کے لیے امان، اور قیامت کے دن اپنے لگانے والے کے لیے گواہی ہے۔ (حواشی شرح عقائد نسفی، ص 118)

ایک سبق آموز واقعہ: ایک مرتبہ حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا اور شکایت کی: حضرت! بارش نہیں ہو رہی، کھیتیاں مرجھا رہی ہیں۔ تو آپ نے فرمایا: زمین کو ہرا کرو، درخت لگاؤ، اللہ کی رحمت برسے گی۔ چنانچہ لوگوں نے درخت لگائے، کھیت سنوارے، تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے خوب باران رحمت نازل فرمائی۔ (البدایہ والنہایہ، 9/310)

ہم اکثر دعا کرتے ہیں: یا اللہ ہمیں صدقہ جاریہ نصیب فرما! درخت لگانا بہترین صدقہ جاریہ ہے: جب تک وہ درخت زندہ ہے، جب تک اس سے کوئی سایہ لیتا ہے، جب تک کوئی جانور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے، ہر لمحہ لگانے والے کے اعمال نامے میں نیکی لکھی جاتی ہے۔ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: دنیا میں جو زمین کو سنوارتا ہے، قیامت میں اللہ اس کے لیے جنت کو سنوار دیتا ہے۔ (احیاء علوم الدین، 2/367)

آئیے! ہر سال کم از کم ایک درخت اپنے نام کا لگائیں۔ ہر بچے کے ہاتھ میں قرآن کے ساتھ ایک ننھا سا پودا بھی دیں۔ مسجدوں، مدرسوں، گھروں اور قبرستانوں کے اردگرد شجرکاری کریں۔ سایہ دار، پھل دار اور خوشبو دار درخت زیادہ لگائیں۔

یاد رکھیں! درخت دنیا میں بھی ٹھنڈی چھاؤں ہے اور آخرت میں بھی ٹھنڈی چھاؤں کا ذریعہ!

درخت لگانے کے 5 عظیم فائدے: درخت لگانا زمین پر زندگی کو فروغ دینا ہے اور اللہ تعالیٰ زندہ زمین سے راضی ہوتا ہے۔ جب تک درخت سے کوئی فائدہ اٹھائے گا، لگانے والے کے لیے نیکیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ درخت آکسیجن مہیا کرتے ہیں، فضا کو صاف کرتے ہیں اور زمین کو خوبصورت بناتے ہیں۔ پرندے، جانور اور انسان سب درختوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اور یہ خدمت عند اللہ مقبول ہے۔ احادیث میں ہے، نیک اعمال قیامت کے دن سایہ فراہم کریں گے، درخت لگانے کا عمل بھی اس میں شامل ہوگا۔

اللہ پاک ہمیں اخلاص کے ساتھ ہر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین