پودا
لگانا ہے درخت بنانا ہے از بنت محمود حسین،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

درخت ہماری
زندگی اور ماحولیاتی تبدیلی کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں موجودہ دور میں جو
ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ان سے بچنے کا واحد حل زیادہ سے زیادہ درخت
لگانے کی ضرورت ہے۔ ماحول دوست پودے زمین کا زیور اور آکسیجن کی فراہمی کا بڑا
ذریعہ ہے۔ درخت خوراک، پناہ گاہ، آکسیجن، لکڑی اور دیگر بے شمار فوائد فراہم کرتے
ہیں۔ درخت ہوا کو صاف اور ٹھنڈک پیدا کرتے ہیں مٹی کے کٹاؤ اور لینڈ سلائیڈنگ کو
روکتے ہیں دماغی صحت اور ماحول کو بہتر بناتے ہیں۔
درخت بڑھتی
ہوئی سموگ، شدید گرمی اور قدرتی آفات کو روکتے ہیں درختوں سے انسانوں کے ساتھ
جانور اور پرندے بھی سایہ، پھل اور پناہ گاہ حاصل کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے سرکاری
سطح پر کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو ٹاسک دیا جائے اپنے اپنے علاقوں کے
بڑے زمینداروں، نمبرداروں اور بلدیاتی نمائندوں کو فری پودے دیئے جائیں اور وہ
اپنے اپنے حلقوں میں محفوظ جگہ پر لگوائیں جہاں انکی دیکھ بھال بھی ہو سکے، شہر سے
تمام چکوں کو جانے والے روڈز اور نہروں کے دونوں اطراف پودے لگائیں۔
حکومت کی طرف
سے کسان حضرات کیلئے پالیسی بنا دی جائے جس کھال سے زمین (زرعی رقبے) کو پانی
لگایا جاتا ہے ہر کھال کے ساتھ ساتھ ہر 20 سے 30 فٹ کے فاصلے پر درخت لگائے جائیں،
جس سے انسان، جانور اور پرندے مستفید ہونے کے ساتھ ماحول بہتر اور خوشگوار ہوگا۔
حکومتی اداروں
کے ساتھ عوام الناس بھی ہر وہ این جی اوز اور سماجی کارکنوں کی حوصلہ افزائی کریں
جو بڑھ چڑھ کر شجر کاری مہم میں حصہ لیتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ پودے لگاتے ہیں۔
درخت لگائیں
زندگیاں بچائیں اور پاکستان کو سر سبز بنائیں۔ اگر آپ کا زمین کا گھر ہے اور گلی
ایسی چوڑی ہے کہ پودا لگایا جاتا ہے(قانونی یا عرفی طور پر ممانعت نہیں ہے) تو آپ اپنے گھر کے باہر پودا ضرور لگائیں پھر اس
کی نگہداشت کر تے ہوئے اسے درخت بھی بنائیں بڑے شہروں میں فلیٹ میں رہنے والے اتنے
مواقع نہیں پاتے لیکن آپ دعوت اسلامی کے فلاحی ادارے FGRF
کے تحت مختلف پارکوں اور عوامی مقامات پر پودے لگا سکتے ہیں اس کے لئے FGRFکے
مقامی ذمہ داران سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
پودا لگانا ہے
درخت بنانا ہے۔ ان شاء اللہ
پودا
لگانا ہے درخت بنانا ہے از بنت سجاد حسین مدنیہ،فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ

پودا لگانا
ماحول اور انسانیت دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ ہر شہر کی آب وہوا مختلف ہوتی
ہے،اسی کے مطابق پودے لگائے جائیں تو زیادہ فائدہ حاصل ہوگا۔ پودے لگانے سے پہلے
ان کے ماہرین مثلا باغبان وغیرہ سے مشاورت کر لی جائے کیونکہ بعض پودوں کے لگانے
کا طریقہ مختلف ہوتا ہے،ان کے لیے مخصوص پیمائش پر گھڑے کی کھدائی اور اس گھڑے میں
مخصوص پانی کی مقدار رکھنا بھی ضروری ہوتی ہے۔
ماہرین سے
مشاورت کے بعد پودے لگائیں گے تو ان شاء اللہ کثیر فوائد حاصل ہوں گے اور دیکھتے
ہی دیکھتے ساری دنیا میں ہریالی ہوگی،بالخصوص وطن عزیز پاکستان کی ہر گلی محلے میں
درختوں اور پودوں کی یہ ہریالی دیکھ کر عشاقانِ مدینہ گنبد خضرا کی یاد تازہ کریں
گے۔
پودے لگانا
ہمارے پیارے آقا ﷺ کی سنت مبارکہ بھی ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی پودے لگانے کی
ترغیب اور فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ پودے لگانے کے فضائل پر تین فرامین آخری نبی ﷺ ملا
خظہ کیجئے۔
1۔ جو مسلمان
درخت لگائے یا فصل بوئے پھر اس میں سے جو پرندہ یا انسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس
کی طرف سے صدقہ شمار ہوگا۔ (بخاری، 2/ 85، حدیث: 2320)
2۔ جس نے کوئی
درخت لگایا اور اس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا
تو اس میں سے کھایا جانے والا ہر پھل اللہ پاک کے نزدیک اس(لگانے والے)کے لیے صدقہ
ہے۔ (مسند امام احمد، 5/574، حدیث:16586)
3۔ جس نے کسی
ظلم و زیادتی کے بغیر کوئی گھر بنایا یا ظلم و زیادتی کے بغیر کوئی درخت اگایا،جب تک اللہ پاک کی مخلوق میں سے کوئی ایک
بھی اس میں سے نفع اٹھاتا رہے گا تو،اس (لگانے والے کو)ثواب ملتا رہے گا۔ (مسند امام
محمد، 5/309،حدیث 15616)
ان احادیث سے
ثابت ہوا کہ درخت لگانا بہت اجرو ثواب کا کام ہے۔
شجر
کاری کے معاشی اور معاشرتی فوائد: شجر کاری (یعنی درخت لگانے)کے ذریعے
بہت سے معاشی اور معاشرتی فوائد حاصل ہوتے ہیں، مثلا درخت لکڑی کے حصول کا ذریعہ ہیں اور لکڑی کا انسانی
ضروریات کو پوری کرنے میں کلیدی کردار ہے،فرنیچر، کھڑکیاں، دروازے، وغیرہ بنانے کے
لیے اب بھی لکڑی کا ہی استعمال ہوتا ہے۔
انسانی صحت کے
لیے پھلوں اور میوہ جات کی اہمیت کا بھی کوئی سمجھ بوجھ رکھنے والا انکار نہیں کر
سکتا اور یہ درخت ہی ہیں جو انسان کو
انواع واقسام کے پھل اور میوے مہیا کرتے ہیں بلکہ کئی پرندے اور جانور بھی ان
پھلوں کو کھا کر ہی جیتے ہیں۔
مسواک کرنا
ہمارے پیارے آقا ﷺ کی سنت ہے،اس سنت کی ادائیگی کے لیے بھی شجر کاری کرنی ہو گی
کیونکہ مسواک بھی درختوں سے ہی حاصل ہوتی ہے۔
پودے
لگانے کی احتیاطیں: پودے لگانے کے بعد انکی نگہداشت رکھنا،ان کو وقت پر
پانی دینا اور ان کے درخت بن جانے تک خوب احتیاط کرنا ضروری ہے۔اگر ایسا نہ کیا
گیا تو یہ پودے چند ہی دنوں میں مرجھا کر ختم ہو جائیں گےیا پھر کسی جانور کی غذا
بن جائیں گے۔
یاد
رکھیں!پودے کی مثال چھوٹے بچے کی طرح ہے جس طرح والدین چھوٹے بچے کی ہر چیز کا
خیال رکھتے ہیں اور خوب تن دہی سے اس کی پرورش کرتے ہیں، اگر تھوڑی سی بےتوجہی ہو
جائے تو بچہ کئی بیماریوں کی زد میں آسکتاہے، اسی طرح پودوں کا بھی معاملہ ہے کہ
انکی درست انداز میں آبیاری نہ کی گئی اور انہیں ایسے ہی لگ کر چھوڑ دیا گیا تو یہ
درخت بننے سے پہلے ہی مرجھا جائے گے۔
البتہ جب یہ
پودے تن آور درخت بن جائیں تو پھر انہیں خاص توجہ کی حاجت نہیں رہتی بلکہ درخت بن
جانے کے بعد یہ از خو د باقی رہ سکتے ہیں۔
نیز پودے لگا
نے کے بعد انکی صفائی ستھرائی اور کانٹ چھانٹ کا بھی خیال رکھنا ضروری ہےتاکہ کسی
کو بھی ان کی شاخوں اور ان سے جھڑنے والے پتوں وغیرہ سے ایذا نہ ہو۔
اہل
فارس کی طویل عمر ہونے کی وجہ: حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فارسی
کے رہنےوالے تھے۔فارس کے رہنے والے لوگوں کی عمریں طویل ہوتی تھی، اس کی وجہ بیان
کرتے ہوے مفسرین کرام فرماتے ہیں:فارس کے بادشاہ نہروں کی کھدائی اور شجر کاری میں
بہت رغبت رکھتے تھے،اسی وجہ سےان کی عمریں بھی لمبی ہوا کرتی تھیں۔
ایک نبی علیہ
السلام نے فارس کے لوگوں کی لمبی عمر سے متعلق اللہ پاک کی بارگاہ میں استفسار کیا
تو،اللہ پاک نے انکی طرف وحی فرمائی کہ یہ لوگ میرے شہر کو آباد کرتے ہیں، اسی وجہ
سے یہ دنیا میں زیادہ عرصہ زندہ رہتے ہیں۔
حضرت امیر
معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی آخری عمر میں کھیتی باڑی کا کام شروع کر دیا تھا۔ (تفسیر
کبیر، 6/367)

پودا لگانا
ایک نہایت اہم اور برکتوں سے بھرپور عمل ہے جو نہ صرف ماحول کو بہتر بناتا ہے ہے
بلکہ انسانیت کے لئے بھی فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ اسلام میں درخت لگانے کی بہت
زیادہ ترغیب دی گئی ہے کیونکہ یہ عمل نہ صرف زندگی کو بڑھاتا ہے بلکہ ثواب کا باعث
بھی بنتا ہے اس طرح پودا لگانے سے نہ صرف دنیاوی فائدے حاصل ہوتے ہیں بلکہ یہ ایک
نیک عمل کے طور پر آخرت میں بھی اجر و ثواب کا باعث بنتا ہے۔
احادیث مبارکہ
میں بھی پودے لگانے کی ترغیب اور فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ نیز پودے لگانے کے فضائل
پر 3 فرامین مصطفیٰ ﷺ ملاحظہ کیجئے:
1۔ جو مسلمان
درخت لگائے یا فصل بوئے پھر اس میں سے جو پرندہ یا انسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس
کی طرف سے صدقہ شمار ہوگا۔ (بخاری، 2/ 85، حدیث: 2320)
2۔ جس نے کوئی
درخت لگایا اور اس کی حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہاں تک کہ وہ پھل دینے لگا
تو اس میں سے کھایا جانے والا ہر پھل الله کے نزدیک اس (لگانے والے) کے لئے صدقہ ہے۔ (مسند امام احمد، 5/ 574، حدیث:
16586)
3۔ جس نے کسی
ظلم و زیادتی کے بغیر کوئی درخت اگایا جب تک الله کی مخلوق میں سے کوئی ایک بھی اس
میں سے نفع اٹھاتا رہے گا تو اس (لگانے
والے) کو ثواب ملتا رہے گا۔ (مسند امام احمد، 5/ 309، حدیث: 15616) ان احادیث
مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ درخت یا پودا لگانا اسلام میں نہایت پسندیدہ عمل ہے اور
یہ انسان کے لیے صدقہ جاریہ بن سکتا ہے اگر کوئی جانور، پرندہ یا انسان بھی اس سے
فائدہ اٹھائے تو الله اس پر اجر عطا فرماتا ہے۔
اہل
فارس کی طویل عمر ہونے کی وجہ: حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ فارس کے
رہنے والے تھے۔ فارس کے رہنے والوں کی عمریں طویل ہوتی تھی اس کی وجہ بیان کرتے
ہوئے مفسرین کرام فرماتے ہیں: فارس کے بادشاہ شجر کاری میں بہت رغبت رکھتے تھے اسی
وجہ سے ان کی عمریں بھی لمبی ہوا کرتی تھیں۔ ایک نبی علیہ السلام نے فارس کے لوگوں
کی لمبی عمر سے متعلق الله کی بارگاہ میں استفسار کیا تو الله نے ان کی طرف وحی
فرمائی کہ یہ لوگ میرے شہر کو آباد رکھتے ہیں اسی وجہ سے یہ دنیا میں زیادہ عرصہ
زندہ رہتے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ نے بھی اپنی آخری عمر میں کھیتی
باڑی کا کام شروع کر دیا تھا۔ (تفسیر کبیر، 6/ 367)
ایک بار مدینے
کے تاجدار ﷺ کہیں تشریف لے جا رہے تھےحضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کو ملاحظہ
فرمایا کہ ایک پودا لگا رہے ہیں۔ استفسار فرمایا: کہ کیا کر رہے ہو؟ عرض کی: درخت
لگا رہا ہوں۔ فرمایا: بہترین درخت لگانے کا طریقہ بتا دوں! سبحٰن الله والحمدلله و
لا الٰہ الّا الله و الله اکبر پڑھنے سے ہر کلمہ کے عوض (یعنی بدلے) جنّت میں ایک
درخت لگ جاتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/ 252، حدیث: 3807)
اس سے جہاں یہ
معلوم ہوا کہ پودے لگانا صحابہ کرام کا بھی طریقہ ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ ان
مذکورہ کلمات کو پڑھنے سے ہر ہر کلمے کے بدلے جنّت میں ایک ایک درخت لگا دیا جاتا
ہے۔
درخت
لگانے کی اچھی اچھی نیتیں: درخت لگانے کے لئے بہت سی اچھی اچھی
نیتیں کی جا سکتی ہیں مثلاً:
1: درخت لگا
کر آقا جان ﷺ کی ادا کو ادا کروں گا، کیوں کہ درخت لگانا آپ ﷺ سے ثابت ہے۔
2: صحابہ کرام
علیہم الرضوان نے بھی درخت لگائے اور کھیتی باڑی کی، لہذا شجر کاری کر کے ان کی
ادا کو ادا کروں گا۔
3: درخت لگا
کر ماحولیاتی آلودگی کو کم کروں گا، تا کہ مسلمانوں کے لئے راحت و سکون کا سامان
ہو۔
4: درخت لگا
کر صدقہ کا ثواب کماؤں گا، اس طرح کہ درخت آکسیجن پیدا کرتے ہیں جو انسان اور
جانوروں کے لئے یکساں مفید ہے۔
اس کے علاوہ
بھی حسب حال اچھی اچھی نیتیں کی جا سکتی ہیں۔
اہم
بات! پودے
لگانے کے بعد ان کا خیال رکھنا، ان کو وقت پر پانی دینا اور ان کے درخت بن جانے تک
ان کی خوب احتیاط کرنا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو پودے چند دنوں میں مرجھا
کر ختم ہو جائیں گے یا پھر کسی جانور کی غذا بن جائیں گے۔
یاد رکھیے! پودے
کی مثال چھوٹے بچے کی طرح ہے کہ جس طرح والدین چھوٹے بچے کی ہر چیز کا خیال رکھتے
ہیں کہ اگر تھوڑی سی بے توجہی ہو جائے تو بچہ کئی بیماریوں کی زد میں آ سکتا ہے،
اسی طرح پودوں کا بھی معاملہ ہے کہ اگر ان کی درست انداز میں آبیاری نہ کی جائے انہیں
لگا کر ایسے ہی چھوڑ دیا جائے تو یہ درخت بننے سے پہلے ہی مرجھا جائیں گے۔ نیز
پودے لگانے کے بعد ان کی صفائی ستھرائی اور کانٹ چھانٹ کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔
پودا
لگانا ہے درخت بنانا ہے از بنت محمد اشرف،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

دعوت اسلامی
کے شعبہ فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن (FGRF) نے پودا لگانا ہے درخت بناناہے کے مقصد سے
30 جولائی 2021 میں اس مہم کا آغاز کیا جس میں شیخ طریقت امیر اہلسنّت بانی دعوت
اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ اوردعوت
اسلامی کے ہر سطح کے ذمہ داران اور اسلامی بھائیوں نے بھرپور حصہ لیا اورFGRF
کی جانب سے ملنے والی رپورٹ کے مطابق جنوری 2021ء سے اب تک ملک وبیرون میں ہزاروں
مقامات پر 2ملین (یعنی 20لاکھ)سے زائد پودےلگائے جاچکے ہیں۔اس کے علاوہ مزید پودے
لگانے اور لگائے گئے پودوں کی نگہداشت کا کام بھی بحسن خوبی انجام دیا جارہا ہے۔
شجرکاری جو اس
وقت ایک اہم ایشو ہے، مقامی اور عالمی طور پر کانفرنسز سمینارز ہورہے ہیں،تشہیری
مہمیں چلائی جارہی ہیں لوگوں کو درخت لگانے کی ترغیبیں دلائی جارہی ہیں، ہمارا
پیارا دین اسلام جو کہ انسان کے وجود وبقاء کا ضامن دین فطرت ہے، اس میں ظاہری
وباطنی اور انفرادی و اجتماعی نظافت وپاکیزگی پر بہت زور دیا گیا ہے، اس نے
تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے شجرکاری کی اہمیت بتائی چنانچہ:
اللہ پاک کے آخری
نبی محمد عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے کوئی درخت لگا یا اور اس کی حفا ظت اور
دیکھ بھال پر صبر کیا یہا ں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اس میں سے کھایا جانے والا
ہرپھل اللہ پاک کے نزدیک اس کے لئے صدقہ ہے۔ (مسند امام احمد،5/574، حدیث: 18586)
نبی کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: جومسلمان درخت لگا ئے یا فصل بوئے پھر اس میں سے جوپرند ہ یا انسا ن
کھا ئے تو وہ اسکی طر ف سے صدقہ شما ر ہوگا۔ (مسلم،ص 840، حدیث: 1553)
دوسری روایت
میں ہے کہ مسلمان جو کچھ اگائے پھر اس میں سے کوئی انسان یا جانور یا پرند ہ کھائے
تو وہ اس کے لئے قیامت تک صدقہ ہوگا۔ (مسلم، ص 839، حدیث:1552)
حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے مروی حدیث پاک میں وہ سات چیزیں جن کا ثواب انسان کو مرنے کے بعد بھی
ملتا رہتا ہے ان میں سے ایک درخت لگانا بھی ہے۔ (مجمع الزوائد، 1/ 408، حدیث: 769)
مشہور صحابی
رسول حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دمشق میں ایک جگہ کھیتی بورہا
تھا، ایک شخص میرے قریب سے گزرا تو اس نے مجھ سے کہا کہ آپ صحا بئی رسول جیسا منصب
حاصل ہونے کے باوجود یہ کام کررہے ہیں! تو میں نے اس سے کہا میرے بارے میں رائے
قائم کرنے میں جلد بازی مت کرو کیونکہ میں نے رسول پاک ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
جس نے فصل بوئی تو اس فصل میں سے آدمی یا مخلوق میں سے جو بھی کھائے گا وہ اس کے
لئے صدقہ شمار ہو گا۔ (مسند امام احمد،10/ 421، حدیث: 27576)
درخت
لگانے کے طبعی اور طبی فوائد:
آکسیجن
کی فراہمی کا ذریعہ: یہ آکسیجن خارج کرتے ہیں اور آکسیجن کی انسانی
زندگی میں ضرورت سے ہر شخص آگاہ ہے۔
خوشگوار
ماحول کا سبب: یہ
کاربن ڈائی اکسائیڈ کو جذب کرکے ماحول کو خوشگوار بنانے میں اپنا اہم کردار
اداکرتے ہیں۔
ادویات
کے حصول کا ذریعہ: مختلف اقسام کی ادویات کے بنانے میں درختوں کی جڑیں
اورپتے وغیرہ استعمال ہوتے ہیں، تحقیق کے مطابق پودوں اور جڑی بوٹیوں پر مشتمل
ادویات کے کاروبار کا حجم دنیا بھر میں تقریباً 83 ارب ڈالر ہے۔
ذہنی
تناؤ اور ڈپریشن میں کمی اور انسانی صحت کا ضامن: درختوں کی
موجودگی کو خوشگوارصحت مند زندگی کی ضامن بھی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ انہیں
دیکھنے اور اس کے درمیان رہنے سے لوگوں کو ذہنی و جسمانی طور پرخوشگوار تازگی کا
احساس ہوتا ہے جونہ صرف ذہنی طور پر بلکہ کئی جسمانی امراض سے محفوظ رکھتے ہوئے
انہیں صحت مند بناتی ہے جبکہ درختوں کے درمیان رہنے سے ان کی تخلیقی کارکردگی میں
بھی اضافہ ہوتا ہے۔
صوتی
آلودگی میں کمی: ماہرین
کے مطابق اربن پلاننگ میں اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کے ارد گرد
اور زیادہ شور شرابے والے مقامات جیسے فیکٹریوں اور کارخانوں کے قریب زیادہ سے
زیادہ درخت لگانے سے ماحول کوپرسکون بنایاجاسکتا ہے۔ آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے
کہ ہمیں بھی اس عظیم مہم میں حصہ لینے کی کوشش عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین
پودا
لگانا ہے درخت بنانا ہے از بنت عبدالمجید،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

ماحولیاتی
آلودگی کی روک تھام اور فضا کو سانس لینے کے قابل بنانے کے لیے درخت لگانے کی بہت
زیادہ ضرورت ہے۔ درخت اور پودے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور آکسیجن
مہیا کرتے ہیں۔ آکسیجن انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر انسان
زندہ نہیں رہ سکتا۔جن علاقوں میں بڑی تعداد میں درخت موجود ہوتے ہیں اس علاقے کو
سیلاب کا خطرہ بے حد کم ہوتا ہے۔
درخت کی جڑیں
نہ صرف خود اضافی پانی کو جذب کرتی ہیں بلکہ مٹی کو بھی پانی جذب کرنے میں مدد
دیتی ہیں جس کے باعث پانی جمع ہو کر سیلاب کی شکل اختیار نہیں کرتا۔شدید گرمی کی
صورت میں درخت درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکتے ہیں۔
درخت لگانے کی
وجہ سے زمینی کٹاؤ سے بھی حفاظت ہوتی ہے،درختوں کی موجودگی تناؤ اور ڈپریشن کو کم
کرکے لوگوں کو ذہنی و جسمانی طور پر صحت مند بناتی ہے جبکہ درختوں کے درمیان رہنے
سے ان کی تخلیقی کارکردگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور انسان کے دل و دماغ کو سکون
ملتا ہے۔
درخت لگانے کی
اہمیت کا اندازہ حضور نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔
چنانچہ ہمارے پیارےنبی محمد عربی ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے کوئی درخت لگا یا اور اس
کی حفاظت اور دیکھ بھال پر صبر کیا یہا ں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اس میں سے
کھایا جانے والا ہرپھل اللہ پاک کے نزدیک اس کے لئے صدقہ ہے۔ (مسند امام احمد، 5/ 574،
حدیث: 18586)
مشہور صحابی
رسول حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دمشق میں ایک جگہ کھیتی بورہا
تھا، ایک شخص میرے قریب سے گزرا تو اس نے مجھ سے کہا کہ آپ صحا بئی رسول جیسا منصب
حاصل ہونے کے باوجود یہ کام کررہے ہیں! تو میں نے اس سے کہا میرے بارے میں رائے
قائم کرنے میں جلد بازی مت کرو کیونکہ میں نے رسول پاک ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
جس نے فصل بوئی تو اس فصل میں سے آدمی یا مخلوق میں سے جو بھی کھائے گا وہ اس کے
لئے صدقہ شمار ہو گا۔ (مسند امام احمد،10/ 421، حدیث: 27576)
زیادہ سے
زیادہ پودے لگائیں اور اپنی ذہنیت کو سکون دیں اس سے مثبت اثرات پیدا ہوتے ہیں اگر
ہم چھوٹا سا پودا لگاتے ہیں تو وہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے درخت بنے گا۔
ایک تحقیق کے
مطابق اگر آنے والے زمانے میں درخت نہ رہیں تو سانس لینا بھی دشوار ہوگا ہمیں
زیادہ سے زیادہ درخت لگانے چاہیے۔