"یہ
حدیث کسی کتاب میں نہیں"،
"
اس حدیث کو کسی نے بھی روایت نہیں کیا،
"
اس حدیث کی کوئی اصل نہیں"،
لہذا
یہ حدیث "موضوع"(Fabricated Hadith)
ہے۔
یہ وہ
جملے ہیں جو میں اور آپ کسی ایسی حدیث کے متعلق مباحثے(Debate)
کے دوران بارہا سنتے ہیں جب وہ حدیث کسی
شخصیت کی منقبت و عظمت یا کسی کام کے کرنے کی فضیلت وغیرہ پر دلالت (Indication)کر
رہی ہوتی ہے لیکن وہ حدیث کتبِ حدیثیہ کے
مصادر و اصول(Origin) میں نہیں ملتی فقط متاخرین کی کُتُب میں ملتی ہے۔
کہنے
والے کا طریقۂ استدلال(Argument Method) یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی
حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمائی ہے تو یقیناً اس کا اندراج (Entry)محدثین کی امہات کُتُبِ حدیثیہ مثلاً صحاحِ ستہ، مسانید، مؤطا و
معاجم وغیرہ میں ہونا ہی چاہیئے۔ اگر یہ حدیث اِن کُتُب میں موجود نہیں تو مطلب یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے نہیں فرمائی اور حدیث موضوع ہے۔
کہنے
کو تو بات بڑی بھلی لگتی ہے لیکن نظر ِتحقیق میں معاملہ بالکل مختلف نظر آتا ہے کیونکہ یہ
دعویٰ تو گویا ایسے ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پوری حیات ِطیبہ میں آپ کی
زبان اقدس سے جو کچھ جاری ہوا یا آپ
سےجتنے بھی افعال صادرہوئے وہ تمام کے
تمام اِن کُتُبِ حدیثیہ میں شامل کئے جا چکے ہیں، حالانکہ یہ تو صریح غلط
فہمی و خلاف واقع بات ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان قادری رحمۃُ
اللہِ علیہ اسی غلط فہمی کو ختم کرنے کے لئے لکھتے ہیں:
”ان
حضرات کا دابِ کلی (عمومی عادت)ہے کہ جس امر
پر اپنی قاصر نظر، ناقص تلاش میں حدیث نہیں پاتے اس پر بے اصل(Baseless)
و بے ثبوت ہونے کا حکم لگادیتے، اور اس کے ساتھ ہی صرف اس بناء پر اسے ممنوع و
ناجائز ٹھہرا دیتے ہیں۔ پھر اس طوفانِ بے
ضابطگی کا وہ جوش ہوتا ہے کہ اس اپنے نہ پانے کے مقابل علماء ومشائخ کی تو کیا گنتی
حضرات عالیہ ائمہ مجتہدین رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کے
ارشادات بھی پایۂ اعتبار سے ساقط اور ان کے احکام کو بھی یونہی معاذ اللہ باطل و
غیر ثابت بتاتے ہیں۔ یہ وہ جہالت بے مزہ ہے جسے کوئی ادنٰی عقل والا بھی قبول نہیں
کرسکتا، ان حضرات سے کوئی اتنا پوچھنے والا نہیں کہ ''کے آمدی وکے پیرشدی''
(کب
آئے اور کب بوڑھے ہوئے)۔ بڑے بڑے اکابر محدثین ایسی جگہ "لم أر"
و "لم أجد" پر
اختصار کرتے ہیں یعنی ہم نے نہ دیکھی ہمیں نہ ملی، نہ کہ تمہاری طرح عدمِ وجدان(نہ
پانے)
کہ عدم وجود(نہ
ہونے)
کی دلیل ٹھہرادیں۔
صاحبو!
لاکھوں حدیثیں(محدثین) اپنے
سینوں میں لے گئے کہ اصلا تدوین (Collation) میں بھی نہ آئیں۔ امام بخاری رحمۃُ
اللہِ علیہ
کو چھ لاکھ حدیثیں حفظ تھیں، امام مسلم رحمۃُ اللہِ علیہ کو تین
لاکھ، پھر صحیحین میں صرف سات ہزار حدیثیں ہیں۔ امام احمد رحمۃُ اللہِ
علیہ
کو دس لاکھ محفوظ تھیں مسند میں فقط تیس ہزار ہیں۔ خود شیخین وغیرہما ائمہ سے
منقول کہ ہم سب احادیث صحاح کا استیعاب (تمام صحیح احادیث کو جمع کرنا) نہیں
چاہتے۔“ ([1])
یعنی
لاکھوں احادیث ایسی ہیں کہ اَجِلّہ محدثین کو یاد تھیں، لیکن زمانۂ تدوین میں ان
کا اندراج مصادر کُتُب میں نہ ہوسکا، تو یہ کہنا کیسے درست ہوگا کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم
کی مبارک زندگی میں صادر ہونے والے تما م اقوال و افعال کُتُب حدیثیہ میں موجود و محفوظ ہیں؟
پھر
جو احادیثِ مبارکہ کُتُب مدونہ(Edited Books) میں شامل کر لی گئیں کیا وہ تمام کی
تمام بھی اب تک باقی ہیں؟ ہر گز نہیں۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ مزید فرماتے
ہیں:
"اب
جو حدیثیں تدوین میں آئیں ان میں سے فرمائے کتنی باقی ہیں؟ صدہا کتابیں کہ ائمہ دین
نے تالیف فرمائیں محض بے نشان ہوگئیں اور یہ آج سے نہیں ابتداء ہی سے ہے۔ امام
مالک رحمۃُ اللہِ علیہ کے زمانے میں اَسّی
(80) علماء نے مؤطا لکھیں پھر سوائے مؤطائے مالک ومؤطائے
ابن وہب کے اور بھی کسی کا پتا باقی ہے؟ امام مسلم رحمۃُ اللہِ
علیہ
کے زمانے کو ابو عبد اللہ حاکم نیشاپوری صاحب ِمستدرک کے زمانے سے ایسا کتنا فاصلہ
تھا پھر بعض تصانیفِ مسلم کی نسبت امام ابن حجر نے حاکم سے نقل کیا کہ ”معدوم ہیں“۔
وعلی ھذہ القیاس صدہا بلکہ ہزارہا تصانیف ائمہ کا کوئی نشان نہیں دے سکتا، مگر
اتنا کہ تذکروں ،تاریخوں میں نام لکھا رہ گیا۔“ ([2])
معلوم
ہوا کہ کئی احادیث مبارکہ ایسی ہیں کہ اولاً یا تو ان کا اِندراج(Entry) کُتُبِ
حدیثیہ میں بطورِ تدوین نہ ہوسکا یاہوا بھی تو بدقسمتی سے ہم تک ان کی رسائی نہ ہو سکی۔
لہذاایسا
قطعاً ضروری نہیں کہ کوئی حدیث اگر کسی کتاب میں موجود نہ ہو تو اس حدیث کا وجود
بھی نہ ہو، کیونکہ تمام کی تمام احادیث ہم تک پہنچنےوالی کُتُب میں موجود ہوں ایسا
ہر گز نہیں ۔ یہ تو پھر بھی کتابوں کا معاملہ ہے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے
متعلق بھی اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:
”خود
أجلّہ صحابہ کرام جو گاہ بگاہ سفر وحضر میں دائماً بارگاہِ عرش جاہ حضور رسالت
پناہ علیہ
وعلیہم صلوات اللہ
میں حاضر رہتے یہاں تک کہ حضرات خلفائے اربعہ وحضرت عبد اللہ بن مسعود وغیرھم رضی اللہ
تعالی
عنہم بھی یہ دعوٰی نہیں کرسکتے تھے، کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کے کل اقوال
وافعال پر ہمیں اطلاع ہے، کُتُب احادیث پر جسے نظر ہے وہ خوب جانتاہے کہ بعض باتیں
ان حضرات پر بھی خفی (پوشیدہ) رہیں ”تا بدیگرے چہ رسد (دوسروں
تک کیا پہنچے )۔“([3])
صاف
ظاہر کہ جب صحابہ کرام علیہم الرضوان کے
متعلق حضور ِ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تمام
احادیث پر مطلع ہونے کا دعویٰ متصور (Imagined) نہیں تو بعد میں صحابہ کرام علیہم الرضوان
کے ذریعے نقل شدہ احادیث کے متعلق، ان احادیث پر مشتمل تدوین شدہ کُتُب کے متعلق،
ان میں سے باقی رہ کر آج ہمارے ہاتھوں تک
پہنچنے والی کُتُب کے متعلق یہ دعویٰ کیسے متصور ہوسکتا ہے؟ ظلم تو یہ کہ بعض غیر
سنجیدہ و جری نو مولود محققین فقط شاملہ (Searching Software) اور گوگل کی سرچنگ پر اکتفاء کرکے یہ جملے کہتے ہیں:
"یہ
حدیث کسی کتاب میں نہیں"،
"
اس حدیث کو کسی نے بھی روایت نہیں کیا،
"
اس حدیث کی کوئی اصل نہیں"،
لہذا
یہ حدیث "موضوع" ہے۔
حالانکہ
ہم واضح کر آئے کہ اگر حدیث کسی کتاب میں موجود نہیں تو ضروری نہیں کہ وہ حدیث
سِرے سے ہو ہی نہیں ، کیا بعید کہ زیرِ بحث حدیث بھی انہی احادیث میں سے ہو کہ اس کا اندراج کُتُب میں نہ ہو سکا ہو؟ کیا
بعید کہ اس کا اندراج تو ہوا ہو لیکن کتاب ہی اصلاً مفقود ہو گئی ہو؟ اور بالفرض
کتاب بھی موجود ہو تو کیا سرچنگ سافٹ وئیرشاملہ میں روئے زمین کی تمام کُتُب موجود
ہیں؟ بالکل نہیں،اس میں تو فقط آٹھ سے نو ہزار (8000 to 9000) کُتُب موجود ہیں باقی ہزاروں کُتُب ہیں جو
شاملہ میں موجود نہیں۔
لہذا بہتر یہی ہے کہ ایسے جملوں سے بچا جائے، بغیر سوچے سمجھے حدیث کو موضوع قرار
دینے میں جلدی نہ کی جائے، کیونکہ جس طرح فقط متاخرین ائمہ کی معتبر تصانیف میں
ایسے حدیث کا وجود اس کے ثبوت (صحیح و حسن ہونے)
کےلئے کافی نہیں اسی طرح اس کے مردودو موضوع ہونے کے لئے بھی کافی نہیں، الّا یہ کہ کوئی معتمد امام
اس کے موضوع ہونے کی صراحت فرمادیں۔ والله اعلم۔
مولانااسعد شاہد عطاری مدنی (متخصص فی الحدیث)
نگران شعبہ تدوینِ مخطوطات،مرکزخدمۃ الحدیث(دعوتِ اسلامی)
Dawateislami