گھریلو اخراجات کیسے پورے ہوں؟

میٹھےمیٹھےاسلامی بھائیو! دنیا میں اللّٰہ پاک نے تمام انسانوں کو ایک جیسا رِزْق عطا نہیں فرمایا، بعض لوگ غریب ہیں، بعض مُتَوسِّط (درمیانے یعنی نہ غریب ، نہ امیر) اور بعض امیر، اس میں اللّٰہ پاک کی بے شمار حکمتیں ہیں، ان میں سے ایک حکمت اس حدیثِ قُدسی(1) میں بیان ہوئی ہے، چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں جن کے ایمان کی بھلائی مالدار ہونے میں ہے، اگر میں انہیں مالدار نہ کروں تو وہ کُفْر میں مبتلا ہو جائیں گے اور میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کے ایمان کی بھلائی مالدار نہ ہونے میں ہے، اگر میں انہیں مالدار کردوں تو وہ کُفْر میں مبتلا ہو جائیں گے۔(ابنِ عساکر،7/96)

بعض مُتَوسِّط اورغریب لوگ آمدنی کم اور اخراجات کے زیادہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہوکر اللہ پاک کی جناب میں نامُناسب اور بسا اوقات کفرِیّہ الفاظ بھی بول جاتے ہیں اور انمول دولت ’’ایمان‘‘ سے محروم ہوجاتے ہیں۔ تھوڑی آمدنی کی صورت میں اللہ پاک کی رِضا پر راضی رہتے ہوئے صبر و قناعت کے ساتھ زندگی گزارئیےاور اس کے فائدے حاصل کیجئے۔ تھوڑے رزق پر راضی رہنے کا فائدہ رسولِ اكرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اللہ پاک سے تھوڑے رِزق پر راضی رہتا ہے اللہ پاک اس کے تھوڑے عمل سے راضی ہو جاتا ہے۔(شعب الایمان، 4/139، حدیث:4585) بَسا اوقات کمانے والا

(1)وہ حدیث جس میں فرمان اللہ پاک کا ہواورالفاظ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہوں۔

فرد خود کو تھوڑے رزق پر راضی کرلیتا ہے لیکن اس کے دیگر فیملی ممبران اپنی غیرضروری فرمائشوں کا اس پر ایسا بوجھ ڈالتے ہیں جس سے اس کی زندگی اَجِیرن (مشکل) ہوکر رہ جاتی ہے۔ کم آمدنی میں بھی پُرسکون رہنے کے چند طریقے (1)ماہانہ راشن، ٹرانسپورٹیشن (سفری اخراجات)، گیس، بجلی، اگر کِرائے کے گھر میں رہتے ہیں تو اس کا کِرایہ اور بچّے ہیں توان کے تعلیمی اخراجات وغیرہ کا اپنی آمدنی کے مطابق ہی بجٹ بنائیے، پھر اس پر قائم بھی رہئے (2)گھر والوں کو چاہئے کہ گھر کے سربراہ یا کمانے والے فرد پر زیادہ کمانے کا پریشر (دباؤ) ڈالنے کے بجائے خود کو کم خرچ پرآمادہ کریں، آپ کے پریشر ڈالنے کی وجہ سے زیادہ کمانے کے چکّر میں کہیں وہ دھوکا دہی اور کرپشن (بدعنوانی/حرام روزی کمانے) میں مبتلا نہ ہوجائے (3)تمام فیملی ممبران (گھروالوں) سے گزارش ہے کہ آمدنی اگرچہ کم ہو، مَحَبّت سے رہیں کہ آپس میں اِتفاق و مَحَبّت کی وجہ سے اللہ پاک کم رِزْق میں بھی برکت دے دےگا، لڑنے جھگڑنے اور آپس میں مُنہ چڑھا کر رہنے سے آمدنی تو نہیں بڑھے گی البتّہ گھریلو مَسائل میں اضافہ ہوجائے گا (4)بسا اوقات سوچ سوچ کر انسان اپنے آپ کو خود ہی پریشان کرتا ہے، مثلاً میرے پاس پہننے کے لئے کپڑے اور جوتے فلاں صاحبِ ثَرْوَت (امیر شخص) جیسے ہوں، میرے پاس گاڑی فلاں امیرآدمی جیسی ہو، میرا گھر ایسی ایسی خُصوصیات والا ہو اور میرے پاس موبائل تو سب سے مہنگے والا ہو وغیرہ، جبکہ اس کے مقدّر میں اس طرح نہیں ہوتا، لہٰذا اپنا یہ ذہن بنائیے کہ جو مقدّر میں ہے وہ ہی ملے گا میرے چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اخراجات کم کرنے کے چند طریقے لوگ عموماً آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے اس بات کی فِکْر میں رہتے ہیں کہ سیلری (تنخواہ) بڑھ جائے یا میری اِنکم (آمدنی) کے ذرائع بڑھ جائیں جبکہ اپنے اَخراجات کم کرنے کا ذہن کسی کسی کا ہوتا ہے، چنانچہ اخراجات کم کرنے کے چند طریقے مُلاحَظہ فرمائیے: (1)تمام فیملی ممبران آپس میں مشورہ کرکے یہ طے کریں کہ گھر میں جو شخص اچّھے انداز سےخریداری (purchasing) کرنا جانتا ہو گھر کا راشن و دیگر سامان لینے کی ذِمّہ داری اسی کے حوالے کی جائے (2)جو خریدنا ہو پہلے اس کی لسٹ بنالی جائے اور پھر خریداری کے لئے جایا جائے اور بہتر یہی ہےکہ ہول سیل والی قیمت پر ہی اشیا خریدی جائیں (3) شادی بیاہ اور دیگر اس طرح کے ایونٹس (تقریبات یعنی شادی، ختنہ یا اور کوئی موقعہ جس پر رشتہ دار وغیرہ جمع ہوں) پر غور کرلیا جائے کہ اگر پہلے سے موجود کپڑے اور جوتے وغیرہ پروگرام میں پہننے کے قابل ہوں تو نئے لینے کے بجائے انہی سے کام چلایا جائے (4)باہر کھانا دوستوں کے ساتھ ہو یا اپنی فیملی کے ساتھ اس سے پرہیز ہی کیا جائے تو بہتر ہے اگرچہ آپ کی آمدنی اچّھی ہی کیوں نہ ہو، اِس سے جہاں خرچہ بچے گا وہیں آپ کی اور آپ کے گھر والوں اور بچّوں کی صحّت کا تَحفّظ بھی ہے (5) جو بچّے تعلیم کے لئے جاتے ہیں ان کا لَنچ بکس (یعنی دوپہرکا کھانا) گھر میں ہی بناکر دیا جائے، یوں ہی جو اَفراد دفتر وغیرہ جاتے ہیں باہَر سے کھانا لینے کے بجائے گھر سے ہی لے جانا شُروع کردیں (6)ڈاکٹر کے مشورے سے دودھ پیتے بچّوں کو ہو سکے تو مائیں خود ہی دودھ پلائیں، اس سے جہاں بچّوں کی صحّت میں بہتری آئے گی وہاں دودھ کےڈَبوں میں خرچ ہونے والی رَقْم کی بچت بھی ہوگی (7)بجلی سے چلنے والے آلات کو بقدرِ ضرورت ہی استعمال کریں، ضرورت پوری ہوجائے تو بند کردیں، نیز بجلی سے چلنے والے جن آلات سے بِل کم آتا ہو یا جس طریقۂ استعمال سے بِل میں نمایاں کمی واقع ہوسکتی ہو اسے ہی اپنایا جائے، مثلاً اےسی کے تھرمو اسٹیٹ میں چند ڈگری کی تبدیلی بجلی کے بل میں نمایاں کمی لاسکتی ہے، اسے 25 یا 26 پر رکھ کر بچت کی جاسکتی ہے (8)کم آمدنی والے افراد اپنے دفتر یا جہاں کام کرتے ہیں وہاں سہولت سےآنے جانے کی سوچ میں کسی مہنگے علاقے میں کرائے کا گھر لینے کے بجائے کچھ ٹریفک کی پریشانی برداشت کرکے کسی سستے علاقے میں گھر لیں (9)سیلری بڑھتے ہی اخراجات نہ بڑھائے جائیں، اس لئے کہ لوگ سیلری بڑھتے ہی اپنے اَخراجات بڑھا دیتے اور پھر بَسا اَوقات آمدنی سے بھی زیادہ اَخراجات ہوجاتے ہیں، لہٰذا یہ کوئی عَقْل مَندی نہیں ہے کہ سیلری بڑھتے ہی اَخراجات بھی بڑھادیئے جائیں (10)سگریٹ، پان، گٹکا، مختلف قسم کی چھالیا اور مین پوری وغیرہ اور اس طرح کی دیگر بُری عادات سے خود کو بچانے میں صحّت کے تَحفّظ کے ساتھ ساتھ ان چیزوں میں اُڑائے جانے والے پیسوں کی بچت بھی ہے، نیز موبائل فون اور نیٹ کے بےجا استعمال سےبھی پرہیز کیجئے۔ رزق میں برکت آمدنی چاہے کم ہو یا زیادہ جب تک اس میں برکت نہیں ہوگی بچت کی کوئی بھی تدبیر کارگر نہیں ہوگی، لہٰذا رزق میں برکت کے چندمدنی پھول پیشِ خدمت ہیں: (1) کھانا کھانے سے پہلے اور بعد ہاتھ دھونا رزق میں برکت لاتا ہے (2)گھر میں داخل ہوتے ہی سلام کرنے اور سورہ ٔ اخلاص پڑھنے سے رِزْق میں برکت ہوتی ہے (3)جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے رَزْق میں برکت ہوتی ہے (4)سچ بولنے سے رِزْق میں برکت ملتی ہے (5)بِسمِ اللہ شریف پڑھ کر کھانا کھانے سے رِزْق میں برکت ہوتی ہے۔

میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ ذکر کئے گئے مدنی پھولوں پر عمل اور سادہ طرزِ زندگی (Life Style) اپنا کر اپنے گھریلو اخراجات پر قابو پائیے۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ دین و دنیا کی بے شمار برکات نصیب ہوں گی۔


پردیس کی مشکلات

پیارے اسلامی بھائیو! جتنا رِزْق ہمارے مُقدّرمیں لکھاہے وہ ہمیں مل کر رہے گاچاہے ہم کہیں بھی ہوں، لہٰذا جائز ذرائع اپناکراللہ پاک پربھروسا کرتےہوئےاپنےہی ملک میں روزگارحاصل کرناچاہئے۔یہ کہنا کہ یہاں روزگارنہیں ہے یا ہمیں پوری نہیں پڑتی یا اس کے علاوہ کسی دُنیاوی غرض کی بنا پر بیرونِ ملک رہنے کاسوچ لینادانشمندی نہیں کیونکہ عُموماً یہاں سے جانے والے افرادجن دینی یادُنیاوی آزمائشوں کا شکار ہوتے ہیں ان کا تدارُک وہاں سےحاصل ہونےوالاپیسہ نہیں کرسکتا۔ پھر بیرونِ ملک جانےوالے اَفراد دو قسم کے ہوتے ہیں:

(1)قانونی (Legal) طریقے سے جانے والے اور (2)غیرقانونی (Illegal) طریقے سے جانے والے۔ غیرقانونی ذرائع سے بیرونِ ملک سفر کے نقصانات اس کے لئے رشوت دی جاتی ہے جھوٹ بولاجاتا ہے اپنی جان اورعزّت کو داؤ پر لگایا جاتا اور دونوں ملکوں کے قوانین کو توڑا جاتا ہے بسااوقات کوئی ایجنٹ ان افرادسے رقم وصول کرکے یا پھر کچھ رقم ایڈوانس اور بقیہ دوسرے ملک پہنچ جانے کے بعد وصول کرنے کی شرط پر انہیں ایسے راستے سے لے جاتا ہے کہ جو جنگل بیابان، برفانی پہاڑ، دریا اور سمندروغیرہ پرمشتمل ہوتا ہے، ایسے سفر میں جن مصیبتوں اور خطرات کا سامنا ہوتا ہے ان میں بھوک، پیاس، سردی، ایجنٹ اور اس کے کارندوں کی طرف سے مارپیٹ،غیرقانونی طور پرسرحد(Border) عبور کرتے ہوئے فائرنگ کانشانہ بننے کا خوف!اس طرح کے غیرقانونی اور پُرخطر سفر کی وجہ سے اب تک لوگوں کی ایک تعداد اپنے ہاتھ یا پاؤں سے معذور ہوچکی،کئی اپنی جان کی بازی ہارچکےاور کئی لاپتا ہوچکےہیں۔ چھ عبرتناک واقعات(1)ایک غیر قانونی سفر کے دوران برفانی راستے میں ایک شخص کے ہاتھ شل ہوگئے،ڈاکٹروں کے پاس سوائے ہاتھ کاٹنے کے اور کوئی چارا نہ تھا،بالآخِراس شخص کو ہاتھ کٹواناہی پڑے۔(2)اپنے مطلوبہ ملک پہنچنے کیلئے برفانی پہاڑ کوعُبور کرتے ہوئےایک شخص سَرپر چوٹ لگنے کی وجہ سے بےہوش ہوگیا،بقیہ ساتھی اسے وہیں چھوڑ کر آگے روانہ ہو گئے، بالآخر برف میں پڑے رہنے کی وجہ سے اس کا پاؤں ناکارہ ہو گیا جسے بعد میں کاٹنا پڑا۔(3)دوسگے بھائی ایک کشتی پر سوار تھے،ایک بھائی کوکھانسی ہوئی جو رکنے کانام نہیں لے رہی تھی، ایجنٹ نے کہا:اسے خاموش کراؤ ورنہ سب لوگ سمندر میں موجود نیوی(Navy)اہلکاروں کے ہاتھوں پکڑے جائیں گے، کھانسی کو روکنا اس شخص کے اختیار میں نہ تھا،بالآخر پکڑے جانے کےڈر سے ایک بھائی کے سامنے دوسرے بھائی کوسمندر میں پھینک دیاگیا۔ (4)ایک ملک کے بارڈر پرفائرنگ کی وجہ سے ایک شخص کوٹانگ میں گولی لگی، وہ شخص پوری زندگی کیلئے اس ٹانگ سے معذور ہوگیا۔ (5)ایک نوجوان اسی سفر میں کسی ملک کےبارڈرپر پکڑاگیا،وہاں اس پر ظالمانہ جسمانی تشدّد کیا گیا جس کی وجہ سے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے آٹھ ماہ بعداس کا انتقال ہوگیا۔(6)ایک نوجوان اسی طرح کے سفرپر نکلابرسوں گزرگئے اس کاکوئی پتا نہ چلا، اس کے غم میں بوڑھے باپ کوفالج ہوگیا۔ ہلاکتوں کی تعداد انسانی اسمگلنگ کا یہ سلسلہ پوری دنیامیں پایا جاتاہے، ایک رپورٹ کے مطابق 2017ء میں تارکینِ وطن افراد کے ہلاک ہونے کی تعداد 30800 ہے، جن میں بارڈر پار کرتےہوئےقتل کئے جانے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔مطلوبہ ملک پہنچنے کے بعد کی آزمائشیں بسااوقات بیرونِ ملک لے جانے والے ایجنٹس کا گینگ بنا ہوتا ہے،یہ ساتھ لے جانے والے افراد کو اس گینگ کے سِپُرْد کردیتا ہے جو ان سے چوریاں اورڈکیتیاں کرواتےہیں،مزید رقم کے لئے ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ اپنے گھر والوں سے پیسے منگوا کر دو اورجو نہ منگوائے اس پر طرح طرح کا تشدّد کرتے ہیں،مثلاًاس کےجسم کو گرم استری سے داغنا، بجلی کےجھٹکے لگانا، چھریوں سےکٹ لگانااور ڈنڈوں سے مارپیٹ کرنا وغیرہ۔ اگربیرونِ ملک کسی کوکوئی جائز کام مل بھی جائےتوکام مکمل کرنے کے بعدجب وہ اپنی مزدوری یا سیلری لینے کی بات کرتاہےتو کام کروانے والا اسے دھمکی دیتا ہےکہ پولیس کوبلاؤں؟ بالآخر جو ملے اسے چپ چاپ لینا پڑتا ہے۔ مزدوروں کے کھانےکے وقت اگرگوشت کاسالن ہوتوایک ہی سالن مسلمان کو کسی حلال جانور کا نام لے کر جبکہ غیرمسلم کو خنزیر یا اس کےمذہب پر جس جانورکےگوشت کا کھانادرست ہو اس کانام لیکر کھلادیا جاتا ہے۔ بیٹا کیا کررہے ہو؟ بیرونِ ملک سے ایک شخص کااپنے گھروالوں سے رابطہ ہوا جب والد سے بات ہوئی تووالد نے پوچھا: بیٹا کیا کررہےہو؟جواب دیا: ابو! جھاڑو دے رہاہوں۔یہ کہتے ہی کال کٹ گئی، دوبارہ رابطہ ہوا توپتا چلاکہ یہ سنتے ہی باپ کاہارٹ فیل ہوگیا اوراسی وقت وہ دنیاسے رُخْصت ہو گیا۔ ان تمام تَر دُنْیَوی آزمائشوں کےعلاوہ بِالخصوص ایسےمَمالِک میں جہاں بےحیائی، فحاشی اورعُریانی عام ہے ،بہت سے ایسے اُمور ہیں کہ جن کی وجہ سے ایک مسلمان کادین وایمان وہاں خطرے میں پڑا رہتا ہے۔رِزْق کی تنگی کے شکار تمام عاشقانِ رسول سے میری فریاد ہے کہ بیرونِ ملک جانے کی بجائےاپنے ہی ملک میں رہتے ہوئے محنت کریں، ضرورتاً اپنے ہی ملک کےبڑے شہروں کا رُخ کریں اور جو حلال روزی نصیب ہو اس پر گزارہ کرلیں، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سُکھی رہیں گے ۔


امن کےسب سےبڑےداعی

Sat, 31 Aug , 2019
5 years ago

امن کےسب سےبڑےداعی

اَمْن بظاہر ایک چھوٹا سا لفظ ہےمگر گھر میں ہوتو ذِہْنی سکون، معاشرے میں ہو تو جانی و مالی اطمینان، ملک میں ہو تو قوم کی ترقّی اور خوش حالی کا ضامن اور معاون ہوتا ہے۔ اگرامن عالمی سطح پر ہوتو ہزاروں لاکھوں قیمتی جانوں کے ضائِع ہونے اور اربوں کھربوں روپوں کے نقصانات سے قوموں کو مَحفوظ رکھتا ہے۔ شایددنیا میں کوئی بھی ذِی شُعور و عقلمند شخص ایسا نہیں ہو گا جو اس کی اہمیت و افادیت اور خوبی سے انکار کرے۔ جہاں بدامنی ہوتی ہے وہاں* لوگوں کى اَملاک (Properties) کو نقصان پہنچتا ہے* قتل و غارت کا بازارگرم ہوتا ہے * عورتیں بىوہ اوربچّے ىتىم ہوجاتے ہیں * ہڑتالوں کی کثرت ہوتی* کاروباری طبقہ بِالخصوص روز کماکر کھانے والے مزىد آزمائش میں آجاتے ہیں*روڈٹوٹ پُھوٹ جاتے ہیں یا بند کردئیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے مسافروں خُصُوصاً مریضوں کواسپتال پہنچانے والے مشکل میں گِھرجاتے ہیں، الغرض بدامنى سے دىن و دنىا دونوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

اَمْن و سَلامتى کى اہمىت کا اندازہ اس بات سے لگاىا جاسکتا ہے کہ حضرتِ سیّدُنا ابراہىم علیہ السَّلام نے جو دُعائىں کى ہىں، ان مىں سے اىک اہم دُعا ىہ ہے:یَااللہ! اس شہر(مکّہ مکرّمہ) کو اَمْن والا بنادے۔ (پ13، ابرٰھیم:35 ماخوذاً) چاند کو دىکھ کر پڑھی جانے والى دُعا پر غور فرمائىں تو ہمارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس دُعا مىں اَمْن و سلامتى کا ذکر کىاہے:اَللّٰہُمَّ اَہِلَّــہٗ عَلَـیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ رَبِّیْ وَ رَبُّکَ اللّٰہ ترجمہ:اے اللہ! اسے ہم پر امن وامان ،سلامتی اور اسلام کا چاند بناکرچمکا، اے چاند! میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔

 ( دارمی، 2/7، حدیث:1688)

یوں تو اَمْن کے دعویدار بہت گزرے لیکن انسانوں کی بقا اور معاشرے میں اَمْن و سَلامتی قائم کرنے کے جو اُصول ہمارے پیارے آقارَحْمۃٌ لِّلْعٰلَمین صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے عطا فرمائے وہ نہ کوئی مذہب پیش کرسکا اور نہ کبھی کسی قوم کے لیڈر نے دئیے ہیں ۔ اس دنیا میں ایک دور وہ گزرا ہے کہ گویا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اُصول لاگو تھا۔ جس شخص کے پاس طاقت ہوتی وہ جو چاہتا کرگزرتا اور کوئی اسے روک نہ پاتا۔ اس طرزِ عمل نے معاشرے کو اندھیرنگری بنا دیا تھا۔ یتیموں ، بیواؤں اور غلاموں پر ظُلْم و سِتم کا بازار گرم تھا، اغواو بدکاری عام تھی، چوری، ڈاکہ زنی اور حَقْدار کو اس کے حق سے محروم کرنا لوگوں کا وتیرہ بن چکا تھا۔ کمزور فریادکرتا رہتا مگراس کی فریاد سُننے والا کوئی نہ ہوتا۔ ایسے گھٹن زدہ وَحْشت ناک ماحول میں اللہ پاک نے سِسکتی انسانیت پر رَحْم فرمایا اوررَحْمتِ عالَم، رسولِ محتشم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم اَمْن کے سب سے بڑے داعی بن کر اس دنیا میں جلوہ گر ہوئے اورحق و صداقت اور امن و عافیت کا پرچم بُلند فرمادیا۔ معاشرے کے امن و سکون کو برباد کرنے والوں کو اس عمل سے روکنے کے لئے شَرْعی سزاؤں کا نِفاذ کیا چوری، بدکاری اور شراب نوشی جیسے گھناؤنے افعال کی سزائیں مقرّر کیںناجائز طریقے سے ایک دوسرے کا مال کھانے، سُود خوری اور جُوئے کو حرام قرار دیا ایک شخص کے ناحق قتل کوگویا ساری انسانیت کا قتل قرار دیا عرب قبائل میں اتحاد و اتفاق پیدا کیاغیر مسلم سے بھی بد عہدی اور وعدہ خلافی کو ممنوع قرار دیا نہ صرف خود مظلوموں کی دادرَسی کی بلکہ انسانیت کی بقا کیلئے یتیموں، بیواؤں، مسکینوں اور غریبوں کی کفالت کے فضائل بیان کئے نیز عورتوں، بچّوں، غلاموں اور بوڑھوں کے الگ الگ حقوق ذکر کرکے معاشرے کو اعتِدال کی راہ پر گامزن فرمایا۔ یہاں تک کہ بدامنی کی لہر کو روکنے کے لئے یہ کلمات فرمائے:جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے تو اسےمعاف رکھو اور اس کی بُرائی مت کرو۔ (ابو داؤد،4/359، حدیث:4899) اعلانِِ نبوت کے بعد اپنی 13 سالہ مکّی زندگی کفّار و مشرکین کے ظُلْم و سِتم سہتے ہوئے گزاری،آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چاہتے تو فتحِ مکّہ کے موقع پر ایک ایک شخص سے ظلم کا حساب لے لیتے مگر اپنے جانی دشمنوں کو بھی مُعاف کرکے عَفْو و دَرْگُزر اور امن و امان کی اعلیٰ مِثال قائم کی۔ جہاں تلوار و بازوئے طاقت سے کام لیا تو وہاں بھی انسانیت کو اس کی معراج تک پہنچانے، حقوقِ انسانی میں مساوات ،عَدْل و اِنْصاف اور اَمْن و امان کا نظام قائم کرنے کے عظیم مقاصِد کارفرما تھے اور اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے صَحابہ کی ایسی بہترین تربیَت فرمائی کہ بعد میں آنے والے حکمران ان کے نَقْشِ قدم پر چل کر ملکی و قومی اور معاشرتی سطح پر امن و امان قائم کرتے نظر آئے۔ جس تیزی کے ساتھ دین ِاسلام کو قبول کیا گیا اور ابھی تک اس کے ماننے والوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ اسلام انسانوں کی بقا، سَلامتی اور معاشرے میں امن و امان کا سب سے بڑاعَلَم بردار ہے ۔

یاد رکھئے ! امن کو ہر سطح پر نافِذ کرنا اور پھر اسے برقرار رکھنا یقینا ً ایک مشکل مرحلہ ہے۔ اگر ہم امن و امان اور فلاح و کامیابی چاہتے ہیں تو ہم سب کوامن کے سب سے بڑے داعی، محسنِ انسانیت، نبیِ رَحْمت صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے عطا کردہ اصولوں اور شریعت کی پاسداری کرنی پڑے گی، اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ آئيے دعا کريں:اے اللہ کريم! ہمارے دىن و اىمان ، جان و مال اور عِزت و آبرو کى حفاظت فرمااور ہمىں اورہمارے شہروں کو اَمْن و سلامتى عطا فرما۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

زبان کا استعمال

Fri, 30 Aug , 2019
5 years ago

زبان کا استعمال

پیارے اسلامی بھائیو! زبان کا اچھا استعمال جنّت میں جانے کا ذریعہ جبکہ اس کا غلط استعمال ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے، اسے اس حکایت سے سمجھئے، حضرتِ سیِّدنا ابوبکر شبلی بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادِی فرماتے ہیں:میں نے اپنے مرحوم پڑوسی کو خواب میں دیکھ کر پوچھا، مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ؟ یعنی اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ وہ بولا: میں سخت ہولناکیوں سے دو چا ر ہوا، مُنکَر نکیر کے سُوالات کے جوابات بھی مجھ سے نہیں بَن پڑ رہے تھے، میں نے دل میں خیال کیا کہ شاید میرا خاتمہ ایمان پر نہیں ہوا! اتنے میں آواز آئی:”دنیا میں زَبان کے غیر ضَروری استِعمال کی وجہ سے تجھے یہ سزا دی جارہی ہے۔“ اب عذاب کے فِرِ شتے میری طرف بڑھے۔ اتنے میں ایک صاحِب جو حُسن و جمال کے پیکر اور مُعَطَّر مُعَطَّر تھے وہ میرے اور عذاب کے درمیان حائل ہوگئے اور انہوں نے مجھے مُنکَر نکیر کے سُوالات کے جوابات یاد دلا دیئے اور میں نے اُسی طرح جوابات دے دیئے، اَلْحَمْدُلِلّٰہِعَزَّوَجَلَّ عذاب مجھ سے دُور ہوا۔ میں نے اُن بُزُرگ سے عرض کی:اللہ کریم آپ پر رحم فرمائے آپ کون ہیں؟ فرمایا: تیرے کثرت کے ساتھ دُرُود شریف پڑھنے کی بَرَکت سے میں پیدا ہوا ہوں اور مجھے ہر مصیبت کے وقت تیری امداد پر مامور کیاگیا ہے۔

(غیبت کی تباہ کاریاں، ص 116 بحوالہ القول البدیع، ص260)

آپ کا نامِ نامی اے صَلِّ عَلٰی

ہر جگہ ہر مصیبت میں کام آ گیا

زبان کے استعمال کی اہمیت جیسے کسی بڑے برتن کے اندر کئی طرح کے پھول رکھے ہوں اور اس کا ڈھکن کھولا جائے تو ان پھولوں کی خوشبو ہر طرف پھیل جاتی ہے، یوں ہی اگر کسی گٹر کا ڈھکن کھولا جائے تو بدبو کے اس قدر بھبکے اٹھتے ہیں کہ جس سے آس پاس کا خوشگوار ماحول بھی متأثر ہونے لگتا ہے، اسی طرح انسان جب بولتا ہے تو وہ اپنی شخصیت کا تعارف پیش کررہا ہوتا ہے، اس کے الفاظ اس کی سمجھداری، معلومات اور کردار کا پتا دیتے ہیں، جن لوگوں کا باطن میٹھے مدینے کے مدنی پھولوں سے مہکتا ہو، عشقِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے جن کا سینہ رچا بسا ہو وہ جب لب کھولتے اور بولتے ہیں تو شمعِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے پروانے کھنچے چلے آتے ہیں، لیکن بعض لوگ جب بولتے ہیں تو ان کی گفتگو اتنی فحش و بےحیائی سے بھرپور ہوتی ہے جیسے گٹر کا ڈھکن کھل گیا ہو یا ایسے بولتے ہیں جیسے دلوں پر تیر چلا رہے ہوں کیونکہ ان کی گفتگو طعنہ زنی اور دل آزاری پر مشتمل ہوتی ہے۔

الفاظ کب تیر بنتے ہیں؟ عموماً انسان کی گفتگو کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے، جیسا مقصد ویسی گفتگو، اگر سامنے والے کا دل خوش کرکے ثواب کمانے کا ارادہ ہو تو گفتگو بھی اچھے اور ستھرے الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے، اگر مخاطَب پر غصہ اتارنا مقصود ہے یا اسے طعنہ دینے، نیچا دکھانے اور ذلیل کرنے جیسے گناہوں بھرے مَقاصِد ہوں تو گفتگو بھی ان ہی الفاظ پر مشتمل ہوگی، نتیجۃً اس سے مخاطب کا دل پارہ پارہ ہوجائے گا۔

عموماً جن لوگوں کے الفاظ تیر بنتے ہیں عام طور پر جن لوگوں کو کسی پر تسلط حاصل ہوتا ہے جب وہ بولتے ہیں تو تولتے نہیں، نتیجۃً ایسوں کی گفتگو مخاطَبین (سامنے والوں) کے دلوں پر تیر برسنے کے مترادف ہوتی ہے، مثلاً ٹیچر کی اسٹوڈنٹ سے گفتگو، والدین کی اولاد سے، نگران کی ماتحت سے، سیٹھ کی نوکر سے، شوہر کی بیوی سے، مالک مکان کی کرائے دار سے۔ پھر زبان کا دُرست استعمال نہ کرنے والوں کی اپنی حالت ایسی ہوتی ہے کہ ہر وقت ٹینشن کے شکار، تکالیف میں مبتلا، اداسی ان کے چہروں پر چھائی رہتی، ان کی مسکراہٹ پھیکی پھیکی سی اور کم دورانیہ والی ہوتی ہے، لوگ ان کے قریب جانا پسند نہیں کرتے، جو مجبوری کی وجہ سے قریب ہوتے ہیں وہ دور ہونے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔

پہلے تولو! بعد میں بولو! لہٰذا یہ سوچنا ضَروری ہے کہ میرے بولنے کا مقصد کیا ہے، کسی کا دل دُکھانا یا خوش کرنا، گالی دینا یا دعا دینا، کسی کی حوصلہ افزائی کرکے اس کے لئے ترقّی کی راہیں ہموار کرنا یا پھر کسی کی حوصلہ شکنی کرکے اسے ناکارہ بنا دینا وغیرہ، میری تمام مسلمانوں سے فریاد ہے کہ جس طرح ہم اپنے ہاتھ کو چلاتے ہوئے سوچتے ہیں کہ کہیں یہ کسی کو لگ نہ جائے یا کسی چیز سے ٹکرا کر زخمی نہ ہوجائے تو اسی طرح زبان کے استعمال سے پہلے بھی ہمیں سوچنا اور اس مدنی پھول ”پہلے تولو! بعد میں بولو!“ پر عمل کرنا چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں احترامِ مسلم کا جذبہ عطا فرما کر پہلے تولنے اور بعد میں بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اداروں کی بربادی کےاسباب

کسی بھی فیکٹری،دفتر (Office)یا ادارے میں کام کرنےوالے افراد عموماًدوطرح کےہوتے ہیں : نگران(Supervisor) اور ماتحت،اِنہیں کے دم قدم سے دفاتر اور ادارے چلا کرتے ہیں۔ دفتری عملے کے باہمی تعلقات(Relationship) بھی دو طرح کے ہوتے ہیں:(1)نگران اور ماتحتوں کا تعلق (2) ماتحتوں کا آپس میں تعلق۔ جب تک یہ تعلقات ٹھیک رہتے ہیں دفترکاماحول خوشگواررہتاہے، کام اچھے اندازمیں ہوتاہےاورادارہ ترقی کرتاہے، جبکہ باہمی تعلقات کشیدہ ہونے کی صورت میں دفتر کاماحول خراب ہوتا، کام پر اثر پڑتاہے۔ دونوں قسم کے تعلقات کے بارے میں کچھ تفصیل ملاحظہ فرمائیے: (1)نگران اورماتحتوں کا تعلق نگران اگر اپنے ماتحتوں کی عزتِ نفس کا خیال رکھنے والا،خوش اخلاق ،نرم مزاج، مسکرا کر بات کرنے والا ،شیریں گفتار ہو تو دفتر یا ادارے میں حقیقی مدنی ماحول بنانے میں کافی آسانی ہوگی۔ فطری طور پر ہرانسان خوش اخلاق شخص کے قریب آتا ہے۔مذکورہ بالا اوصاف کا حامل نگران نہ صرف ہر دل عزیز بن جائے گا بلکہ ماتحت اس کی ہدایات پر بخوشی عمل کرکے ادارے کی شبانہ روز ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔اس کے برعکس تُند مزاج، بداخلاق، بات بات پرماتحتوں کو جھاڑنے لتاڑنے والے،ابے تبے کے عادی اور فحش زبان استعمال کرنے والے نگران کی کامیابی بہت مشکل ہے۔اس کے شر سے بچنے کے لئے ماتحت اگرچہ کچھ نہ کہیں تاہم ان کے دل میں نفرت بیٹھ جاتی ہے اور وہ اس کے سائے سے بھی بھاگتے ہیں جس کا نتیجہ ادارے کی بربادی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ (2)ماتحتوں کا آپس میں تعلق ایک ساتھ کام کرنے والے ماتحتوں کے باہمی تعلقات بھی ادارے کی ترقی کے لئے اہم ہوتے ہیں۔اگر آپس میں محبت اور اتفاق کا ماحول نہ ہو اور ساتھ بیٹھنے اور کام کرنے والوں کو ایک دوسرے کی شکل سے بھی نفرت ہو تو بھلا ایسا ادارہ کس طرح ترقی کرسکتا ہے۔ایک دوسرے کی عزت نہ کرنا،گالی گلوچ،فحش گفتار اور بحث و تکرار نیز دوسروں کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی باہمی تعلقات کو خراب کرنے اور گناہوں میں مبتلا ہونے کے اسباب ہیں۔ دنیا و آخرت کو برباد کرنے والے تین گناہ کام کے مقام (Work Place)پر ہونے والےگناہوں میں بدگمانی ، حسداور شماتت(دشمن ومخالف کی مصیبت پر خوش ہونا) بھی شامل ہیں۔ساتھ کام کرنے والے مسلمان کی ترقی(Promotion) نیز تنخواہ اور دیگر مراعات میں اضافے پر بدگمانی کرنا کہ افسروں کی خوشامد و چاپلوسی ،سفارش یا رشوت سے اسے حاصل کیا ہے۔حسد کرتے ہوئے تمنا کرنا کہ یہ ترقی چھن جائے،تنخواہ یا مراعات(سہولتیں) کم ہوجائیں اور اگر ساتھ کام کرنے والے کسی فرد کا نقصان ہوجائے تو اس پرشماتت یعنی خوش ہونا، فی زمانہ یہ بیماریاں عام ہیں۔یہ تینوں یعنی بدگمانی ،حسد اور شماتت ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں۔ان کی بدولت نہ صرف آخرت برباد ہوتی ہے بلکہ ان کی وجہ سے ادارے کا کام بھی متاثر ہوتا ہے۔ باطنی بیماریوں کا علاج ضروری ہے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ دیگر گناہوں کے ساتھ ساتھ بدگمانی ،حسد اور شماتت وغیرہ سے بھی بچے اور اگر ان کا شکار ہوچکا ہو تو علاج کا سامان کرے۔ان تینوں گناہوں کی پہچان حاصل کرنےنیز ان کے اسباب اور علاج کی معلومات کے لئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب”باطنی بیماریوں کی معلومات“کا مطالعہ فرمائیے۔ میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ خدارا !جس طرح دنیوی بیماریوں سے ڈرتے اور ان کے علاج کی تدبیر کرتے ہیں اسی طرح بلکہ اس سےبھی زیادہ گناہوں کی بیماریوں سے خوف کھائیں اور مبتلا ہونے کی صورت میں علاج فرمائیں۔ خدا کی قسم!گناہوں کے امراض دنیا اور آخرت دونوں میں باعثِ نقصان اور ایمان برباد ہونے کی صورت میں ہمیشہ کے لئے جہنم کا سامان ہیں۔


خدارا ! ہوش کیجئے

14مارچ2018ءکوکراچی میں محمد علی جناح روڈ پر اسپتال کے قریب سے نَوزَائیدہ بچوں (New Born Babies)کی 3 لاشیں ملیں۔ پولیس واقعے میں مُلَوَّث کسی شخص یا اِدارے کا تعیُّن نہ کر سکی۔ ریسکیو اِداروں کے اَعداد و شمار کے مطابق2017ء میں ملک بھر سے 755 نوزائیدہ بچوں کی لاشیں ملیں 310 کراچی کی کچرا کونڈیوں اور گٹروں سے بَرآمد ہوئیں۔ رَواں سال جنوری 2018 میں 15، فَروری میں 22 اور مارچ کے 14دِنوں میں 12 نوزائیدہ بچے بے رَحْمی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔(دنیا نیوز آن لائن)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اِس طرح کى خبرىں نئى نہىں ہىں، ماضى میں بھی ایسی خبروں کا سلسلہ رہا ہے، لہٰذا ایسی خبروں کے بنىادى اَسباب (Basic Reasons) پر غور کرنے کى سخت حاجت ہے۔ ان کے بنیادی اَسباب میں سے اىک سبب بےشرمى اور بےحىائى کا فروغ پانا ہے جس مىں پرنٹ میڈیا اور الىکٹرونک مىڈىا کا کردار کسى سے ڈھکا چھپا نہىں۔ مغرِبى دُنىا کے ساتھ ساتھ وہ مَمالِک جہاں مسلمانوں کى اَکثرىت ہے بلکہ وہ ملک جو اِسلام کے نام پر آزاد ہوا اگر وہاں بھى کنوارى لڑکیوں کے ماں بننے کى تعداد مىں اِضافہ ہوتا رہے، نوزائىدہ بچے اسپتالوں مىں چھوڑ دئیے جائیں اور وىلفىئر فاؤنڈیشن والے اپنے اِداروں کے باہر جُھولے لگائىں کہ بچوں کو مارنے کے بجائے ان جھولوں میں ڈال دیں،تو اب باقی رہ کىا گىا ہے! یاد رکھئے! اس بُرائی کى روک تھام کے لئے وقتی طور پر گفتگو کر لینا کافى نہىں بلکہ قراٰنِ کرىم اور اَحادیثِ مُبارَکہ کے اِرشادات کو سامنے رکھتے ہوئے ان پر عمل کرنا ہو گا۔ قراٰن پاک میں بدکاری سے روکا گیا ہے اور اسے بےحیائی اور بہت بری راہ قراردیا گیا ہے۔

دَرسِ قُرآن گر ہم نے نہ بھلاىا ہوتا

ىہ زمانہ نہ زمانے نے دِکھاىا ہوتا

بَدکاری سے بچنے کے لئے اىسے مَضامىن، مَناظر اور تصاوىر جن سے بَدکارى کی خواہش کو تحرىک ملتى ہو سے بچنے کے ساتھ ساتھ بالخصوص اَجنبی عورَتوں کے ساتھ تنہائی اِختیار کرنے سے بچنا بھی ضَروری ہے۔ فرمان مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: خبردار ! کوئی شخص جب کسی (اجنبی) عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے تو وہاں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ (ترمذی، 4/67، حدیث: 2172) مِراٰۃ المناجیح میں ہے:جب کوئی شخص اَجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں ہوتا ہے خواہ وہ دونوں کیسے ہی پاکباز ہوں اور کسی (نیک) مَقْصَد کے لئے (ہی) جمع ہوئے ہوں (مگر)شیطان دونوں کو برائی پر ضَرور اُبھارتا ہے اور دونوں کے دِلوں میں ضَرور ہیجان پیدا کرتا ہے، خطرہ ہے کہ زِنا (بدکاری) واقع کرا دے! اس لئے ایسی خَلْوَت (یعنی تنہائی میں جمع ہونے) سے بَہُت ہی اِحتیاط چاہئے،گناہ کے اَسباب سے بھی بچنا لازم ہے، بخار روکنے کیلئے نزلہ و زکام( کو) روکو۔ (مِراٰۃُ المناجیح،5/21) بَدکاری سے بچنے کے لئے اس کے ہولناک عذاب کا علم ہونا بھی ضَروری ہے۔فرمان مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: تم ضرور اپنی نگاہیں نیچی رکھو گے اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو گے اور اپنے چہرے سیدھے رکھو گے یا پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ تمہاری شکلیں بگاڑ دے گا۔(معجمِ کبیر، 8/208، حدیث: 7840)منقول ہے کہ جہنّم میں آگ کے تابوت میں کچھ لوگ قید ہوں گے کہ جب وہ راحت مانگیں گے تو ان کے لئے تابوت کھول دیئے جائیں گے اور جب انکے شعلے جہنمیوں تک پہنچیں گے تو وہ بیک زبان فریاد کرتے ہوئے کہیں گے: یااللہ! ان تابوت والوں پر لعنت فرما ۔یہ وہ لوگ ہیں جو عورتوں کی شرمگاہوں پر حَرام طریقے سے قبضہ کرتے تھے۔(بحر الدموع، ص:167)

مىرى تمام ماں باپ سے یہ فرىاد ہے کہ وہ اپنے شادى بىاہ، خوشى غمى،تعلىمى اِداروں اور اپنے گھر بار کے معاملات پر غور کرىں اور اِسلام کے وہ بنىادى اُصول اور قوانین جن کا تعلق چادر اور چار دِىوارى، پَردے ، شرم و حىا اور نگاہیں نىچى رکھنے سے ہے ان پر عمل کو یقینی بنائیں،اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس برائی میں نمایاں کمی آئے گی ۔ اس حوالے سے شیخ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب ”پردے کے بارے میں سوال جواب“ پڑھنا بے حد مفید ہے۔ 


غریبوں کی مدد کیجئے

اللہ پاک نے اپنی کامل قدرت اور حکمت سے اس کائنات کو پیدا فرما کر انسانوں کو اس میں بَسایا ۔ پھر انسانوں میں سےکسی کو مالدار تو کسی کو غریب ونادار، کسی کو طاقتور تو کسی کو کمزور بنایا ہے۔ یہ اللہپاک کی تقسیم ہے اس پر ہر ایک کو راضی رہنا چاہیے۔ مگر بَدقسمتی سے مالداروں کی ایک تعداد ہے جو اپنے مال کو اللہپاک کی رضا کے لئے غریبوں اور مسکینوں میں خرچ کرنے کے بجائے اسے اپنے فن اور طاقت کا کمال سمجھ کر روکے بیٹھی ہے اور دوسری طرف غریب ونادار لوگوں کی بھی ایک تعداد ہے جو اپنی غربت وناداری پر صبر کرنے کے بجائے شِکوہ وشکایت کرتی نظر آتی ہے۔ اسی غربت کے سبب ملک و بیرونِ ملک میں خودکشى کے واقعات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ والدین اپنی گود میں پلنے والی اولاد کو اپنے ہی ہاتھوں قتل کر کے خود بھی خود کشی کر رہے ہیں۔

یاد رکھئے!خودکشى گناہِ کبیرہ، حرام اور جہنم مىں لے جانے والا کام ہے۔ خود کُشی کرنے والے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری جان چُھوٹ جائے گی حالانکہ اس سے جان چھوٹتی نہیں بلکہ نہایت بُری طرح پھنس جاتی ہے جیسا کہ مکی مَدنی سلطان، رحمتِ عالمیان، رسولِ ذیشان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جوشَخص جس چیز کے ساتھ خود کُشی کرے گا وہ جہنَّم کی آگ میں اُسی چیز کے ساتھ عذاب دیا جائے گا۔ (بخاری،  4/289، حدیث:6652)

خودکشی کا ایک سبب خودکشى کے کئى اَسباب ہىں،جن میں سے ایک سبب تنگدستى اور فقرو فاقہ ہے۔ امیرِ اہلِ سنَّت، حضرتِ علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے مَدَنی مذاکرے میں خودکشی کی روک تھام کے لئے ایک مَدَنى پھول عطا فرماىا ہے: ”مخىر حضرات جنہىں اللہ پاک نے مال دىا ہے وہ اپنى آمدنى سے ان غرىب لوگوں کى مدد کرىں۔“میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عموماً ہر خاندان مىں اس طرح کے کئی اَفراد ہوتے ہىں جنہیں اللہ پاک نے مال و اَسباب عطا کىے ہوتے ہىں، اگر وہ اس مَدَنی پھول پر عمل کرتے ہوئے اپنے خاندان کے غرىب لوگوں کى ماہانہ مدد کرىں یا ان کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرىں تو اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ خودکشی کے ذَریعے حرام موت مرنے کے واقعات کی کچھ روک تھام ہو جائے گی۔صدقے کی فضیلت فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:بے شک صدقہ کرنے والوں کو صدقہ قبر کی گرمی سے بچاتا ہے، اور بلاشبہ مسلمان قيامت کے دن اپنے صدقہ کے سائے ميں ہوگا۔(شُعَبُ الايمان، 3/212، حديث:3347) دُگنا ثواب رشتہ داروں کی مالی مدد کرنےمیں نفلی صدقے کے ساتھ ساتھ صِلۂ رحمی کا ثواب بھی ملتا ہے، فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:عام مسکین پر صدقہ کرنا ايک صدقہ ہے اور وہی صدقہ اپنے قَرابت دار(قریبی رشتہ دار)پر دو صدقے ہيں ايک صدقہ دوسرا صِلہ رحمی۔(ترمذی، 2/142،حديث:658)اسی طرح ہزاروں بلکہ لاکھوں کى تعداد مىں اىسے گھرانے بھی ہیں جو اپنے زائد اَخراجات کو کم (Reduce) کر کے ماہانہ آٹھ دس ہزار یا جتنا بھی ممکن ہو سکے کسى غرىب گھرانے کو دے کر ان کی مدد کر سکتے ہىں۔ اپنے زائد اَخراجات پر کنٹرول کر کے یہ رقم بچانا ان لوگوں کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن غریبوں کا بہت بھلا ہو جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ کئى لوگ جو خودکشى کا سوچ رہے ہوں تو اللہ پاک کی رَحْمت سے آپ انہیں بچانے مىں کامىاب ہوجائىں۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمہے : جس نے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کی وہ ایسا ہے جیسے اُس نے ساری عُمْر اللہ تعالیٰ کی عِبادت کی ۔ (کنزالعمال،6/189، رقم:16453)

مىرى تمام عاشقانِ رسول اور دَرد مند مسلمانوں سے فرىاد ہے کہ آپ اپنى ماہانہ آمدنى مىں سے کسى غرىب کے گھر کا کچھ نہ کچھ خرچ اپنے ذِمے لىں، ہوسکتا ہے کہ آپ کے اس تعاون کی وجہ سے غربت کی لپیٹ میں آکر مرجھانے والی کلیاں دوبارہ کِھل اُٹھیں۔


اپنے پچوں کی حفاظت کیجئے

(4جنوری2018ء)قصور (پنجاب) کی رہائشی سات سالہ مَدَنی مُنّی زینب غائِب ہوگئی اور پھر چند دن بعد کوڑے کے ڈھیر سے اس کی لاش برآمد ہوئی۔ میڈیکل ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کر دیا گیا تھا۔ اللہ پاک مَدَنی مُنّی کو اپنی رَحمت کے سائے میں جگہ عطا فرمائے اور اس کے گھر والوں کو صبر کی دولت عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یہ دِلخراش واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بَدقسمتی سے گزشتہ چند سالوں سے ہمارے ملک پاکستان میں بالخصوص بچّوں اور بچّیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دینے کے واقعات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ یقیناً یہ واقعات قابلِ مذمت اور ان میں ملوّث لوگ سخت سزا کے حقدار ہیں۔ مگر یاد رکھئے! بُرائی کے ذَرائع اور اَسباب کا خاتمہ کئے بغیر صرف وقتی طور پر اس کی مذمت، افسوس اور تبصرہ کرنے کی مثال ایسی ہے جیسے کسی کے پسینے سے بَدبو آتی ہو تو وہ اس کا علاج کرنے کے بجائے پرفیوم (Perfume) یا باڈی اسپرے (Body Spray) کے ذَریعے اس بَدبو کو دَبانے کی کوشش کرے۔ بُرائی کو پتوں اور شاخوں سے کاٹنے کے بجائے جڑ سے ختم کرنا ضَروری ہے۔ زیادتی کرنے والا بھی ایک انسان تھا، اسی معاشرے کا ایک فرد تھا، آخر اس نے ایسا گھناؤنا کام کیوں کیا؟ ہمیں دونوں ہی اعتبار سے سوچنا چاہئے کہ نہ ہمارے بچے اس فعلِ بد کا شکار ہوں اور نہ ہی معاشرے کا کوئی فرد اس بُرے کام کا ارتکاب کرے۔

ان واقعات کے بڑھنے کی ایک وجہ آج کل اولاد کی جلد شادی نہ کرنا ہے جس کی وجہ سے ایسے اَفراد اپنی خواہشات کی تسکین کی تلاش میں رہتے ہیں۔ دوسری وجہ میڈیا کے ذَریعے فحاشی و عُریانی کا بازار گرم کر کے یا بذریعہ موبائل یا کیبل انٹرنیٹ کی دنیا میں گندی و بے ہودہ ویب سائٹس تک رسائی کو آسان سے آسان بنا کر عوام تک پہنچانا ہے جس سے جنسی خواہشات کو مزید بھڑکایا جا رہا ہوتا ہے۔ میری تمام والدین سے یہ فریاد ہے کہ بالغ ہوتے ہی جلد از جلد اپنی اولاد کی شادی کروا دیں اور انہیں فلموں ڈراموں اور انٹرنیٹ کے غَلَط اِستعمال سے بچانے کی کوشش کریں۔چھوٹے بچوں کی تربیت یوں کی جاسکتی ہے اگر کوئی ان سے گندی بات کرے یا کوئی اجنبی شخص مسکرا کر اُنگلی پکڑائے، چیز دِکھائے، ڈرائے یا دَھمکائے یا ساتھ چلنے کا کہے تو اسے منع کردیں اور اس سے دُور بھاگیں اور اپنے والدین کو اس بات سے ضَرور آگاہ کریں اگر والدین قریب نہ ہوں تو شور مچاکر دوسرے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کریں۔

شیخِ طریقت، امیرِ اَہلِ سنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں: جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارى والدہ نے ہمارا ىہ ذہن بناىا تھا اور میں نے بھی اپنی اولاد کو یہ بات سکھائی تھی کہ ”بىٹا! کوئى تمہىں سونے (Gold) کا ڈھىر بھى دِکھائے تو اس کے ساتھ نہىں جانا اور نہ کسی سے کوئی چیز لے کر کھانا۔“ اِسی طرح میں نے اپنے بچّوں کو گلی محلے میں کھیلنے اور دوستیاں کرنے کی بھی اِجازت نہیں دی، ہمارے بچّے جو کرتے تھے گھر میں ہی کرتے تھے۔

میری تمام والدین سے یہ فریاد ہے کہ وہ اپنے بچّوں کی تربیت اور دیکھ بھال کے حوالے سے اپنا کِردار ادا کریں۔ شریعت و سنَّت کے مُطابق تربیت کریں تاکہ ان کے دِل میں خوفِ خُدا، عشقِ مصطفےٰ اور شرم و حیا پیدا ہو۔ بُری صحبت سے بچا کر نیک لوگوں کی صحبت میں رہنے کا عادی بنائیں، گھر میں ٹی وی ہے تو اس پر صرف اور صرف مَدَنی چینل چلائیں۔ اللہ پاک ہر مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


بدنصیب اور خوش نصیب

ایکعربی شخص کا بیان ہے کہ میں اپنی بستی سے اس اِرادے سے چلا کہ معلوم کروں کہ لوگوں میں سب سے زیادہ بدبخت اور نیک بخت کون ہے؟میرا گزر ایک ایسے بوڑھے شخص کے پاس سے ہوا ،جس کی گردن میں رسی بندھی ہوئی تھی جس کے ساتھ ایک بڑا ڈول بھی لٹک رہا تھا۔ ایک نوجوان اس بوڑھے کو چابک سے مار رہا تھا۔ میں نے اس نوجوان سے کہا:اس بوڑھے اور کمزور شخص کے بارےمیں تجھے اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں؟ اس کی گردن میں پہلے ہی ایک رسی اور ڈول لٹک رہا ہے جس سے یہ پریشان ہے،اس کے باوجود تو اسے چابک سے بھی مار رہا ہے!نوجوان نے کہا:مزید بھی جان لو کہ یہ میرا باپ بھی ہے۔ میں نے کہا:اللہ تعالیٰ تجھے کوئی بھلائی نہ دے!(کیا کوئی اپنے باپ کے ساتھ بھی اس طرح کا ظالمانہ سلوک کرتا ہے؟) نوجوان بولا:”خاموش رہو! تمہیں کیا معلوم! یہ بھی اپنے باپ کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرتا تھا اور اس کا باپ بھی اپنے باپ (یعنی اس کے دادا) کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کیا کرتا تھا۔“میں نے یہ منظر دیکھنے کے بعد کہا:بس! یہی بوڑھا شخص سب سے زیادہ”بدبخت“ ہے۔پھر میں آگے چل دیا یہاں تک کہ ایک نوجوان کے پاس پہنچاجس کی گردن میں ایک زَنبیل(یعنی کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی ایک ٹوکری) تھی اور اس میں چوزے کی طرح کمزور ایک بوڑھا شخص تھا۔وہ نوجوان ہر وقت اسے ساتھ رکھتا تھا اور چوزے کی طرح اس کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ میں نے کہا: یہ کیا معاملہ ہے؟ اس نے جواب دیا: یہ میرا باپ ہے جو اپنی عقل کھو بیٹھا ہے، میں اس کی دیکھ بھال میں لگا رہتا ہوں۔میں نے کہا یہی نوجوان لوگوں میں سب سے زیادہ ”نیک بخت“ ہے۔(المحاسن والمساوی ،2/193)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حِکایت سے معلوم ہوا کہ والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے والا لوگوں میں سب سے زیادہ ”نیک بخت“ہے اور بُرا سلوک کرنے والا سب سے بڑا ”بدبخت“ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ! اس بات میں کوئی شک نہیں کہ والدین کے ساتھ بُرا سلوک کرنے والے کے لئے دنیا و آخرت میں بربادی ہی بربادی ہے۔ والد کی اِطاعت، رضا اور عظمت و شان پر مشتمل تین فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مُلاحظہ کیجئے:(1)اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اِطاعت والد کی اِطاعت کرنے میں ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی والد کی نافرمانی کرنے میں ہے۔(معجم اوسط، 1/614،حدیث:2255) (2)اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔(ترمذی،3/360،حدیث:1907) (3)والد جنّت کے دروازوں میں سے بیچ کا دروازہ ہے، اب تُو چاہے تو اس دروازے کو اپنے ہاتھ سے کھو دے یا حفاظت کرے۔ (ترمذی، 3/359، حدیث:1906) ہر ایک کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا چاہئے اور ان کی اِطاعت کرتے ہوئے ،ان کا سونپا ہوا ہر جائز کام فوراً بجا لانا چاہئے۔ہاں اگر وہ شریعت کے خلاف کوئی حکم دیں تو اس میں ان کی اِطاعت نہ کی جائے کہ حدیثِ پاک میں ہے :اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اِطاعت نہیں۔(مسلم، ص789،حدیث: 4765) اگر کسی کے والد نے اپنے والد کے ساتھ بُرا سلوک کیا ہے تو اس کی اولاد کو یہ اِجازت نہیں کہ وہ بھی اپنے والد کے ساتھ بدسلوکی ہی کرے۔ یاد رکھئے!”سب گناہوں کی سزا اللہ تعالیٰ چاہے تو قیامت کے لئے اٹھا رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کی سزا جیتے جی دیتا ہے۔“(مستدرک حاکم،5/216، حدیث: 7345) اس پُرفتن دور میں بھی جہاں والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے موجود ہیں وہاں بدسلوکی کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ۔ایک اسلامی بھائی کے بیان کا خلاصہ ہے کہ میں جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر جب مسجدسے باہر نکلا تو دیکھا کہ لوگ جمع ہیں اور ایک نوجوان بوڑھے شخص کو مار رہا ہے اور وہ بوڑھا اس نوجوان کا والد تھا۔ اِنکشاف ہوا کہ مال و جائیداد وغیرہ میں حصہ نہ ملنے پر اس نالائق بیٹے نے مار مار کر اپنے بوڑھے باپ کو لہولہان کر دیا۔ اپنی عمر بھر کی خوشیوں اور خواہشات کو بچوں کی خوشیوں اور خواہشات کی تکمیل کے لئے قربان کر کے جینے والا”باپ“جب بڑھاپے میں اپنے بچوں کی شفقت اور حُسنِ سلوک کا طلبگار ہوتا ہے تو اسے جواب میں بے رُخی،طعنے اور پھر Old House کا تحفہ ملتا ہے۔ جن کے والد حیات ہیں، ان سے میری یہ فریاد ہےکہ وہ خُوش دِلی کے ساتھ اپنے والدکی خِدمت کریں اور ان کا ادب و احترام کر کے جنّت کے حقدار بنیں۔

18اگست2017ء(بروزجمعہ)گوجرانوالہ(پنجاب،پاکستان) کا رہائشی 19 سالہ نوجوان اپنے پانچ دوستوں کے ہمراہ ایبٹ آباد، کوہالہ کے مقام پر سیر و تفریح کے لئے گیا۔ دوستوں نے ہنسی مذاق میں شرط لگائی کہ اگر وہ دریائے نیلم کو تیر کر پار کرے گاتو وہ اسے 15000 روپے اور ایک موبائل دیں گے۔دیکھتے ہی دیکھتے اس نوجوان نے دَریائے نیلم میں چھلانگ لگا دی مگر درمیان میں جا کر بپھری ہوئی موجوں کے سامنے ہار گیا اور دریا کی لہروں میں گم ہوگیا، اس کے دوست بھی اسے ڈوبنے سے نہ بچا سکے نہ اس کی لاش ملی۔ والدین اور رِشتہ داروں پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، پانچ دن بعد بےچارے نوجوان کی لاش ”پٹن“ کے قریب دریا سے ملی۔ شرط لگانے والے دوستوں کو پولیس نے گرفتار کرکے مقدمہ درج کر لیا۔(مختلف اخبارات سے ماخوذ) اللہ عَزَّوَجَلَّ اس نوجوان کی مغفرت فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت ”اولاد“ ہے، اِس نعمت کی قدر کیجئے،اولاد کے دُنیوی مستقبل کی بہتری کے لئے والدین کوشش کرتے ہی ہیں مزہ تو جب ہے کہ اس کے اُخْرَوی مستقبل کی بھی فکر کی جائے، یہی عقل مندی ہے۔ قراٰن و سنَّت کے مطابق اپنی اولاد کی تربیت کیجئے، اسے اللہ و رسول کا فرمانبردار بنائیے۔ اچّھی تربیّت کے لئے علمِ دِین سکھائيےاور اپنے بچّوں پر نظر رکھئے کہ آپ کے بچے کیسے دوستوں کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے ہیں؟ کہاں آتے جاتے ہیں؟ان کی پسند ناپسند کیا ہے؟ اچّھے بُرے کاموں کی کتنی پہچان رکھتے ہیں؟یاد رکھئے! صحبت کا اِنسانی زندگی پر بڑا اَثر ہوتا ہے، صحبت اچھی ہو یا بُری ضَرور رنگ لاتی ہے، فرمانِ مصطَفٰےصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمہے:آدمی اپنے دوست کے دِین پر ہوتا ہے پس تم میں سے ہر ایک کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کس کو دوست بنا رہا ہے۔ (ترمذی ،4/167، حدیث:2385) یعنی کسی سے دوستانہ کرنے سے پہلے اُسے جانچ لو کہ اللہ و رسول (عَزَّوَجَلَّ وَصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کا مُطیع (یعنی فرماں بردار) ہے یا نہیں؟ رب تعالیٰ فرماتا ہے:﴿ "e›6ŸuÞ"“( پ11، التوبۃ: 119) ترجمۂ کنز الایمان :”اور سچوں کے ساتھ ہو۔“صُوفیا فرماتے ہیں کہ اِنسانی طبیعت میں اَخْذ یعنی لے لینے کی خاصیَّت ہے۔حَریص کی صحبت سے حرص، زاہد کی صحبت سے زُہد و تقویٰ ملے گا۔

( مراٰۃ المناجیح ، 6/599)

اچھی صحبت اپنانا اور بُری صحبت سے خود کو اور اپنے بچوں کو بچانا ضَروری ہے۔ مولانا رومعلیہ رحمۃ اللّٰہ القَیُّومفرماتے ہیں: بُرے ساتھی سے بُرا سانپ بہتر ہے کہ بُرا سانپ جان لیتا ہے جبکہ بُرا ساتھی دوزخ کی طرف لے جاتا ہے، دُنیا میں بُرے ساتھی سے بدتر کوئی چیز نہیں یہ میری آنکھوں دیکھی بات ہے۔(مثنوی شریف،5/269 ملتقطا) اپنے بچّوں پر نظر رکھنا اِس لئے بھی ضروری ہے کہ علمِ دِین سے دُوری، ناسمجھی اور کچی عمر کی وجہ سے بسااوقات بچے ایسے اَنوکھے کام کر بیٹھتے ہیں جو جان لیوا ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ مذکورہ بالا دَردناک سانحہ پیش آیا۔

میری تمام عاشقانِ رسول سے فَریاد ہے کہ وہ ”اپنے بچّوں پر نظر رکھیں“ کہ کل کلاں ان کے ساتھ کوئی سانحہ پیش نہ آئے۔ اللہعَزَّوَجَلَّہمیں عافیت وراحت عطافرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


29رَمَضانُ المبارَک1438ھ مطابق 25 جون 2017ء احمد پور شرقیہ، ضلع بہاولپور (پنجاب، پاکستان) کے قریب ہزاروں لیٹر پیٹرول سے بَھرا ٹینکر اُلَٹ گیا۔ عام طور پر حادِثے کی جگہ پر لوگ جمع ہو ہی جاتے ہیں، یہاں بھی دیکھتے ہی دیکھتے جائے وُقُوعہ پر سینکڑوں اَفراد جمع ہوگئے۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے مختلف بَرتنوں، بوتَلوں اور گیلنوں میں پیٹرول جمع کرنا شروع کردیا۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ٹینکر خوفناک دھماکے کے ساتھ پَھٹ گیا اور وہاں خوفناک آگ بَھڑَک اُٹھی۔ حادِثے کی جگہ قیامتِ صُغریٰ کا منظر پیش کرنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے 150 سے زائد اَفراد آگ کی نَذْر ہوگئے جبکہ تادمِ تحریر 200 سے زائد اَفراد اس ہولناک حادِثے کے باعث فوت ہوچُکے ہیں اور مُتَعَدَّد اب تک زیرِ علاج ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ اس حادِثے میں فوت ہوجانے والے مسلمانوں کی مغفرت فرمائے اور زخمیوں کو صحت یابی عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اس دَردناک حادِثے سے عَلاقے کی فَضا سوگوار ہوگئی، جہاں کچھ دیر پہلے زندگی کی بہار تھی وہاں موت نے سَنَّاٹا طاری کردیا، خاندان کے خاندان اُجڑ گئے۔ دل دہلا دینے والے اس حادِثے سے عبرت حاصل کرنے کے بجائے بعض لوگوں نے وفات پانے والے مسلمانوں کے بارے میں میڈیا، سوشل میڈیا اور نِجی مَحفلوں میں اس طرح کے تَبصرے شروع کر دئیے:”مُفت کا پیڑول مہنگا پَڑگیا“، ”لالَچ بُری بَلا ہے“، ”دو لیٹر کے لئے جان گنوا دی“، ”چور ڈاکو جَل مرے“ وغیرہ۔ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! فوت شُدہ مسلمانوں کے بارے میں لوگوں کایہ رَوَیَّہ دیکھ، سُن کر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اندر سے خیر خواہی، احساس، ہمدردی اور انسانیّت ختم ہوچکی ہے۔ ذرا غور تو کیجئے! ہمارے رشتہ داروں میں سے اگر کوئی اس سانحے کا شکار ہوجاتا اور ہمیں اسی طرح کی باتیں سُننے کو ملتیں تو ہمارے دل پر کیا گزرتی؟ ایسے معاملے میں ہمارے پیارے نبی، مَکّی مَدَنی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ابوجہل کے فرزند حضرت سیِّدُنا عِکرمہ رضی اللہ عنہ ايمان لائے تو نبیِّ كریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو حکم ديا کہ اِن کے سامنے کوئی بھی ان کے باپ ابوجہل کو بُرا نہ کہے۔(مدارج النبوۃ،2/298)

پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی شخص حتمی اور یقینی طور پر یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ حادِثے میں فوت ہونے والا ہر شخص ”مالِ مُفت دلِ بے رحم“ کے تحت تیل جمع کرنے میں مصروف تھا۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ بعض لوگ ٹریفک کی روانی متأثر ہونے کے باعث پھنس گئے ہوں، ہو سکتا ہے کچھ سمجھدار لوگ وہاں موجود دیگر لوگوں کو منع کررہے ہوں یا کچھ لوگ وہاں پہلے ہی سے کسی ضَروری کام کے لئے موجود ہوں، اپنے اَحباب کی خبر گیری کے لئے آئے ہوں اچانک اس حادِثے کا شکار ہو گئے، کوئی بَعِید نہیں ایک تعداد صرف دیکھنے کے لئے وہاں پہنچی ہو اور آگ کی لپیٹ میں آگئی ہو۔ اتنے سارے احتمالات کے ہوتے ہوئے تمام فوت ہونے والوں کو چور ڈاکو کیونکر قَرار دیا جاسکتا ہے؟ تو پھر کیوں نہ مرنے والے کے لئے حسنِ ظن قائم کرکے ثواب کما لیا جائے! اور ہلاک ہونے والوں کے رشتہ داروں اور دوست اَحباب کی دل آزاری سے بھی بچا جائے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ! دعوتِ اسلامی سے وابستہ اسلامی بھائیوں نے اپنا مثبت (Positive) کِردار ادا کیا، جنازے پڑھے، فوت ہونے والوں کے لواحقین سے تعزیتیں کیں، شیخِ طریقت، امیرِ اَہلِ سنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے بھی صَوتی پیغام(Audio Message) کے ذریعے تعزیَت کی۔ دوسری بات یہ ہے کہ بالفرض! اگر کچھ لوگ اپنے ذاتی استعمال کے لئے پیٹرول بھرنے میں مَصروف بھی تھے تو ہمیں ان کے عُیُوب بیان کرنے سے گُریز کرنا چاہئے۔ یاد رکھئے! فوت شُدہ لوگوں کی بُرائی کرنا بھی غیبت ہے۔ مَرنے والے مسلمان کو بُرائی سے یاد کرنے کی شریعت میں اجازت نہیں کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مُردوں کو بُرا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ (بخاری، 4/251، حدیث:6516) حضرت علّامہ عبدالرّءُوف مُناوِی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:مُردے کی غیبت زندہ کی غیبت سے بَدتَر ہے، کیونکہ زندہ سے مُعاف کروانا ممکن ہے جبکہ مُردہ سے مُعاف کروانا ممکن نہیں۔(فیض القدیر، 1/562، تحت الحدیث:852)

میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ دنیا سے چلے جانے والوں کی بُرائیاں بیان کرنے سے گُریز کیجئے، اپنے اندر خوفِ خدا، فکرِ آخرت، ہمدردی اور دوسرے مسلمانوں کی خیرخواہی پیدا کریں اور جب کوئی حادِثہ ہو تو غور کرلیجئے کہ ہم کیا کررہے ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ اپنی آخرت کی فِکر کرنے والوں کے لئے ایسے واقعات عبرت و نصیحت اور عبادت میں اِضافے کا سبب بنتے ہیں مگر افسوس! ہم دنیا کی رنگینی میں اس قدر ڈوبتے چلے جا رہے ہیں کہ ایسے عبرت ناک اور جان لیوا حادِثات کو بُھلا کر پھر کسی بڑے نقصان کا سامان کر بیٹھتے ہیں جیسا کہ 9 جولائی 2017ء کو ضلع وہاڑی (پنجاب، پاکستان) میں ایک آئل ٹینکر اُلٹا تو وہاں بھی لوگ اسی انداز میں جمع ہوگئے جس طرح احمدپور شرقیہ والے حادِثے کے موقع پر جمع ہوگئے تھے، مگر قانون نافِذ کرنے والے اِداروں نے لوگوں کو وہاں سے ہٹا دیا، ربّ عَزَّوَجَلَّ کا کرم ہوا کہ آگ نہیں بھڑکی اور یہ حادِثہ سانِحہ نہیں بنا۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! جب بھی اس طرح کا حادِثہ ہو تو ان باتوں کا خیال رکھئے:(1)قریب جانے سے پہلے خوب غور کرلیا جائے کہ کہیں بے احتیاطی کسی بڑے حادِثے کا شکار نہ بنادے۔ (2)خطرے کی صورت میں خود بھی دور رہئے اور دوسروں کو بھی دور رہنے کی تاکید کیجئے۔ (3)بَروَقت مُتَعَلِّقَہ اِدارے مثلاً ریسکیو، فائربریگیڈ، ایمبولینس سروس اور پولیس وغیرہ کو اطلاع کیجئے تاکہ نقصان کم سے کم ہو۔ (4)نفس و شیطان کے بہکاوے میں آ کر جائے حادثہ پر بکھرے ہوئے سامان(موبائل، زیورات، پرس، نقدی وغیرہ) لوٹنے سے باز رہئے۔ (5) جس سے جتنا بَن پڑے حادثے کا شکار ہونے والوں کی مدد کرے۔اللہ عَزَّ وَجَلَّہمارا حامی وناصر ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


چند سال پہلے کی بات ہے کہ میں دعوتِ اسلامی کے مدنی کاموں کے لئے یو۔کے اور یورپ کے دیگر ممالک کے سفر پر تھا۔ اس دوران کئی شہروں میں سنّتوں بھرے اجتماعات، مدنی مشوروں اور ملاقاتوں کا سلسلہ رہا۔ یورپ کے مشہور مُلک فرانس کے دار الحکومت پیرس میں سنّتوں بھرے اِجتماع کے اِختتام پر اسلامی بھائیوں کے لئے خیر خواہی (یعنی کھانے) کا بھی اِہتمام تھا، شرکائے اِجتماع کے ساتھ مل کر کھانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ میرے قریب بیٹھنے والوں میں تین یا چار اسلامی بھائی ایسے تھے جن کے آباء و اجداد عربی تھے اور دو تین سو سال پہلے یہاں منتقل ہوگئے تھے اس لئے ان اسلامی بھائیوں کو عربی زبان نہیں آتی تھی، ان سے مل کر بہت خوشی ہوئی کہ ہمارے پیارے آقا صلَّی اللّٰہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم بھی عربی ہیں اور عربیوں کے بارے میں آپ صلَّی اللّٰہُ علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا: اہلِ عَرَب سے تین وجہ سے مَحبَّت کرو: (1)میں عَرَبی ہوں (2)قراٰنِ مجید عَرَبی میں ہے (3)اہلِ جنَّت کا کلام عَرَبی میں ہو گا۔

(مستدرک، 5/117، حدیث:7081)

کھانے کے دوران اسلامی معلومات کے بارے میں بات چیت کا سلسلہ رہا، اُنہوں نے بتایا کہ ہم قراٰنِ کریم دیکھ کر بھی نہیں پڑھ سکتے۔ مجھے حیرت ہوئی اور کچھ لمحوں کے لئے سکتہ میں آگیا کہ یہ عَرَبِیُ النَّسْل ہو کر دیکھ کر بھی قراٰنِ پاک نہیں پڑھ سکتے! آہ! صد کروڑ آہ! جب قراٰنِ پاک پڑھنے کے بارے میں ان کی یہ حالت ہے تو دِیگر اسلامی معلومات کا کیا حال ہوگا؟ اس کے اَسباب پر غور کرنے سے معلوم ہوا کہ انہیں فرانس میں ایسا ماحول میسر نہیں تھا کہ وہ قراٰنِ پاک پڑھنا سیکھ سکتے۔ ہاتھوں ہاتھ اسلامی بھائیوں سے مشاورت ہوئی کہ ایسے اَفراد کو جمع کر کے قراٰنِ کریم کی تعلیم دی جائے۔

درسِ قراٰن اگر ہم نے نہ بُھلایا ہوتا


یہ زمانہ نہ زمانے نے دِکھایا ہوتا

افسوس! مسلمان اسلامی تعلیمات سے اِس قدر دُور ہوگئے ہیں کہ بعض کو دیکھ کر بھی دُرُست قراٰن پڑھنا نہیں آتا حالانکہ قراٰنِ کریم کی تلاوت کے بے شمار فضائل و برکات ہیں۔ تین اَحادیثِ مُبارکہ مُلاحظہ کیجئے: (1)جو شخص کتابُ اللہ کا ایک حرف پڑھے گا، اسے ایک نیکی ملے گی جو دس کے برابر ہوگی۔ میں یہ نہیں کہتا L"ایک حرف ہے بلکہ اَلِف ایک حرف، لَام ایک حرف اور مِیْم ایک حرف ہے۔(ترمذی،4/417، حدیث: 2919) (2)قراٰنِ کریم کی تلاوت کیا کرو کہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی شَفاعت کرنے کے لئے آئے گا۔(مسلم، ص403، حدیث:804) (3)حدیثِ قدّسی میں اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: جسے تلاوتِ قراٰن مجھ سے مانگنے اور سُوال کرنے سے مشغول (روک) رکھے، میں اسے شکر گزاروں کے ثواب سے اَفضل عطا فرماؤں گا۔(کنز العمال، 1/273، حدیث:2437)

اے عاشقانِ ماہِ رمضان! اس مقدس مہینے میں عاشقانِ قراٰن کثرت سے تلاوتِ قراٰن کرتے اور اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کو راضی کرتے ہیں، ہم قراٰنِ کریم کی تلاوت سے اس قدر دُور کیوں ہیں؟ کاش! میری یہ فریاد عاشقانِ رسول کے دِلوں میں اُتر جائے اور وہ دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ قراٰنِ کریم درست پڑھنا سیکھیں، اس کی تلاوت کریں اور اسے سمجھنے کی بھی کوشش کریں۔