اللہ کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اعلانِ نبوت کرنے سے پہلے صحرائے عرب میں ایک ماں اپنے 8 سالہ بچّے کے ساتھ ننھیال (بچے کے نانا کے گھر) کی طرف جارہی تھی کہ راہزنوں نے حملہ کرکے تمام مال و اَسباب لُوٹ لیااور جاتے ہوئے بچّے کو اُٹھا لے گئے۔ راہزنوں نے مکّہ کے مشہور بازار عُکَّاظ میں اس بچّے کو فروخت کے لئے پیش کردیا۔ادھر حضرت سیّدتُنا خَدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھتیجے حضرت حَکیم بن حِزام رضیَ اللہ عنہ سے فرمایا: میرے لئے ایک عربیُ النّسل،سمجھدار غلام(Slave) خرید لاؤ، حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بازار میں اسی بچے کو دیکھا تو اسے خرید کر اپنی پھوپھی کو پیش کردیا۔ جب حضرت خدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سَرورِ کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نکاح میں تشریف لائیں تو رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دل کو اس بچّے کے خصائل،عادت و اَطوار اس قدر بھائے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اس غلام کو طَلب کرلیا حضرت خدیجہ نے اس غلام کو بارگاہِ اَقدس میں بطورِ تحفہ پیش کردیا۔([1])

پیارے اسلامی بھائیو! رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی غلامی میں آنے والے، شفقتوں اور مَحَبّتوں کے سائے میں پروان چڑھنے والے اس غلام کو دنیا حضرت سیّدنا زَید بن حارِثَہ رضی اللہ عنہ کے نام سے پہچانتی ہے۔والد کو ترجیح نہ دی: اتفاقاً حضرت زید رضی اللہ عنہ کی قوم کے چند افراد حج کی غرض سے مکّہ آئے تو انہوں نے آپ کو پہچان لیا اور جاکر والد کو خبر دی کہ تمہارا بیٹا غلامی کی زندگی گزار رہا ہے۔ باپ نے فوراً اپنے بھائی کو ساتھ لیا اور بیٹے کو غلامی سے چُھڑانے کی خاطر فِدیہ کی رقم لے کر مکۂ مُکرّمہ پہنچ گئے۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:زید سے پوچھ لو اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہے تو فدیہ کے بغیر اسے لے جاؤ،اور اگر نہ جانا چاہے تو اسے چھوڑ دو ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مقابلے میں بھلا کس کو پسند کرسکتا ہوں! آپ میرے لئے ماں، باپ اور چچّا کی جگہ ہیں، باپ اور چچا نے کہا: اے زید ! تم غلامی کو پسند کررہے ہو! حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں اس عظیم ہستی کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا، حضرت زید رضی اللہ عنہ کی غیرمعمولی مَحَبّت اور تعلقِ خاطر کو دیکھ کر پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں آزاد کردیا اور فرمایا:زید میرا بیٹا ہے۔والد اور چچا حضرت زید رضی اللہ عنہ پر یہ اعزاز و اکرام دیکھ کر شاداں و فرحاں ہوئے اور مطمئن ہوکر لوٹ گئے۔([2])باپ کی طرف منسوب کرو: صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم حضرت زید رضی اللہ عنہ کو پہلے ”زید بن محمد“ کہا کرتے تھے لیکن جب سورۂ احزاب کی آیت نمبر 5﴿›#"ïO'Ï(k0h¨o^ (تَرجَمۂ کنزُ الایمان:اُنھیں ان کے باپ ہی کا کہہ کر پکارو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ ٹھیک ہے) نازِل ہوئی تو آپ کو ”زید بن حارثہ“ پکارنے لگے۔([3]) فضائل ومناقب:حضرت زَید بن حارِثَہ رضی اللہ عنہ آسمانِ فضیلت کے وہ چاند ہیں جس کی چمک کبھی مانْد نہ پڑے گی، وفا شِعاری، شوقِ جہاد ،ذوقِ عبادت، عاجزی و انکساری میں بلند مقام پایا، کم عُمْری سے لے کر شہادت تک رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ساتھ نبھایا، آزاد کردہ غلاموں میں سب سے پہلے دولتِ ایمان کو جھولی میں بھرنے کا شرف پایا،([4]) وہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قراٰن مجید میں آیا،([5]) صحابۂ کرام میں حِبُّ النَّبِی یعنی نبی کے محبوب“ کا لقب پایا،([6]) سِن 2 ہجری غزوہ ٔبدر کی فتحِ مُبین کی خبر مدینے پہنچانے کیلئے آپ رضی اللہ عنہ ہی کا نام سامنے آیا،([7]) 2شعبان سِن 5 ہجری رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غزوۂ بَنی مُصْطَلِق روانہ ہوئے تو آپ کو مدینے پاک میں اپنا نائب بنایا،([8]) سات یا نو مرتبہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو امیرِ لشکر بناکر روانہ فرمایا، اور ہر مرتبہ آپ نے کامیابی و کامرانی کا جھنڈا لہرایا۔([9])

سفرِ طائف میں رفاقت: اعلانِ نبوت کے دسویں سال ماہِ شوّال میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سفرِ طائف کاقصد کیا، جب کُفّار رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر پتھروں کی بارش کرتے،ساتھ ساتھ طَعنہ زنی کرتے، گالیاں دیتے، تالیاں بجاتے اور ہنسی اڑاتے تو حضرت زید رضی اللہ عنہ دوڑ دوڑ کراپنے محبوب کریم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر آنے والے پتھروں کو اپنے بدن پر لیتے تھے اور رحمت ِعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بچانے کی کوشش کرتے یہاں تک کہ آپ کاسَر زخمی ہوگیا ۔([10]) مددِ الٰہی: ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ سفر پر روانہ ہوئے تو ایک مُنافِق آپ کے ساتھ ہولیا ،ایک کَھنڈر کے پاس پہنچ کر وہ منافِق کہنے لگا: ہم یہیں آرام کرتے ہیں، دونوں اندر داخل ہوئے حضرت زید رضی اللہ عنہ آرام کرنے لگے،یہ دیکھ کر اس منافق نے آپ کو رَسّی سے مضبوطی کے ساتھ باندھ دیا اور آپ کو قتل کرنا چاہا،آپ نے اس سے پوچھا: تومجھے کیوں مارنا چاہتا ہے؟ اس نے کہا:اس وجہ سے کہ محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تم سے مَحبّت کرتے ہیں اور میں ان سے شدید نفرت کرتا ہوں، آپ نے فوراً پکارا: یارحمٰن! اَغِثْنِی، یااللہ! میری مدد کر، اچانک منافق کے کانوں میں آواز آئی:تیری بربادی! اسے قتل مت کر، منافق کھنڈر سے باہر نکلا مگر کوئی نظر نہیں آیا اس نے پھر قتل کرنا چاہا پھر وہی آواز پہلے سے بھی قریب سنائی دی،منافق نے اِدھر اُدھر دیکھا مگر کوئی نظر نہیں آیا اس نے تیسری مرتبہ قتل کا ارادہ کیا تو وہی آواز بہت قریب سے آئی،منافق باہر نکلا تو اچانک ایک شہسوار نظر آیا جس کے ہاتھ میں نیزہ تھا اس نے مُنافق کے سینے میں اس نیزے کو پیوست کردیا اور وہ منافق تڑپ تڑپ کر ٹھنڈا ہوگیا۔ شہسوار اندر داخل ہوا اور آپ رضی اللہ عنہ کی رسیاں کھولتے ہوئے کہنے لگا: تم مجھے جانتے ہو؟میں جبرائیل ہوں۔([11])

شیطان کو دُھتکاردیا: سِن 8ہجری جُمادَی الْاُولیٰ میں غزوۂ موتہ کا معرِکہ رُونما ہوا تو حضرت سیّدنازید رضی اللہ عنہلشکرِ اسلام کے علَم بردار تھے، شیطان پاس آیا اور آپ کے دل میں زندہ رہنےکی مَحَبّت ڈالی،موت سے نفرت دلائی اور آپ کو دنیاکی لالچ دلائی ،مگر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مومنین کے دِلوں میں ایمان پختہ ہونے کا وقت تو اب ہے اور شیطان مجھے دنیا کی لالچ دے رہا ہے۔([12]) شہادت: اس معرکہ میں مسلمانوں کی تعداد 3 ہزار تھی جبکہ رُومی سپاہی ایک لاکھ تھے،آپ رضی اللہ عنہ نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے کُفّار کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اس کا جواب تیروں کی مار اور تلواروں کے وار سے دیا۔ یہ منظر دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ گھوڑے سے اتر کر پاپیادہ میدانِ جنگ میں کُود پڑے، ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے بھی نہایت جوش و خروش کے ساتھ لڑنا شروع کردیا ، کافروں نےآپ رضی اللہ عنہپرنیزوں اور بَرچھیوں کی برسات کردی یوں آپ رضی اللہ عنہ جوانمردی سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔([13])

اللّٰہ پاک کی ان پر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



([1])تفسیر در منثور، پ 22،احزاب،تحت الایۃ:5، 6/563، طبقاتِ ابنِ سعد، 3/29تا31ملخصاً

([2])سابقہ حوالہ

([3])مسلم،ص 1014، حدیث: 6262 ، مسئلہ:اس واقعہ و قراٰنی آیت سے یہ معلوم ہوا کہ جو لوگ کسی کا بچہ گود لیتے ہیں اور ولدیت میں اصل باپ کی جگہ اپنا نام لکھواتے ہیں یہ جائز نہیں ہے بلکہ لے پالک بچے کو اسی کے اصل والد کی طرف ہی منسوب کرنا لازمی ہے البتہ سرپرست کے طور پر گودلینےوالا اپنا نام لکھوا سکتا ہے مگر ولدیت کے کالم میں اصل والد ہی کا نام ہو۔(صراط الجنان، 7/561ملخصاً)

([4])سیرتِ ابن ہشام، ص99

([5])پ22، الاحزاب: 37

([6])تھذیب الاسماء،1/198

([7])طبقات ابن سعد، 2/13

([8])دلائل النبوہ للبیھقی،4/45

([9])طبقات ابن سعد، 3/33

([10])سبل الھدیٰ والرشاد،2/438

([11])تفسیر کبیر، تحت بحث:بسم اللہ،1/154ملخصاً

([12])تاریخ ابن عساکر،19/368

([13])شرح ابی داؤد للعینی،6/41 تا 42، تحت الحدیث:1557 ملخصاً، سیرتِ مصطفٰے،ص:404


میرے آقا کا بچپن 

Sun, 3 Nov , 2019
4 years ago

میرے آقا کا بچپن(بزبانِ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا)

ہمارے پیارے نبیصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رِضاعی والِدہ حضرتِ سیّدتُنا حلیمہ سَعْدِیہرضی اللہ تعالٰی عنہاآپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے مُبارَک بچپن کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:

پہلا دیدار میں نے پہلی مرتبہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِس حال میں زِیارت کی کہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُونی لباس پہنے ریشمی بستر پر آرام فرمارہے تھے، میں نے نرمی سے جگایا تو آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے مُسکراتے ہوئے آنکھیں کھولیں اور میری طرف دیکھا،اِتنے میں مبارک آنکھوں سے ایک نور نکلا اور آسمان کی طرف بلند ہوتا چلاگیا، یہ دیکھ کر میں نے شوق و محبّت کے عالَم میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیشانی کو چوم لیا۔(مواہب الدنیہ،1/79)قَحْط دور ہوگیا میرا قبیلہ ’’بنی سَعْد“ قَحْط میں مبتلا تھا، جب میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو لے کر اپنے قبیلے میں پہنچی تو قَحْط دور ہوگیا، زمین سَر سَبْز، درخت پھلدار اور جانور فربہ (یعنی موٹے تازے)ہوگئے۔گھر روشن رہتاایک دن میری پڑوسن مجھ سے بولی: اے حلیمہ! تیرا گھر ساری رات روشن رہتا ہے، اِس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے کہا: یہ روشنی کسی چراغ کی وجہ سے نہیں، بلکہ محمد(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کے نورانی چہرے کی وجہ سے ہے۔700 بکریاں میرے پاس 7 بکریاں تھیں، میں نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مُبارَک ہاتھ اُن بکریوں پر پھیرا تو اِس کی بَرَکت سے بکریاں اتنا دودھ دینے لگیں کہ ایک دن کا دودھ 40 دن کے لئے کافی ہوجاتا تھا۔ اِتنا ہی نہیں میری بکریوں میں بھی اِتنی برکت ہوئی کہ سات سے 700 ہوگئیں۔ تالاب بَرَکت والا ہوگیا قبیلے والے ایک دن مجھ سے بولے: ان کی برکتوں سے ہمیں بھی حصّہ دو! چنانچہ میں نے ایک تالاب میں آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مُبارَک پاؤں ڈالے اور قبیلے کی بکریوں کو اُس تالاب کا پانی پلایا تو ان بکریوں نے بچے جنے(پیدا کئے)اور قوم ان کے دودھ سے خوشحال و مالدار ہوگئی۔بکری کا سجدہ ایک دن میں (حضرت) محمد(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کو گود میں لئے بیٹھی تھی کہ چند بکریاں قریب سے گزریں، اُن میں سے ایک بکری نے آگے بڑھ کر آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سجدہ کیا اور سَر مُبارَک کوبوسہ دیا۔ کھیلنے سے گُریزآپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عُمْر مُبارَک جب 9 ماہ ہوئی تو اچّھی طرح کلام فرمانے لگے، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو لڑکے کھیلنے کے لئے بلاتے تو ارشاد فرماتے: مجھے کھیلنے کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔ مختلف برکات کا ظُہورآپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے بچّوں کے ساتھ جنگل جاتے اور بکریاں چَرایا کرتے تھے۔ ایک دن میرا بیٹا مجھ سے بولا: امّی جان! (حضرت)محمد(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) بڑی شان والے ہیں، جس جنگل میں جاتے ہیں ہَرا بھرا ہوجاتا ہے، دھوپ میں ایک بادل اِن پر سایہ کرتا ہے، ریت پر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قدم کا نشان نہیں پڑتا، پتّھر اِن کے پاؤں تلے خمیر (گُندھے ہوئے آٹے)کی طرح نرم ہوجاتا اور اُس پر قدم کا نشان بن جاتا ہے، جنگل کے جانور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قدم چومتے ہیں۔( الکلام الاوضح فی تفسیر الم نشرح(انوارِ جمالِ مصطفےٰ)، ص107- 109ملخصاً و ملتقطاً)

اللہ اللہ وہ بچپنے کی پَھبَن

اُس خدا بھاتی صورت پہ لاکھوں سلام

(حدائق بخشش، ص063)


ویڈیو گیم


Mon, 7 Oct , 2019
4 years ago

ویڈیو گیم

فرضی حکایت:حشمت اپنے کمرے میں بیٹھا ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ پڑھ رہا تھا ۔ چچا جان نے دروازہ کھولا اور کہا: حشمت بیٹا! ذیشان آپ سے ملنے آئے ہیں۔ حشمت نے ذیشان کو گیسٹ روم میں بٹھادیا، تھوڑی دیر بعد ذیشان نے اپنا موبائل نکالا اور اس پر گیم(Game) کھیلنا شروع کر دی، اس دوران وہ خوشی کے مارے اُچھل کود کر رہا تھا اور عجیب عجیب منہ بھی بنا رہا تھا۔ حشمت نے حیران ہو کر پوچھا: ذیشان! یہ کیا کر رہے ہو؟ ذیشان نے کہا: حشمت! ادھر آؤ، دیکھو یہ کتنی اچھی گیم (Game) ہے، مجھے بہت مزہ آ رہا ہے۔ حشمت نے پاس بیٹھتے ہوئے کہا: ذیشان بھائی! ویڈیو گیم (Video Game) کھیلنا بُری بات ہے، اسی لئے میں ویڈیو گیم (Video Game) نہیں کھیلتا۔ ذیشان نے کہا: یہ تم کیا کہہ رہے ہو! یہ بُری بات نہیں ہے، دیکھو! مجھے تو خود میرے ابو نے موبائل میں اور کمپیوٹر میں ویڈیو گیمز ڈال کر دی ہیں۔ میں گھر میں جہاں چاہے آسانی کے ساتھ وڈیوگیم کھیلتا ہوں اور جب گھر میں کھیلنے کا دل نہ ہو تو باہر گیم کی دکان پر چلا جاتا ہوں، وہاں دوسروں کے ساتھ مل کر کھیلنے میں تو اور زیادہ مزہ آتا ہے۔

قریب موجود چچا جان بھی یہ باتیں سُن رہے تھے۔ انہوں نے کہا: ذیشان بیٹا! حشمت ٹھیک کہہ رہا ہے، آئیں میں آپ کو ویڈیو گیمز (Video Games) کے کچھ نقصانات بتاتا ہوں:

(1)کچھ ویڈیو گیمز (Video Games) ایسی ہوتی ہیں جن میں نظر آنے والے کارٹونز کا لباس اور شکل و صورت اسلامی ہوتی ہے اور انہیں بُرے لوگوں کے روپ میں پیش کر کے مروایا جاتا ہے۔ ایسی گیمز (Games) کھیلنے سے آہستہ آہستہ ہمارے دل سے اسلام اور مسلمانوں کی محبت نکل سکتی ہے۔

(2)ویڈیوگیمز(Video Games)کےذریعےایک دوسرے کی پٹائی لگانے، خون بہانے، قتل کرنے، گَن چلانے، لوٹ مار اور چوری کرنے، معافی مانگنے والے کو معاف نہ کرنے اور بے رحمی کا مظاہرہ کرنے کی گویا پریکٹس (Practice) کروائی جاتی ہے، اس سے بچوں کے ذہن پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے اور وہ بھی اس طرح کے برے کام شروع کر دیتے اور کچھ چھوٹی عمر میں اور کچھ بڑے ہو کر چور، ڈاکو اور قاتل بن سکتے ہیں، ان کے دلوں سے رحم، صبر اور معاف کرنے کا جذبہ کم یا ختم ہو جاتا ہے۔

(3)ویڈیو گیم (Video Game) کھیلتے رہنے سے نظر کمزور ہو جاتی اور سر میں درد رہنے لگتا ہے، پڑھائی میں جی نہیں لگتا۔

(4) ویڈیو گیمز (Video Games) کی دکانوں پر ماحول اچھا نہیں ہوتا، چنانچہ بعض بچے بُرے لوگوں کے ساتھ رہ کر گندی عادتیں سیکھ جاتے ہیں مثلاً سگریٹ پینا شروع کر دیتے ہیں یا کوئی نشہ شروع کر دیتے ہیں اور طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو کر اپنی صحت خراب کر لیتے ہیں ۔

ذیشان نے کہا: چچا جان! مجھے احساس ہوگیا ہے کہ ویڈیو گیم کھیلنے کے اتنے سارے نقصان ہیں۔ میں آج سے پکی نیت کرتا ہوں کہ اب کبھی ویڈیو گیم نہیں کھیلوں گا اور اپنے دوستوں کو بھی یہ سب باتیں بتا کر ویڈیو گیمکھیلنے سے منع کروں گا۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پڑھائی میں سُستی

Mon, 16 Sep , 2019
4 years ago

پڑھائی میں سُستی

ہربار کی طرح اس بار بھی دن گزرتے گئے، ابُّو بھی سمجھاتے رہے لیکن خالِد اور ناصِر دونوں بھائیوں کے وہی کام اب بھی تھے، کھانا پینا،کھیلنا کُودنا، سوشل میڈیا(Social Media) میں مصروف رہنا، دارُالمدینہ (اسکول)ہر روز جانا مگر پڑھنا نہیں۔ امتحان قریب آتے تو آخری دنوں میں حَل شُدَہ پرچہ جات (Solved Papers) سے تیاری کرکے پاسِنگ مارکس(Passing Marks) لے کر کامیاب ہوجاتے تھے۔اس دفعہ بھی اِمتحان میں ایک مہینا باقی رہ گیا تھا لیکن یہ دونوں ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی سُستی کے شکار تھے۔ دارُالمدینہ کے ایک بہت ہی پیارے استاذامتیازصاحب تھے۔ انہیں جب خالد اور ناصر کے نہ پڑھنے کامعلوم ہوا تو وہ شام کے وقت ان کے گھر جا پہنچے۔ دونوں بھائیوں نے انہیں ڈرائنگ روم میں بِٹھایا، ناصر نے استاذ صاحب کو چائے بِسکٹ پیش کئے۔ امتیاز صاحب: آپ کو معلوم ہے کہ ایک مہینے کے بعد امتحان شروع ہو رہے ہیں۔ خالد اور ناصر: جی استاذ صاحب! ہمیں معلوم ہے۔ امتیاز صاحب چائے کی چُسکی لیتے ہوئے بولے: پھر آپ نے امتحان کی تیاری کرنا شرو ع کی؟ بقیہ طَلَبہ نے تو پیپروں کی تیاری شروع کردی ہے۔ خالد: استاذ صاحب اتنی جلدی! ابھی تو پورا ایک مہینا باقی ہے۔ امتیاز صاحب: دیکھو بیٹا! اگر آپ ابھی سے تیاری کرو گے تو بآسانی تیاری بھی ہوجائے گی اور نمبر بھی بہت اچھے آئیں گے۔ ناصر: ہر بار کی طرح اس بار بھی آخر میں تیاری کر لیں گے، بھلے ہم تیاری آخِر میں کریں لیکن کامیاب ہوجائیں گے، تو پھر اتنی جلدی کرنے کا کیا فائدہ؟امتیاز صاحب: جلدی تیاری کرنے کے بہت سے فائدے ہیں، مثلاً (1)تھوڑا تھوڑا یاد کرنا ہوگا، ایک ساتھ اتنا سارا یاد نہیں کرنا پڑے گا (2)سمجھ سمجھ کے یاد کرو گے (3)اس طرح کا یاد کیا ہوا ایک عرصہ یاد رہے گا (4)امتحان کے دِنوں میں اِطْمِینان سے رہو گے (5)دُہْرائی کا موقع مل جائے گا۔ ابھی سے تیاری نہیں کی تو اگرچہ امتحان میں جیسے تیسے کامیاب ہوجا ؤ گے لیکن جو امتحان کا فائدہ ہے وہ حاصل نہیں ہوگا، اس بار کوشش کرو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ضرور فائدہ ہوگا۔ خالد: ہماری عادت ہے کہ ہم پچھلے سالوں کے حَل شُدَہ پرچہ جات (Solved Papers)سے تیاری کرتے ہیں اور اس سے تیاری تو آخری دنوں میں بآسانی ہوجاتی ہے۔ امتیاز صاحب نے چائے کی آخری چُسکی لی اور کہا: آپ دونوں اس طرح کی چیزوں پر بھروسا مَت کریں، کیونکہ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو سُوالات ان میں لکھے ہوتے ہیں وہ پیپر میں نہیں آتے۔ ایک دو سوال آتے بھی ہیں تو ان سے پاسِنگ مارکس ہی مل پاتے ہیں پھر آپ صرف پاس ہونے کا ہی کیوں سوچتے ہیں، اچھے نمبر لیں گے تو اس میں آپ کی بھی عزّت ہوگی اور آپ کے والدین کابھی نام ہوگا۔ اسی لئے اپنی کتابوں سے تیاری کریں اور جو سمجھ نہ آئے وہ اپنے اَساتِذہ یا کلاس فیلوز سے پوچھ لیں۔ خالد اور ناصر: ہم ایسا ہی کریں گے۔امتیاز صاحب: مجھے بہت خوشی ہوئی، مجھے یقین ہے کہ آپ دونوں ابھی سے محنت شروع کردیں گےتو امتحان میں اچھے نمبر لیں گے۔اچھا اب میں چلتا ہوں لیکن ہاں ہر روز کی اَپ ڈیٹ (Update) ضرور لیتا رہوں گا۔ خالد اور ناصر: جی ضرور۔ پھر دونوں بھائیوں نے مِل کر کتاب سے تیاری کرنا شروع کر دی اور ساتھ ساتھ اپنے نوٹس (Notes) بھی بناتے گئے جن سے انہیں امتحان کے دنوں میں بڑا فائدہ ہوا ۔ کل تک جو مشکل سے پاس ہوتے تھے اس بار وہ اچھے نمبروں سے پاس ہوگئے، رِزَلْٹ کارڈ ہاتھ میں لے کر دونوں بہت خوش نظر آرہے تھے ،دارُالمدینہ سے واپسی پر دونوں پکی نیت کرچکے تھے کہ آئندہ پہلے سے ہی امتحان کی تیاری کرلیا کریں گے۔


دوست کی مدد

Sat, 14 Sep , 2019
4 years ago

دوست کی مدد

چُھٹیاں ختم ہونے کے بعد اسکول میں پہلا دن تھا سب بچے نئے یونیفارم اور نئے جوتے پہنے ہوئے تھےٹیچرجونہی کلاس رُوم میں داخل ہوئے سب بچے اِحتراماً کھڑے ہوگئے، پڑھائی کا آغاز ہونے کے کچھ دیر بعد پرنسپل صاحب نے حامد کو اپنے آفس میں بلوالیا،پرنسپل: سب بچے نیا یونیفارم اور نئے جوتے پہن کر آئے ہیں آپ کا یونیفارم اور جوتے نئے کیوں نہیں ہیں؟ حامد: میری امّی نے کہا تھا کہ کچھ دن بعد یونیفارم اور جوتے خریدلیں گے، پرنسپل: یہ چیزیں تو پہلےسے خریدنی تھیں، کیا آپ کےوالدین کو آپ کا کوئی احساس نہیں ہے؟ حامد: پچھلے مہینے ایکسیڈنٹ میں ابّو کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی پلاسٹر کھلنے میں 3 مہینے لگیں گے، پرنسپل: اپنی امّی کے ساتھ جاکر خریداری کرلیں! آپ کے پاس 2 دن کا وقت ہے،حامد: مگر میری بات تو سنئے!!! پرنسپل: 2دن بعد آپ کو کلاس رُوم میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوگی، اب آپ جاسکتے ہیں۔ حامد خاموشی سے سَر جھکائے آفس سے باہر آگیا، ہاف ٹائم میں سب بچے کھیل کود اور کھانے پینے میں مصروف تھے لیکن حامد کلاس رُوم میں بیٹھا رو رہا تھا، اتنے میں سلیم اندر داخل ہوا، سلیم: حامد میرے دوست کیوں رو رہے ہو؟ حامد: میرے ابّو کی ٹانگ پر پلاسٹر بندھا ہوا ہےجس کی وجہ سے ابّو کام پر نہیں جارہے، گھر میں جو کچھ جمع ہے اسی سے تھوڑا تھوڑا کرکے کھا رہے ہیں، مگر نیا یونیفارم اور نئے جوتے 2 دن تک نہ آئے توکلاس میں بیٹھنے نہیں دیا جائے گا، اب میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں؟ سلیم حامد کی بات سُن کر کافی اَفسُردہ ہوگیا۔شام کی چائے کے وقت سلیم نے اپنے ابّو سےکہا:ابّو! میرا نیا یونیفارم اور جوتے آپ نے کتنے میں خریدے تھے؟ ابّو: 1500روپے کے، لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟سلیم نے ابّو کو ساری بات بتادی سلیم: میں چاہتا ہوں کہ آپ حامد کےلئے کچھ کریں، ابّو: ہم امیر نہیں ہیں، پھر اس کی مدد کیسے کرسکتے ہیں؟ سلیم:مدد کیلئے امیر ہونا ضروری تو نہیں ہے، آپ کوشش کریں تو شاید اتنی گنجائش نکل آئے کہ اس کی مدد ہوجائے ؟ ابّو: بیٹا! آپ جانتے ہیں کہ میں جاب کرتا ہوں، اس مہینے آپ اور آپ کے بہن بھائیوں کے یونیفارم،کتابیں کاپیاں وغیرہ خریدنے پر کافی رقم خرچ ہوگئی ہے اس لئے حامد کی مدد کرنا میرے لئے مشکل ہے، سلیم : ابّو! آپ مکتبۃُ المدینہ کی ایک کتاب ” بہتر کون“ لائے تھے،اس میں ہے کہ حضرت ِسیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا نے بارگاہِ رسالت صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم میں عرض کی: یارسولَ اللّٰہ! جنّت کی وادیوں میں اللّٰہ پاک کی رَحمت کے قُرب میں کون ہوگا؟ پیارے آقا صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو میری سنّت کو زندہ کرے اورمیرے پریشان اُمّتی کی تکلیف دور کرے۔(بہتر کون، ص:129) ابّو! آپ ہی توہمیں سمجھاتے ہیں کہ پریشان حالوں کی مدد کرنا اور ان کی پریشانیاں دور کرنااچھے لوگوں کا طریقہ ہوتا ہے اور آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب کسی غریب انسان کی مدد کی جاتی ہےتومدد کرنے والے کو ایسی خوشی ملتی ہےجسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا اور اسے وہی سمجھ سکتا ہے جسے یہ سعادت ملے،سلیم کی باتیں سُن کر ابّو کو بہت خوشی ہوئی کہ ان کی مَدَنی تربیت کی جھلک ابھی سے نظر آرہی تھی ، ابّو نے سلیم کی امّی کی طرف دیکھا، امّی: سلیم ٹھیک کہہ رہا ہے، ہم امیر نہیں تو کیا ہوا لیکن اتنے غریب بھی نہیں ہیں کہ کسی کی تھوڑی سی بھی مدد نہیں کرسکتے،ابّوایک جھٹکے سے کھڑے ہوئے اور سلیم کا ہاتھ پکڑ کر بولے: چلو سلیم بیٹا ! ہم آج ہی حامد کیلئے نیا یونیفارم اور جوتے خریدیں گے، نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ کچھ دیر بعد سلیم اور اس کے ابو حامد کے گھر کے دروازے کی بیل بجارہے تھے۔


بچوں کوسکھائیے

Fri, 13 Sep , 2019
4 years ago

بچوں کوسکھائیے

اَلتَّعَلُّمُ فِی الصِّغَر كَالنَّقْشِ فيِ الْحَجَریعنی بچپن میں سیکھنا پتھر پہ لکیر کی طرح ہے۔ عربی کی یہ کہاوت جتنی مشہور ہے اتنی ہی سچی بھی ہے، بچہ جو باتیں اور اخلاقیات سیکھتا ہے زندگی بھر انہی پر عمل کرتاہے، چاہے وہ اچھائی کا سیدھا راستہ ہو یا بُرائی کی تاریک وادی ہو۔ اگر آج ہم اپنے بچوں کی مدنی تربیت کریں گے تو ہی آگے چل کر وہ ملک و قوم کےخدمت گار اور معاشرے کے بہترین افراد بنیں گے۔ تربیتِ اولاد سے متعلق کچھ مدنی پھول پیشِ خدمت ہیں:

(1) بچوں کو وقت کا پابند بنائیے اس بات کا خاص خیال رکھئے کہ آپ کے بچے وقت پر اسکول پہنچیں۔ اگر تاخیر سے اسکول پہنچیں گے تو سبق ضائع ہوگا، ٹیچر کی نظروں میں بچے کا امیج خراب ہوگا، کلاس میں ریکارڈ خراب ہوگا، وغیرہ وغیرہ بہت سے نقصان ہوں گے۔ پابندی ِوقت کے لئے پیش بندی (دور اندیشی) سے کام لیجئے، پہلے ہی ایسی تدابیر اختیار کیجئے کہ بچے تاخیر کا شکار نہ ہوں۔ صبح ناشتے اور بچوں کی تیاری میں دیر نہ کیجئے، صبح جاگنے سے اسکول پہنچنے تک نظام الاوقات اس طرح منظّم کیجئے کہ بچے اسکول ٹائم شروع ہونے سے 10 منٹ پہلے اسکول پہنچ جایا کریں اس پیش بندی کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر کبھی تاخیر ہو بھی گئی تو کم از کم اسکول کے وقت پر ضرور پہنچ جائیں گے۔ (2)ڈسپلن کا ذہن دیجئے والدین کا کام یہیں ختم نہیں ہوجاتا کہ بچے کو اسکول بھیج دیا اور ذمہ داری ختم! بلکہ موقع بموقع خود بھی بچے کی تربیت کرتے رہنا چاہئے، اپنے بچے کو ڈسپلن (Discipline) سکھائیے، انہیں سمجھائیے کہ ”اسکول کے اصول کی پابندی کیا کریں، ٹیچرز کی بات مانیں، ان کا ادب کریں۔“ ڈسپلن کی پابندی سے بچوں کا ریکارڈ بھی اچھا رہے گا اور ٹیچرز کی نگاہوں میں عزت بھی بنے گی۔ (3) روزانہ ہوم ورک کروائیےاسکول میں گھر کے لئے جو کام دیا جائے وہ بچوں سے روزانہ لازمی کروائیے، اس کے لئے کوئی وقت مقرر کرلیجئے اور پابندی ِوقت کے ساتھ اپنی نگرانی میں ہوم ورک (Home work) مکمل کروائیے، اسکول کے کام میں بالکل بھی سمجھوتا مت کیجئے، آپ اس معاملے میں ذرا سی لچک دکھائیں گے تو بچے تو بچے ہیں وہ کھیل کود میں لگ جائیں گے اور ہوم ورک کی طرف سے بالکل غافل ہوجائیں گے، یوں ان کی پڑھائی خراب ہوگی، ریکارڈ خراب ہوگا، اسکول میں ٹیچر سرزنش کریں گے۔ آپ کی ذرا سی بے پروائی بچوں کا مستقبل تاریک کرسکتی ہے۔ روز کا ہوم ورک روز کروائیں گے تو ان کی پڑھائی اچھی ہوگی، ہر نیا سبق سمجھنے میں آسانی ہوگی، امتحانات میں بہت زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی۔ (4) اسکول بیگ دیکھ لیجئےبچے کو ذہن دیں کہ ہوم ورک کے بعد اپنی کتابیں پنسل وغیرہ لازمی بیگ میں رکھیں، ادھر ادھر نہ پھینکیں، اپنی چیزوں کی خود حفاظت کرنے کی عادت بنائیں نیز اپنا معمول بنائیے کہ صبح بچوں کو اسکول روانہ کرنے سے پہلے ان کا بیگ چیک کیجئے، کتابیں پوری ہیں؟ کاپیاں سب موجود ہیں؟ پنسل، اسکیل وغیرہ اسٹیشنری سب موجود ہے نا! اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ بچے کوئی کتاب وغیرہ گھر پر بھول کر نہیں جائیں گے نیز محترم والدین! آپ کو بھی معلوم رہے گا کہ بچے کو اب کس چیز کی ضرورت ہے! کیا کاپی ختم ہونے والی ہے یا نئی پنسل خریدنی ہے۔

ماں باپ کی دُعا اولاد کو کامیاب بناتی ہے! ہر نماز کے بعد اللہ پاک کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلائیے اور دُعا کیجئے کہ ”یااللہ! ہماری اولاد کو دین و دنیا کی کامیابی عطا فرما۔“

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دادی امّاں نےدلخراش واقعہ سنایا

دادی اماں کوئٹہ سے پشاورکیا آئیں گھر کا ہر فرد خوش تھا خاص طور پر کاشف ،بلال اور ننھی عائشہ تو دادی کے پاس ہی بیٹھ گئے تھے،امی نے جیسے تیسے کرکے بچوں کو کمرے سے باہر نکالا تو دادی آرام کےلئے لیٹ گئیں۔ رات کھانا کھانے کے بعد تینوں بچے پھر دادی کے گرد جمع ہوگئے اور کہانی سنانے کی ضد کرنے لگے، دادی محرم کا مہینا شروع ہوچکا ہے، اس لئے آج تمہیں ایک سچی کہانی سناؤں گی، بچوں نے ایک آواز میں کہا: ہم ضرور سنیں گے۔ دادی سینکڑوں سال پہلے صحابی رسول حضرت سیدنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے انتقال کے بعد یزیدنے ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا، ایک آدمی نے اسے مشورہ دیا: سب لوگوں کوکہوکہ وہ تمہیں اپنا حاکم تسلیم کر لیں جو تمہاری بات مان لے تو ٹھیک ہے اور جو انکار کرے اسے قتل کردو، یزید کو یہ مشورہ پسند آیا اس نے لوگوں پر سختی کی تو بہت سارے لوگوں نے یزید کو اپنا حاکم مان لیا، یزید ایک نالائق آدمی تھا اس لئے بعض صحابہ کرام رضیَ اللہُ تعالٰی عنہم نے اسے حاکم ماننے سے انکارکردیا ان میں ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے نواسے حضرت امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بھی شامل تھے۔ کوفہ کے رہنے والوں نے امام حسین کے پاس بہت سارے خط بھیجے اور کہا: ہماری جانیں آپ پر قربان ہیں آپ ہمارے پاس تشریف لے آئیےہم سب آپ کو حاکم مانتے ہیں ۔ امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے پہلے اپنے چچاکے بیٹے حضرت مسلم بن عقیل رضیَ اللہُ تعالٰی عنہما کو کوفہ بھیجا تاکہ دیکھ کر بتائیں کہ یہ لوگ اپنی بات میں کتنے سچے ہیں ؟ اگر ان کی بات سچ ہوئی تو ہم کوفہ جائیں گے۔ حضرت مسلم رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کوفہ پہنچے تو 12 ہزار لوگوں نے ان کی بات ماننے کا یقین دلایا ، حضرت مسلم رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے امام حسین کو خط میں ساری تفصیل لکھ دی اور کہا: آپ کوفہ آجائیے، کوفہ کے گورنر ابن زیاد کو معلوم ہوا تواس نے حضرت مسلم رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کو پکڑنے کا حکم دے دیا ، یہ دیکھ کر کوفہ والوں نے حضرت مسلم کا ساتھ چھوڑ دیا حضرت مسلم رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے ایک گھر میں پناہ لے لی، ابن زیاد نے انہیں گرفتار کرلیا اور شہید کردیا۔ دادی سانس لینے کے لئے خاموش ہوئیں توبچوں کے سوالات شروع ہوگئے، کاشف پھر کیا امام حسین کوفہ آگئے تھے؟ دادی امام حسین3 ذو الحجہ کو 82 افراد کے ساتھ مکہ سے روانہ ہوئےتھے اور ابھی راستے میں تھے کہ حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر مل گئی، امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ہم تب تک واپس نہیں جائیں گے جب تک خون کا بدلہ نہ لےلیں یا پھر اس راہ میں قربان ہوجائیں گے ۔ بلال کوفہ والوں نے امام حسین کو بلایا تھا اب تو انہوں نے خوب مدد کی ہوگی؟ دادی کوفہ کے لوگ بہت برے تھے انہوں نے امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کو اپنے پاس بلوایا لیکن ان کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ دشمنوں کے ساتھ مل کر ان پر حملہ کردیا امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے جب یہ دیکھا کہ ان کے ساتھی کم تعداد میں ہیں اور مقابلے میں بہت سارے لوگ ہیں تو انہوں نے بے عزتی والی زندگی گزارنے کے بجائے عزت سے مرنا پسند کیا۔ یزید کی 22 ہزار کی فوج کےسامنے 82 افراد تھے جن میں عورتیں بچے اور بیمار بھی تھے اور وہ بھی جنگ کے ارادے سے نہیں آئے تھے دشمنوں نے لشکروالوں کا پانی تک بند کردیا مرد عورتیں بچے سب پیاس اور بھوک سے پریشان ہوگئے تھے امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے ساتھی ایک ایک کرکے راہِ خدا میں شہید ہونے لگے آخر کار 10 محرم 61 ہجری جمعہ کے دن نہایت بہادری اور ہمت سے لڑتے ہوئے امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بھی شہید ہوگئے مگر یزید جیسے نالائق حکمران کی بات نہیں مانی۔ ننھی عائشہ: دادی! یزید کیا اچھا آدمی نہیں تھا ؟ دادی: یزید بہت بُرا آدمی تھا، گندے کام کرتا تھا، شراب پیتا تھا اور نمازیں قضا کرتا تھا۔ بلال: یزید اتنابُرا تھاتو دوسرے لوگوں نے یزید کو اپنا حاکم کیوں مانا تھا؟ دادی: کچھ لوگوں نے اسے حاکم مان کر بڑے بڑے عہدے اور وزارتیں لے لیں اور اپنی جائیدادیں بنائیں جبکہ اچھے لوگوں نے اسے دل سے اپنا حاکم نہیں مانا تھا ،اگر وہ ایسا نہ کرتے یزید انہیں قید میں ڈال دیتا ان پر ظلم کرتا اور انہیں قتل کردیتا۔ کاشف امام حسین نے یزید کی بات کیوں نہیں مان لی؟ دادی: امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے دوستوں، گھر والوں بلکہ خود اپنی جان کو راہِ خدا میں پیش کرکے دین اسلام کو طاقت ور بنایا ہے۔ اگر امام حسین بھی یزید کی بات مان لیتے تو ہمیں دین اسلام کی خاطر قربانی دینے کا جذبہ کیسے ملتا، ہم یہ کیسے کہتے کہ ہمارے اندر ایسے بہادر افراد بھی ہونے چاہئیں جوظلم کرنے والوں کے آگے ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں، مشکل اور پریشانی والے حالات میں دشمنوں کے سامنے سر نہ جھکائیں اور ہمت و بہادری کے ساتھ ان کے سامنے اپنا سینہ تان لیں۔ بلال: دادی! میرا ایک دوست کہہ رہا تھا کہ یزید نے امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کو شہید نہیں کیا تھا کیونکہ وہ تو وہاں موجود ہی نہیں تھا؟ دادی : جو کچھ کربلا کے میدان میں اور اس کے بعد خاندانِ نبوت کے ساتھ ہوا وہ سب یزید کے حکم اور خوشی سے ہوا تھا اس لئے یزید اس واقعہ کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے۔ میرے بچو! جو لوگ یزید کو اچھا کہتے ہیں ان کے قریب بھی مت جاؤ اور امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی محبت کا دم بھرتے رہو کیونکہ جو دنیا میں جس سے محبت کرتا ہے کل آخرت میں اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ چلو بچو! اب کافی دیر ہوگئی ہے جلدی سے اپنے کمرے میں جاکر سو جاؤ پھر صبح فجر کی نماز بھی پڑھنی ہے ۔

گھریلو اخراجات کیسے پورے ہوں؟

میٹھےمیٹھےاسلامی بھائیو! دنیا میں اللّٰہ پاک نے تمام انسانوں کو ایک جیسا رِزْق عطا نہیں فرمایا، بعض لوگ غریب ہیں، بعض مُتَوسِّط (درمیانے یعنی نہ غریب ، نہ امیر) اور بعض امیر، اس میں اللّٰہ پاک کی بے شمار حکمتیں ہیں، ان میں سے ایک حکمت اس حدیثِ قُدسی(1) میں بیان ہوئی ہے، چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں جن کے ایمان کی بھلائی مالدار ہونے میں ہے، اگر میں انہیں مالدار نہ کروں تو وہ کُفْر میں مبتلا ہو جائیں گے اور میرے بعض مومن بندے ایسے ہیں کہ ان کے ایمان کی بھلائی مالدار نہ ہونے میں ہے، اگر میں انہیں مالدار کردوں تو وہ کُفْر میں مبتلا ہو جائیں گے۔(ابنِ عساکر،7/96)

بعض مُتَوسِّط اورغریب لوگ آمدنی کم اور اخراجات کے زیادہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہوکر اللہ پاک کی جناب میں نامُناسب اور بسا اوقات کفرِیّہ الفاظ بھی بول جاتے ہیں اور انمول دولت ’’ایمان‘‘ سے محروم ہوجاتے ہیں۔ تھوڑی آمدنی کی صورت میں اللہ پاک کی رِضا پر راضی رہتے ہوئے صبر و قناعت کے ساتھ زندگی گزارئیےاور اس کے فائدے حاصل کیجئے۔ تھوڑے رزق پر راضی رہنے کا فائدہ رسولِ اكرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اللہ پاک سے تھوڑے رِزق پر راضی رہتا ہے اللہ پاک اس کے تھوڑے عمل سے راضی ہو جاتا ہے۔(شعب الایمان، 4/139، حدیث:4585) بَسا اوقات کمانے والا

(1)وہ حدیث جس میں فرمان اللہ پاک کا ہواورالفاظ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہوں۔

فرد خود کو تھوڑے رزق پر راضی کرلیتا ہے لیکن اس کے دیگر فیملی ممبران اپنی غیرضروری فرمائشوں کا اس پر ایسا بوجھ ڈالتے ہیں جس سے اس کی زندگی اَجِیرن (مشکل) ہوکر رہ جاتی ہے۔ کم آمدنی میں بھی پُرسکون رہنے کے چند طریقے (1)ماہانہ راشن، ٹرانسپورٹیشن (سفری اخراجات)، گیس، بجلی، اگر کِرائے کے گھر میں رہتے ہیں تو اس کا کِرایہ اور بچّے ہیں توان کے تعلیمی اخراجات وغیرہ کا اپنی آمدنی کے مطابق ہی بجٹ بنائیے، پھر اس پر قائم بھی رہئے (2)گھر والوں کو چاہئے کہ گھر کے سربراہ یا کمانے والے فرد پر زیادہ کمانے کا پریشر (دباؤ) ڈالنے کے بجائے خود کو کم خرچ پرآمادہ کریں، آپ کے پریشر ڈالنے کی وجہ سے زیادہ کمانے کے چکّر میں کہیں وہ دھوکا دہی اور کرپشن (بدعنوانی/حرام روزی کمانے) میں مبتلا نہ ہوجائے (3)تمام فیملی ممبران (گھروالوں) سے گزارش ہے کہ آمدنی اگرچہ کم ہو، مَحَبّت سے رہیں کہ آپس میں اِتفاق و مَحَبّت کی وجہ سے اللہ پاک کم رِزْق میں بھی برکت دے دےگا، لڑنے جھگڑنے اور آپس میں مُنہ چڑھا کر رہنے سے آمدنی تو نہیں بڑھے گی البتّہ گھریلو مَسائل میں اضافہ ہوجائے گا (4)بسا اوقات سوچ سوچ کر انسان اپنے آپ کو خود ہی پریشان کرتا ہے، مثلاً میرے پاس پہننے کے لئے کپڑے اور جوتے فلاں صاحبِ ثَرْوَت (امیر شخص) جیسے ہوں، میرے پاس گاڑی فلاں امیرآدمی جیسی ہو، میرا گھر ایسی ایسی خُصوصیات والا ہو اور میرے پاس موبائل تو سب سے مہنگے والا ہو وغیرہ، جبکہ اس کے مقدّر میں اس طرح نہیں ہوتا، لہٰذا اپنا یہ ذہن بنائیے کہ جو مقدّر میں ہے وہ ہی ملے گا میرے چاہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اخراجات کم کرنے کے چند طریقے لوگ عموماً آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے اس بات کی فِکْر میں رہتے ہیں کہ سیلری (تنخواہ) بڑھ جائے یا میری اِنکم (آمدنی) کے ذرائع بڑھ جائیں جبکہ اپنے اَخراجات کم کرنے کا ذہن کسی کسی کا ہوتا ہے، چنانچہ اخراجات کم کرنے کے چند طریقے مُلاحَظہ فرمائیے: (1)تمام فیملی ممبران آپس میں مشورہ کرکے یہ طے کریں کہ گھر میں جو شخص اچّھے انداز سےخریداری (purchasing) کرنا جانتا ہو گھر کا راشن و دیگر سامان لینے کی ذِمّہ داری اسی کے حوالے کی جائے (2)جو خریدنا ہو پہلے اس کی لسٹ بنالی جائے اور پھر خریداری کے لئے جایا جائے اور بہتر یہی ہےکہ ہول سیل والی قیمت پر ہی اشیا خریدی جائیں (3) شادی بیاہ اور دیگر اس طرح کے ایونٹس (تقریبات یعنی شادی، ختنہ یا اور کوئی موقعہ جس پر رشتہ دار وغیرہ جمع ہوں) پر غور کرلیا جائے کہ اگر پہلے سے موجود کپڑے اور جوتے وغیرہ پروگرام میں پہننے کے قابل ہوں تو نئے لینے کے بجائے انہی سے کام چلایا جائے (4)باہر کھانا دوستوں کے ساتھ ہو یا اپنی فیملی کے ساتھ اس سے پرہیز ہی کیا جائے تو بہتر ہے اگرچہ آپ کی آمدنی اچّھی ہی کیوں نہ ہو، اِس سے جہاں خرچہ بچے گا وہیں آپ کی اور آپ کے گھر والوں اور بچّوں کی صحّت کا تَحفّظ بھی ہے (5) جو بچّے تعلیم کے لئے جاتے ہیں ان کا لَنچ بکس (یعنی دوپہرکا کھانا) گھر میں ہی بناکر دیا جائے، یوں ہی جو اَفراد دفتر وغیرہ جاتے ہیں باہَر سے کھانا لینے کے بجائے گھر سے ہی لے جانا شُروع کردیں (6)ڈاکٹر کے مشورے سے دودھ پیتے بچّوں کو ہو سکے تو مائیں خود ہی دودھ پلائیں، اس سے جہاں بچّوں کی صحّت میں بہتری آئے گی وہاں دودھ کےڈَبوں میں خرچ ہونے والی رَقْم کی بچت بھی ہوگی (7)بجلی سے چلنے والے آلات کو بقدرِ ضرورت ہی استعمال کریں، ضرورت پوری ہوجائے تو بند کردیں، نیز بجلی سے چلنے والے جن آلات سے بِل کم آتا ہو یا جس طریقۂ استعمال سے بِل میں نمایاں کمی واقع ہوسکتی ہو اسے ہی اپنایا جائے، مثلاً اےسی کے تھرمو اسٹیٹ میں چند ڈگری کی تبدیلی بجلی کے بل میں نمایاں کمی لاسکتی ہے، اسے 25 یا 26 پر رکھ کر بچت کی جاسکتی ہے (8)کم آمدنی والے افراد اپنے دفتر یا جہاں کام کرتے ہیں وہاں سہولت سےآنے جانے کی سوچ میں کسی مہنگے علاقے میں کرائے کا گھر لینے کے بجائے کچھ ٹریفک کی پریشانی برداشت کرکے کسی سستے علاقے میں گھر لیں (9)سیلری بڑھتے ہی اخراجات نہ بڑھائے جائیں، اس لئے کہ لوگ سیلری بڑھتے ہی اپنے اَخراجات بڑھا دیتے اور پھر بَسا اَوقات آمدنی سے بھی زیادہ اَخراجات ہوجاتے ہیں، لہٰذا یہ کوئی عَقْل مَندی نہیں ہے کہ سیلری بڑھتے ہی اَخراجات بھی بڑھادیئے جائیں (10)سگریٹ، پان، گٹکا، مختلف قسم کی چھالیا اور مین پوری وغیرہ اور اس طرح کی دیگر بُری عادات سے خود کو بچانے میں صحّت کے تَحفّظ کے ساتھ ساتھ ان چیزوں میں اُڑائے جانے والے پیسوں کی بچت بھی ہے، نیز موبائل فون اور نیٹ کے بےجا استعمال سےبھی پرہیز کیجئے۔ رزق میں برکت آمدنی چاہے کم ہو یا زیادہ جب تک اس میں برکت نہیں ہوگی بچت کی کوئی بھی تدبیر کارگر نہیں ہوگی، لہٰذا رزق میں برکت کے چندمدنی پھول پیشِ خدمت ہیں: (1) کھانا کھانے سے پہلے اور بعد ہاتھ دھونا رزق میں برکت لاتا ہے (2)گھر میں داخل ہوتے ہی سلام کرنے اور سورہ ٔ اخلاص پڑھنے سے رِزْق میں برکت ہوتی ہے (3)جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے رَزْق میں برکت ہوتی ہے (4)سچ بولنے سے رِزْق میں برکت ملتی ہے (5)بِسمِ اللہ شریف پڑھ کر کھانا کھانے سے رِزْق میں برکت ہوتی ہے۔

میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ ذکر کئے گئے مدنی پھولوں پر عمل اور سادہ طرزِ زندگی (Life Style) اپنا کر اپنے گھریلو اخراجات پر قابو پائیے۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ دین و دنیا کی بے شمار برکات نصیب ہوں گی۔


پردیس کی مشکلات

پیارے اسلامی بھائیو! جتنا رِزْق ہمارے مُقدّرمیں لکھاہے وہ ہمیں مل کر رہے گاچاہے ہم کہیں بھی ہوں، لہٰذا جائز ذرائع اپناکراللہ پاک پربھروسا کرتےہوئےاپنےہی ملک میں روزگارحاصل کرناچاہئے۔یہ کہنا کہ یہاں روزگارنہیں ہے یا ہمیں پوری نہیں پڑتی یا اس کے علاوہ کسی دُنیاوی غرض کی بنا پر بیرونِ ملک رہنے کاسوچ لینادانشمندی نہیں کیونکہ عُموماً یہاں سے جانے والے افرادجن دینی یادُنیاوی آزمائشوں کا شکار ہوتے ہیں ان کا تدارُک وہاں سےحاصل ہونےوالاپیسہ نہیں کرسکتا۔ پھر بیرونِ ملک جانےوالے اَفراد دو قسم کے ہوتے ہیں:

(1)قانونی (Legal) طریقے سے جانے والے اور (2)غیرقانونی (Illegal) طریقے سے جانے والے۔ غیرقانونی ذرائع سے بیرونِ ملک سفر کے نقصانات اس کے لئے رشوت دی جاتی ہے جھوٹ بولاجاتا ہے اپنی جان اورعزّت کو داؤ پر لگایا جاتا اور دونوں ملکوں کے قوانین کو توڑا جاتا ہے بسااوقات کوئی ایجنٹ ان افرادسے رقم وصول کرکے یا پھر کچھ رقم ایڈوانس اور بقیہ دوسرے ملک پہنچ جانے کے بعد وصول کرنے کی شرط پر انہیں ایسے راستے سے لے جاتا ہے کہ جو جنگل بیابان، برفانی پہاڑ، دریا اور سمندروغیرہ پرمشتمل ہوتا ہے، ایسے سفر میں جن مصیبتوں اور خطرات کا سامنا ہوتا ہے ان میں بھوک، پیاس، سردی، ایجنٹ اور اس کے کارندوں کی طرف سے مارپیٹ،غیرقانونی طور پرسرحد(Border) عبور کرتے ہوئے فائرنگ کانشانہ بننے کا خوف!اس طرح کے غیرقانونی اور پُرخطر سفر کی وجہ سے اب تک لوگوں کی ایک تعداد اپنے ہاتھ یا پاؤں سے معذور ہوچکی،کئی اپنی جان کی بازی ہارچکےاور کئی لاپتا ہوچکےہیں۔ چھ عبرتناک واقعات(1)ایک غیر قانونی سفر کے دوران برفانی راستے میں ایک شخص کے ہاتھ شل ہوگئے،ڈاکٹروں کے پاس سوائے ہاتھ کاٹنے کے اور کوئی چارا نہ تھا،بالآخِراس شخص کو ہاتھ کٹواناہی پڑے۔(2)اپنے مطلوبہ ملک پہنچنے کیلئے برفانی پہاڑ کوعُبور کرتے ہوئےایک شخص سَرپر چوٹ لگنے کی وجہ سے بےہوش ہوگیا،بقیہ ساتھی اسے وہیں چھوڑ کر آگے روانہ ہو گئے، بالآخر برف میں پڑے رہنے کی وجہ سے اس کا پاؤں ناکارہ ہو گیا جسے بعد میں کاٹنا پڑا۔(3)دوسگے بھائی ایک کشتی پر سوار تھے،ایک بھائی کوکھانسی ہوئی جو رکنے کانام نہیں لے رہی تھی، ایجنٹ نے کہا:اسے خاموش کراؤ ورنہ سب لوگ سمندر میں موجود نیوی(Navy)اہلکاروں کے ہاتھوں پکڑے جائیں گے، کھانسی کو روکنا اس شخص کے اختیار میں نہ تھا،بالآخر پکڑے جانے کےڈر سے ایک بھائی کے سامنے دوسرے بھائی کوسمندر میں پھینک دیاگیا۔ (4)ایک ملک کے بارڈر پرفائرنگ کی وجہ سے ایک شخص کوٹانگ میں گولی لگی، وہ شخص پوری زندگی کیلئے اس ٹانگ سے معذور ہوگیا۔ (5)ایک نوجوان اسی سفر میں کسی ملک کےبارڈرپر پکڑاگیا،وہاں اس پر ظالمانہ جسمانی تشدّد کیا گیا جس کی وجہ سے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے آٹھ ماہ بعداس کا انتقال ہوگیا۔(6)ایک نوجوان اسی طرح کے سفرپر نکلابرسوں گزرگئے اس کاکوئی پتا نہ چلا، اس کے غم میں بوڑھے باپ کوفالج ہوگیا۔ ہلاکتوں کی تعداد انسانی اسمگلنگ کا یہ سلسلہ پوری دنیامیں پایا جاتاہے، ایک رپورٹ کے مطابق 2017ء میں تارکینِ وطن افراد کے ہلاک ہونے کی تعداد 30800 ہے، جن میں بارڈر پار کرتےہوئےقتل کئے جانے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔مطلوبہ ملک پہنچنے کے بعد کی آزمائشیں بسااوقات بیرونِ ملک لے جانے والے ایجنٹس کا گینگ بنا ہوتا ہے،یہ ساتھ لے جانے والے افراد کو اس گینگ کے سِپُرْد کردیتا ہے جو ان سے چوریاں اورڈکیتیاں کرواتےہیں،مزید رقم کے لئے ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ اپنے گھر والوں سے پیسے منگوا کر دو اورجو نہ منگوائے اس پر طرح طرح کا تشدّد کرتے ہیں،مثلاًاس کےجسم کو گرم استری سے داغنا، بجلی کےجھٹکے لگانا، چھریوں سےکٹ لگانااور ڈنڈوں سے مارپیٹ کرنا وغیرہ۔ اگربیرونِ ملک کسی کوکوئی جائز کام مل بھی جائےتوکام مکمل کرنے کے بعدجب وہ اپنی مزدوری یا سیلری لینے کی بات کرتاہےتو کام کروانے والا اسے دھمکی دیتا ہےکہ پولیس کوبلاؤں؟ بالآخر جو ملے اسے چپ چاپ لینا پڑتا ہے۔ مزدوروں کے کھانےکے وقت اگرگوشت کاسالن ہوتوایک ہی سالن مسلمان کو کسی حلال جانور کا نام لے کر جبکہ غیرمسلم کو خنزیر یا اس کےمذہب پر جس جانورکےگوشت کا کھانادرست ہو اس کانام لیکر کھلادیا جاتا ہے۔ بیٹا کیا کررہے ہو؟ بیرونِ ملک سے ایک شخص کااپنے گھروالوں سے رابطہ ہوا جب والد سے بات ہوئی تووالد نے پوچھا: بیٹا کیا کررہےہو؟جواب دیا: ابو! جھاڑو دے رہاہوں۔یہ کہتے ہی کال کٹ گئی، دوبارہ رابطہ ہوا توپتا چلاکہ یہ سنتے ہی باپ کاہارٹ فیل ہوگیا اوراسی وقت وہ دنیاسے رُخْصت ہو گیا۔ ان تمام تَر دُنْیَوی آزمائشوں کےعلاوہ بِالخصوص ایسےمَمالِک میں جہاں بےحیائی، فحاشی اورعُریانی عام ہے ،بہت سے ایسے اُمور ہیں کہ جن کی وجہ سے ایک مسلمان کادین وایمان وہاں خطرے میں پڑا رہتا ہے۔رِزْق کی تنگی کے شکار تمام عاشقانِ رسول سے میری فریاد ہے کہ بیرونِ ملک جانے کی بجائےاپنے ہی ملک میں رہتے ہوئے محنت کریں، ضرورتاً اپنے ہی ملک کےبڑے شہروں کا رُخ کریں اور جو حلال روزی نصیب ہو اس پر گزارہ کرلیں، اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سُکھی رہیں گے ۔


امن کےسب سےبڑےداعی

Sat, 31 Aug , 2019
4 years ago

امن کےسب سےبڑےداعی

اَمْن بظاہر ایک چھوٹا سا لفظ ہےمگر گھر میں ہوتو ذِہْنی سکون، معاشرے میں ہو تو جانی و مالی اطمینان، ملک میں ہو تو قوم کی ترقّی اور خوش حالی کا ضامن اور معاون ہوتا ہے۔ اگرامن عالمی سطح پر ہوتو ہزاروں لاکھوں قیمتی جانوں کے ضائِع ہونے اور اربوں کھربوں روپوں کے نقصانات سے قوموں کو مَحفوظ رکھتا ہے۔ شایددنیا میں کوئی بھی ذِی شُعور و عقلمند شخص ایسا نہیں ہو گا جو اس کی اہمیت و افادیت اور خوبی سے انکار کرے۔ جہاں بدامنی ہوتی ہے وہاں* لوگوں کى اَملاک (Properties) کو نقصان پہنچتا ہے* قتل و غارت کا بازارگرم ہوتا ہے * عورتیں بىوہ اوربچّے ىتىم ہوجاتے ہیں * ہڑتالوں کی کثرت ہوتی* کاروباری طبقہ بِالخصوص روز کماکر کھانے والے مزىد آزمائش میں آجاتے ہیں*روڈٹوٹ پُھوٹ جاتے ہیں یا بند کردئیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے مسافروں خُصُوصاً مریضوں کواسپتال پہنچانے والے مشکل میں گِھرجاتے ہیں، الغرض بدامنى سے دىن و دنىا دونوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

اَمْن و سَلامتى کى اہمىت کا اندازہ اس بات سے لگاىا جاسکتا ہے کہ حضرتِ سیّدُنا ابراہىم علیہ السَّلام نے جو دُعائىں کى ہىں، ان مىں سے اىک اہم دُعا ىہ ہے:یَااللہ! اس شہر(مکّہ مکرّمہ) کو اَمْن والا بنادے۔ (پ13، ابرٰھیم:35 ماخوذاً) چاند کو دىکھ کر پڑھی جانے والى دُعا پر غور فرمائىں تو ہمارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس دُعا مىں اَمْن و سلامتى کا ذکر کىاہے:اَللّٰہُمَّ اَہِلَّــہٗ عَلَـیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ رَبِّیْ وَ رَبُّکَ اللّٰہ ترجمہ:اے اللہ! اسے ہم پر امن وامان ،سلامتی اور اسلام کا چاند بناکرچمکا، اے چاند! میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔

 ( دارمی، 2/7، حدیث:1688)

یوں تو اَمْن کے دعویدار بہت گزرے لیکن انسانوں کی بقا اور معاشرے میں اَمْن و سَلامتی قائم کرنے کے جو اُصول ہمارے پیارے آقارَحْمۃٌ لِّلْعٰلَمین صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے عطا فرمائے وہ نہ کوئی مذہب پیش کرسکا اور نہ کبھی کسی قوم کے لیڈر نے دئیے ہیں ۔ اس دنیا میں ایک دور وہ گزرا ہے کہ گویا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اُصول لاگو تھا۔ جس شخص کے پاس طاقت ہوتی وہ جو چاہتا کرگزرتا اور کوئی اسے روک نہ پاتا۔ اس طرزِ عمل نے معاشرے کو اندھیرنگری بنا دیا تھا۔ یتیموں ، بیواؤں اور غلاموں پر ظُلْم و سِتم کا بازار گرم تھا، اغواو بدکاری عام تھی، چوری، ڈاکہ زنی اور حَقْدار کو اس کے حق سے محروم کرنا لوگوں کا وتیرہ بن چکا تھا۔ کمزور فریادکرتا رہتا مگراس کی فریاد سُننے والا کوئی نہ ہوتا۔ ایسے گھٹن زدہ وَحْشت ناک ماحول میں اللہ پاک نے سِسکتی انسانیت پر رَحْم فرمایا اوررَحْمتِ عالَم، رسولِ محتشم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم اَمْن کے سب سے بڑے داعی بن کر اس دنیا میں جلوہ گر ہوئے اورحق و صداقت اور امن و عافیت کا پرچم بُلند فرمادیا۔ معاشرے کے امن و سکون کو برباد کرنے والوں کو اس عمل سے روکنے کے لئے شَرْعی سزاؤں کا نِفاذ کیا چوری، بدکاری اور شراب نوشی جیسے گھناؤنے افعال کی سزائیں مقرّر کیںناجائز طریقے سے ایک دوسرے کا مال کھانے، سُود خوری اور جُوئے کو حرام قرار دیا ایک شخص کے ناحق قتل کوگویا ساری انسانیت کا قتل قرار دیا عرب قبائل میں اتحاد و اتفاق پیدا کیاغیر مسلم سے بھی بد عہدی اور وعدہ خلافی کو ممنوع قرار دیا نہ صرف خود مظلوموں کی دادرَسی کی بلکہ انسانیت کی بقا کیلئے یتیموں، بیواؤں، مسکینوں اور غریبوں کی کفالت کے فضائل بیان کئے نیز عورتوں، بچّوں، غلاموں اور بوڑھوں کے الگ الگ حقوق ذکر کرکے معاشرے کو اعتِدال کی راہ پر گامزن فرمایا۔ یہاں تک کہ بدامنی کی لہر کو روکنے کے لئے یہ کلمات فرمائے:جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے تو اسےمعاف رکھو اور اس کی بُرائی مت کرو۔ (ابو داؤد،4/359، حدیث:4899) اعلانِِ نبوت کے بعد اپنی 13 سالہ مکّی زندگی کفّار و مشرکین کے ظُلْم و سِتم سہتے ہوئے گزاری،آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چاہتے تو فتحِ مکّہ کے موقع پر ایک ایک شخص سے ظلم کا حساب لے لیتے مگر اپنے جانی دشمنوں کو بھی مُعاف کرکے عَفْو و دَرْگُزر اور امن و امان کی اعلیٰ مِثال قائم کی۔ جہاں تلوار و بازوئے طاقت سے کام لیا تو وہاں بھی انسانیت کو اس کی معراج تک پہنچانے، حقوقِ انسانی میں مساوات ،عَدْل و اِنْصاف اور اَمْن و امان کا نظام قائم کرنے کے عظیم مقاصِد کارفرما تھے اور اتنا ہی نہیں بلکہ اپنے صَحابہ کی ایسی بہترین تربیَت فرمائی کہ بعد میں آنے والے حکمران ان کے نَقْشِ قدم پر چل کر ملکی و قومی اور معاشرتی سطح پر امن و امان قائم کرتے نظر آئے۔ جس تیزی کے ساتھ دین ِاسلام کو قبول کیا گیا اور ابھی تک اس کے ماننے والوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ اسلام انسانوں کی بقا، سَلامتی اور معاشرے میں امن و امان کا سب سے بڑاعَلَم بردار ہے ۔

یاد رکھئے ! امن کو ہر سطح پر نافِذ کرنا اور پھر اسے برقرار رکھنا یقینا ً ایک مشکل مرحلہ ہے۔ اگر ہم امن و امان اور فلاح و کامیابی چاہتے ہیں تو ہم سب کوامن کے سب سے بڑے داعی، محسنِ انسانیت، نبیِ رَحْمت صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے عطا کردہ اصولوں اور شریعت کی پاسداری کرنی پڑے گی، اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ آئيے دعا کريں:اے اللہ کريم! ہمارے دىن و اىمان ، جان و مال اور عِزت و آبرو کى حفاظت فرمااور ہمىں اورہمارے شہروں کو اَمْن و سلامتى عطا فرما۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

زبان کا استعمال

Fri, 30 Aug , 2019
4 years ago

زبان کا استعمال

پیارے اسلامی بھائیو! زبان کا اچھا استعمال جنّت میں جانے کا ذریعہ جبکہ اس کا غلط استعمال ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے، اسے اس حکایت سے سمجھئے، حضرتِ سیِّدنا ابوبکر شبلی بغدادی علیہ رحمۃ اللہ الہادِی فرماتے ہیں:میں نے اپنے مرحوم پڑوسی کو خواب میں دیکھ کر پوچھا، مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ؟ یعنی اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ وہ بولا: میں سخت ہولناکیوں سے دو چا ر ہوا، مُنکَر نکیر کے سُوالات کے جوابات بھی مجھ سے نہیں بَن پڑ رہے تھے، میں نے دل میں خیال کیا کہ شاید میرا خاتمہ ایمان پر نہیں ہوا! اتنے میں آواز آئی:”دنیا میں زَبان کے غیر ضَروری استِعمال کی وجہ سے تجھے یہ سزا دی جارہی ہے۔“ اب عذاب کے فِرِ شتے میری طرف بڑھے۔ اتنے میں ایک صاحِب جو حُسن و جمال کے پیکر اور مُعَطَّر مُعَطَّر تھے وہ میرے اور عذاب کے درمیان حائل ہوگئے اور انہوں نے مجھے مُنکَر نکیر کے سُوالات کے جوابات یاد دلا دیئے اور میں نے اُسی طرح جوابات دے دیئے، اَلْحَمْدُلِلّٰہِعَزَّوَجَلَّ عذاب مجھ سے دُور ہوا۔ میں نے اُن بُزُرگ سے عرض کی:اللہ کریم آپ پر رحم فرمائے آپ کون ہیں؟ فرمایا: تیرے کثرت کے ساتھ دُرُود شریف پڑھنے کی بَرَکت سے میں پیدا ہوا ہوں اور مجھے ہر مصیبت کے وقت تیری امداد پر مامور کیاگیا ہے۔

(غیبت کی تباہ کاریاں، ص 116 بحوالہ القول البدیع، ص260)

آپ کا نامِ نامی اے صَلِّ عَلٰی

ہر جگہ ہر مصیبت میں کام آ گیا

زبان کے استعمال کی اہمیت جیسے کسی بڑے برتن کے اندر کئی طرح کے پھول رکھے ہوں اور اس کا ڈھکن کھولا جائے تو ان پھولوں کی خوشبو ہر طرف پھیل جاتی ہے، یوں ہی اگر کسی گٹر کا ڈھکن کھولا جائے تو بدبو کے اس قدر بھبکے اٹھتے ہیں کہ جس سے آس پاس کا خوشگوار ماحول بھی متأثر ہونے لگتا ہے، اسی طرح انسان جب بولتا ہے تو وہ اپنی شخصیت کا تعارف پیش کررہا ہوتا ہے، اس کے الفاظ اس کی سمجھداری، معلومات اور کردار کا پتا دیتے ہیں، جن لوگوں کا باطن میٹھے مدینے کے مدنی پھولوں سے مہکتا ہو، عشقِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے جن کا سینہ رچا بسا ہو وہ جب لب کھولتے اور بولتے ہیں تو شمعِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے پروانے کھنچے چلے آتے ہیں، لیکن بعض لوگ جب بولتے ہیں تو ان کی گفتگو اتنی فحش و بےحیائی سے بھرپور ہوتی ہے جیسے گٹر کا ڈھکن کھل گیا ہو یا ایسے بولتے ہیں جیسے دلوں پر تیر چلا رہے ہوں کیونکہ ان کی گفتگو طعنہ زنی اور دل آزاری پر مشتمل ہوتی ہے۔

الفاظ کب تیر بنتے ہیں؟ عموماً انسان کی گفتگو کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے، جیسا مقصد ویسی گفتگو، اگر سامنے والے کا دل خوش کرکے ثواب کمانے کا ارادہ ہو تو گفتگو بھی اچھے اور ستھرے الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے، اگر مخاطَب پر غصہ اتارنا مقصود ہے یا اسے طعنہ دینے، نیچا دکھانے اور ذلیل کرنے جیسے گناہوں بھرے مَقاصِد ہوں تو گفتگو بھی ان ہی الفاظ پر مشتمل ہوگی، نتیجۃً اس سے مخاطب کا دل پارہ پارہ ہوجائے گا۔

عموماً جن لوگوں کے الفاظ تیر بنتے ہیں عام طور پر جن لوگوں کو کسی پر تسلط حاصل ہوتا ہے جب وہ بولتے ہیں تو تولتے نہیں، نتیجۃً ایسوں کی گفتگو مخاطَبین (سامنے والوں) کے دلوں پر تیر برسنے کے مترادف ہوتی ہے، مثلاً ٹیچر کی اسٹوڈنٹ سے گفتگو، والدین کی اولاد سے، نگران کی ماتحت سے، سیٹھ کی نوکر سے، شوہر کی بیوی سے، مالک مکان کی کرائے دار سے۔ پھر زبان کا دُرست استعمال نہ کرنے والوں کی اپنی حالت ایسی ہوتی ہے کہ ہر وقت ٹینشن کے شکار، تکالیف میں مبتلا، اداسی ان کے چہروں پر چھائی رہتی، ان کی مسکراہٹ پھیکی پھیکی سی اور کم دورانیہ والی ہوتی ہے، لوگ ان کے قریب جانا پسند نہیں کرتے، جو مجبوری کی وجہ سے قریب ہوتے ہیں وہ دور ہونے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔

پہلے تولو! بعد میں بولو! لہٰذا یہ سوچنا ضَروری ہے کہ میرے بولنے کا مقصد کیا ہے، کسی کا دل دُکھانا یا خوش کرنا، گالی دینا یا دعا دینا، کسی کی حوصلہ افزائی کرکے اس کے لئے ترقّی کی راہیں ہموار کرنا یا پھر کسی کی حوصلہ شکنی کرکے اسے ناکارہ بنا دینا وغیرہ، میری تمام مسلمانوں سے فریاد ہے کہ جس طرح ہم اپنے ہاتھ کو چلاتے ہوئے سوچتے ہیں کہ کہیں یہ کسی کو لگ نہ جائے یا کسی چیز سے ٹکرا کر زخمی نہ ہوجائے تو اسی طرح زبان کے استعمال سے پہلے بھی ہمیں سوچنا اور اس مدنی پھول ”پہلے تولو! بعد میں بولو!“ پر عمل کرنا چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں احترامِ مسلم کا جذبہ عطا فرما کر پہلے تولنے اور بعد میں بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اداروں کی بربادی کےاسباب

کسی بھی فیکٹری،دفتر (Office)یا ادارے میں کام کرنےوالے افراد عموماًدوطرح کےہوتے ہیں : نگران(Supervisor) اور ماتحت،اِنہیں کے دم قدم سے دفاتر اور ادارے چلا کرتے ہیں۔ دفتری عملے کے باہمی تعلقات(Relationship) بھی دو طرح کے ہوتے ہیں:(1)نگران اور ماتحتوں کا تعلق (2) ماتحتوں کا آپس میں تعلق۔ جب تک یہ تعلقات ٹھیک رہتے ہیں دفترکاماحول خوشگواررہتاہے، کام اچھے اندازمیں ہوتاہےاورادارہ ترقی کرتاہے، جبکہ باہمی تعلقات کشیدہ ہونے کی صورت میں دفتر کاماحول خراب ہوتا، کام پر اثر پڑتاہے۔ دونوں قسم کے تعلقات کے بارے میں کچھ تفصیل ملاحظہ فرمائیے: (1)نگران اورماتحتوں کا تعلق نگران اگر اپنے ماتحتوں کی عزتِ نفس کا خیال رکھنے والا،خوش اخلاق ،نرم مزاج، مسکرا کر بات کرنے والا ،شیریں گفتار ہو تو دفتر یا ادارے میں حقیقی مدنی ماحول بنانے میں کافی آسانی ہوگی۔ فطری طور پر ہرانسان خوش اخلاق شخص کے قریب آتا ہے۔مذکورہ بالا اوصاف کا حامل نگران نہ صرف ہر دل عزیز بن جائے گا بلکہ ماتحت اس کی ہدایات پر بخوشی عمل کرکے ادارے کی شبانہ روز ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔اس کے برعکس تُند مزاج، بداخلاق، بات بات پرماتحتوں کو جھاڑنے لتاڑنے والے،ابے تبے کے عادی اور فحش زبان استعمال کرنے والے نگران کی کامیابی بہت مشکل ہے۔اس کے شر سے بچنے کے لئے ماتحت اگرچہ کچھ نہ کہیں تاہم ان کے دل میں نفرت بیٹھ جاتی ہے اور وہ اس کے سائے سے بھی بھاگتے ہیں جس کا نتیجہ ادارے کی بربادی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ (2)ماتحتوں کا آپس میں تعلق ایک ساتھ کام کرنے والے ماتحتوں کے باہمی تعلقات بھی ادارے کی ترقی کے لئے اہم ہوتے ہیں۔اگر آپس میں محبت اور اتفاق کا ماحول نہ ہو اور ساتھ بیٹھنے اور کام کرنے والوں کو ایک دوسرے کی شکل سے بھی نفرت ہو تو بھلا ایسا ادارہ کس طرح ترقی کرسکتا ہے۔ایک دوسرے کی عزت نہ کرنا،گالی گلوچ،فحش گفتار اور بحث و تکرار نیز دوسروں کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی باہمی تعلقات کو خراب کرنے اور گناہوں میں مبتلا ہونے کے اسباب ہیں۔ دنیا و آخرت کو برباد کرنے والے تین گناہ کام کے مقام (Work Place)پر ہونے والےگناہوں میں بدگمانی ، حسداور شماتت(دشمن ومخالف کی مصیبت پر خوش ہونا) بھی شامل ہیں۔ساتھ کام کرنے والے مسلمان کی ترقی(Promotion) نیز تنخواہ اور دیگر مراعات میں اضافے پر بدگمانی کرنا کہ افسروں کی خوشامد و چاپلوسی ،سفارش یا رشوت سے اسے حاصل کیا ہے۔حسد کرتے ہوئے تمنا کرنا کہ یہ ترقی چھن جائے،تنخواہ یا مراعات(سہولتیں) کم ہوجائیں اور اگر ساتھ کام کرنے والے کسی فرد کا نقصان ہوجائے تو اس پرشماتت یعنی خوش ہونا، فی زمانہ یہ بیماریاں عام ہیں۔یہ تینوں یعنی بدگمانی ،حسد اور شماتت ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں۔ان کی بدولت نہ صرف آخرت برباد ہوتی ہے بلکہ ان کی وجہ سے ادارے کا کام بھی متاثر ہوتا ہے۔ باطنی بیماریوں کا علاج ضروری ہے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ دیگر گناہوں کے ساتھ ساتھ بدگمانی ،حسد اور شماتت وغیرہ سے بھی بچے اور اگر ان کا شکار ہوچکا ہو تو علاج کا سامان کرے۔ان تینوں گناہوں کی پہچان حاصل کرنےنیز ان کے اسباب اور علاج کی معلومات کے لئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب”باطنی بیماریوں کی معلومات“کا مطالعہ فرمائیے۔ میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ خدارا !جس طرح دنیوی بیماریوں سے ڈرتے اور ان کے علاج کی تدبیر کرتے ہیں اسی طرح بلکہ اس سےبھی زیادہ گناہوں کی بیماریوں سے خوف کھائیں اور مبتلا ہونے کی صورت میں علاج فرمائیں۔ خدا کی قسم!گناہوں کے امراض دنیا اور آخرت دونوں میں باعثِ نقصان اور ایمان برباد ہونے کی صورت میں ہمیشہ کے لئے جہنم کا سامان ہیں۔